فکر و نظر

اتر پردیش : ایس پی بی ایس پی اتحاد میں کیوں شامل نہیں ہوئی کانگریس؟

اتر پردیش مہا گٹھ بندھن میں کانگریس کی شمولیت کا شروع سے کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن اچھی حکمت عملی نہ ہونے سے کانگریس اپنا رخ سلیقے سے پیش نہ کر سکی۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

سلمان خورشید، سنجے سنگھ، رتنا کماری سنگھ، پردیپ جین آدتیہ، پی ایل پونیا، آر پی این سنگھ، راج ببر، عمران مسعود، جِتِن پرساد، سری پرکاش جائسوال، اجئے رائے، نغمہ، اظہرالدین، ظفر علی نقوی کے ساتھ راہل، سونیا اور پرینکا کو ملا کر کوئی دو درجن لیڈران ہیں جو اس سال ہونے والے لوک سبھا انتخاب اتر پردیش کی کسی سیٹ سے لڑنے کے خواہش مند ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے  2009 میں ہوئے لوک سبھا انتخاب  میں ملک کی کثیر آبادی والے اور سیاسی نقطہ نظر سے بے حد اہم اس صوبے میں جیت درج کرائی تھی۔ غالباً اسی کو نظر میں رکھ کر راہل گاندھی شروع سے بہوجن سماج پارٹی ا ور سماج وادی پارٹی کے ساتھ کسی بھی طرح کا اتحاد کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔

اتر پردیش کی 80 یعنی ساری ہی لوک سبھا سیٹوں پر لڑنے کے لیے خم ٹھونکنے والے کانگریس کے ان پہلوانوں کا دم خم دیکھا چاہیے۔ یہ ایک کھلا بھید ہے کہ کانگریس کے دو صوبائی صدر (2014 میں جنہوں نے اتر پردیش سے لوک سبھا الیکشن  لڑا تھا) ممبئی کے شمال مغربی سیٹ سے اس بار کا لوک سبھا الیکشن لڑنے کی جگاڑمیں ہیں۔ اسی سے کانگریس کے ان رہنماؤں  کی خود اعتمادی کا پتہ چل جاتا ہے، کیوں کہ ممبئی کی مذکورہ سیٹ کانگریس کی پکی سیٹ مانی جاتی ہے اور یہاں سے فاتح رہیں رکن پارلیامان  پریا دت نے اس بار الیکشن  لڑنے سے انکار کر دیا ہے۔

اتر پردیش مہا گٹھ بندھن میں کانگریس کی شمولیت کا شروع سے کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن اچھی حکمت عملی نہ ہونے سے کانگریس اپنا رخ سلیقے سے پیش نہ کر سکی۔ اسی لیے لکھنؤ کی پریس کانفرنس میں جارح اور تقریباً ناراض بی ایس پی سُپریمو مایاوتی نے علی الاعلان کہا کہ کانگریس کبھی بھی قابل اعتماد نہیں رہی ہے۔

ہندوستانی سیاست میں علاقائی اتحادی پارٹیوں کا رویہ ایکدم تحقیر آمیز و متکبرانہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والے این ڈی اے میں شامل شیو سینا کا رویہ اور انداز ہی دیکھ لیجیے۔ ان کے غصے اور سخت الفاظ کو نہ تو سرکار کے استحکام، نہ ہی مستقبل کے الیکشن  پر پڑنے والے اثرات سے کچھ لینا دینا ہے۔ ایسی باتوں سے راہل کو کچھ سیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے یہ کہ اتر پردیش میں یا کہیں بھی مہاگٹھ بندھن ہمیشہ تضادات سے بھرا ہوگا۔ اس میں ذو معنی باتیں اور آپسی مقابلہ آرائی لگاتار ہوتی رہے گی۔

اسی لیے مئی 2019 میں ہونے والے الیکشن سے پہلے اور الیکشن  کے دوران گھات لگا کر، سازشاً، اعلانیہ یا کمزوریوں کا خوف دکھاتے ہوئے ڈرا دھمکا کر اتحادیوں کو قابو میں کیے جانے کی کوشش کے قوی امکانات ہیں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم نریندر مودی کی وہ بات بہت معنی خیز ہے جو انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے ساتھ ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے بی جے پی اور  بی ایس پی کے تعلقات کی  بابت کہی کہ ایسی باتیں اس طرح بر سرِ عام ٹی وی چینل پر نہیں کہی جا سکتیں۔

اس کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ اجیت سنگھ کا راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) ہو یا شرد پوار کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی)، دونوں ہی آئندہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج دیکھتے ہوئے این ڈی اے کی طرف پلٹی مارنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ اسی لیے شاید یو پی میں آر ایل ڈی کو مہا گٹھ بندھن کا باقاعدہ حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔ جبکہ کہا جا رہا ہے کہ درپردہ اکھلیش یادو اور  مایاوتی دونوں نے ہی اجیت سنگھ اور ان کے صاحبزادے جینت کو اپنی پارٹی سے ٹکٹ دیے جانے کا آفر کیا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے سوچ یہی ہے کہ بی ایس پی یا ایس پی سے جڑ جانے پر ان کے ادھر ادھر ہونے کا خطرہ ٹل جائے گا۔

فوٹو: UPCongressTwitter

فوٹو: UPCongressTwitter

یو پی میں کانگریس ووٹ بینک  (جتنا اورجیسا بھی وہ ہے) بی ایس پی ، ایس پی اتحاد کے بجائے بی جے پی  کو نقصان پہنچانے کی زیادہ اہلیت رکھتا ہے۔ 2009 میں ہوئے لوک سبھا انتکابات  کے نتائج کافی کچھ کہتے ہیں۔ اس وقت کانگریس وہاں 21 سیٹیں لے گئی تھی۔ جبکہ ایس پی کو 23 ، بی ایس پی کو 20 سیٹیں ملی تھیں۔ آر ایل ڈی کے حصے میں بھی 5 سیٹیں تھیں۔ بی جے پی  کو 10 سیٹیں ہی ہاتھ آئی تھیں۔ سی ووٹرس ، سی ایس ڈی ایس کے سروے کہہ رہے ہیں کہ 2019 کے الیکشن  میں بھی بی ایس پی اور  ایس پی کا اتحاد  2009 کے الیکشن  جیسا کچھ کر سکتا ہے۔ اسی لیے یہ امکانات بھی ہیں کہ کانگریس  اور آر ایل ڈی بی جے پی  کی  30 سیٹوں کے ٹارگیٹ کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں۔

اتر پردیش میں سیٹوں کی تقسیم کے ضمن میں کانگریس کو خدشہ ہے کہ اس صورت میں بی ایس پی، ایس پی اتحاد اس سے مدھیہ پردیش، پنجاب، راجستھان ، مہاراشٹر میں کچھ سیٹوں کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ یہ سیٹیں جو تقریباً ایک درجن ہو سکتی ہیں، اتحاد کو دے دی جائیں تو کانگریس کو پارلیامنٹ میں اس کے ہدف تک پہنچنے میں دقتیں آ سکتی ہیں، جبکہ یو پی میں اسے اتنی کامیابی ملنے کے امکانات کم ہیں۔

یو پی میں یا قومی سطح پر مہا گٹھ بندھن کے پیچھے کئی کڑوے حقائق ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ غیر بی جے پی گٹھ بندھن کی علاقائی پارٹیاں راہل گاندھی کو وزیر اعظم کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کرنا نہیں چاہتیں۔ کانگریس صدر کو اہمیت اسی وقت مل سکتی ہے جب ان کی پارٹی لوک سبھا میں کم از کم آدھے میں سے آدھی سیٹیں لے آئے۔ لوک سبھا میں کل 543 نشست ہیں، جن کا آدھا 272 ہوتا ہے۔ اس طرح کانگریس کو کم از کم 136 سیٹیں حاصل ہوں، جو ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ کیوں کہ ابھی لوک سبھا میں پارٹی کی محض 48 سیٹیں ہی ہیں۔

دوسرا یہ کہ جن صوبوں جیسے جموں کشمیر، ہماچل پردیش، پنجاب، ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، تلنگانہ، کرناٹک، کیرل، آسام، جھارکھنڈ، گجرات اور شمال مشرقی حصوں میں جہاں کانگریس کی بی جے پی سے سیدھی ٹکر ہے وہاں کانگریس  پارٹی کو اچھا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی بنگال، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، بہار، مہاراشٹر، دہلی (عآپ کے ساتھ)، اُڑیسہ (ابھی وہاں کوئی اتحادی نہیں ہے) اور اتر پردیش میں اتحادی پارٹیوں کو دم خم دکھانا ہوگا۔ اس طرح اگر بی جے پی، این ڈی اے گٹھ بندھن کو کانگریس اور  غیر بی جے پی  اتحادی مل کر 225 سے 235 سیٹوں کے بیچ روک دیتے ہیں تو مہا گٹھ بندھن کے لیے موقع ہوگا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کر لے۔