خبریں

جیلوں میں بند 3 میں سے 1 زیر سماعت قیدی یا تو دلت ہیں یا آدیواسی

’کریمنل جسٹس ان دی شیڈو آف کاسٹ ‘ نام سے شائع ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ حقائق  بتاتے ہیں  کہ پولیس کے ذریعے دلت اور آدیواسیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

(علامتی تصویر : رائٹرس)

(علامتی تصویر : رائٹرس)

نئی دہلی: ہندوستان کی جیلوں میں ایس سی اور ایس ٹی کی تعداد ان کی آبادی کے مقابلے کافی زیادہ ہے۔ ایک نئی اسٹڈی میں اس کا انکشاف ہوا ہے۔ ہندوستان کی آبادی میں ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی کے لوگوں کی تعداد 24 فیصد ہے لیکن جیلوں میں 34 فیصد سے زیادہ قیدی ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی کے ہیں۔ اس پر ‘ کریمنل جسٹس ان دی شیڈو آف کاسٹ ‘ کے نام سے ایک رپورٹ  نیشنل دلت موومنٹ فار جسٹس اور نیشنل سینٹر فار دلت ہیومن رائٹس کے ذریعے مشترکہ طور پر تیار کی گئی ہے۔ اس میں کافی ساری جانکاری نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ کچھ ریاستوں میں ان کی کل آبادی اور  جیلوں میں ایس سی ایس ٹی  کے فیصد کے بیچ  عدم مساوات اعلیٰ سطح پر ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ آسام، تمل ناڈو، مہاراشٹر اور راجستھان کی کارکردگی  سب سے خراب ہے۔ مثال کے لئے، تمل ناڈو میں یہ فرق 17 فیصد ہے۔ تمل ناڈو میں 38 فیصد زیر سماعت قیدی یا تو ایس سی ہیں یا ایس ٹی ہیں، جبکہ ریاست کی کل آبادی میں ان کا حصہ 21 فیصد ہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیاہے، ‘ یہ اعداد و شمار دلت اور آدیواسیوں کو نشانہ بنانے کے ایک پیٹرن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پولیس کے ذریعے اس کمیونٹی کے مسلسل ظلم وستم کی جانچ  ہونی چاہیے۔ ‘ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب دلت یا آدیواسی  کمیونٹی کے ممبر ظلم و ستم کی شکایت درج کراتے ہیں، تو ملزم اکثر متاثرین کے خلاف الٹے ایف آئی آر درج کر دیتے ہیں۔’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ، ‘ یہ ایس سی متاثرین کے ذریعے دائر شکایت کو ختم کرنے کے واحد ارادے سے کیا جاتا ہے۔ وہیں الٹے ایف آئی آر کی وجہ سے  مظلوم ایس سی  کے لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اور ان معاملوں میں ملزم کے طور پر ان پر مجرمانہ مقدمہ دائر کئے جا رہے ہیں۔ ‘ 2015 کی این سی آر بی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 55 فیصد قیدی دلت، آدیواسی اور مسلمان ہیں۔ یہ اعداد و شمار آبادی کے ان کے کل حصے کے مقابلے میں کافی زیادہ ہیں۔

 2011 کی مردم شماری کے مطابق، تینوں کمیونٹی کا ہندوستان میں کل آبادی کا 39 فیصد حصہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موت کی سزا پانے والوں میں سب سے زیادہ فیصد پسماندہ طبقے کے لوگوں کی ہے۔ نیشنل لاء یونیورسٹی کی 2016 کی ‘ ڈیتھ پینالٹی  انڈیا رپورٹ ‘ کے مطابق سزائے موت  پانے والے 279 قیدیوں میں سے 127 لوگ یا 34 فیصد لوگ پسماندہ طبقے سے تھے۔ جنرل کٹیگری  کے لوگ 24 فیصد تھے۔

اس کے علاوہ 20 فیصد لوگ مذہبی طور پر  اقلیتی طبقے کے تھے۔ گجرات میں یہ سزا پانے والوں میں 79 فیصد مذہبی اقلیت تھے۔ یہاں پر 19 لوگوں کو سزائے موت دی گئی جس میں سے 15 لوگ مسلم تھے۔ رپورٹ کے مطابق، متعصب لوگ  دلت کمیونٹی کے  استحصال  میں اہم رول ادا کرتے  ہیں۔ عام طور پر پولیس ظلم و ستم   کے شکار بنیادی طور پر دلت اور آدیواسی  ہوتے ہیں۔ ان کو اکثر پکڑ لیا جاتا ہے اور خیالی الزامات میں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کے ذریعے جانچ  میں تاخیر  کی وجہ سے سالوں سال دلت اور آدیواسی  قیدی جیلوں میں بند ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، ‘ کئی قیدی جیلوں میں سڑ جاتے ہیں کیونکہ پولیس وقت پر تفتیش پوری نہیں کرتی اور چارج شیٹ داخل نہیں کرتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی سنگین معاملہ ہے کیونکہ ایسے لوگ جیل میں رہتے ہیں اور ان کے خلاف پولیس کا کوئی مقدمہ نہیں چلتا ہے۔’