فکر و نظر

بہار میں کیوں ساتھ رہیں گے آرجے ڈی اور کانگریس؟

کانگریس کے نظریے سے دیکھیں تو اس کو آر جے ڈی کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ 1990 میں اقتدار سے بےدخل ہونے کے بعد اب تک یہ پارٹی بہار میں اپنا مینڈیٹ واپس نہیں حاصل کر پائی ہے۔

فوٹو : تیجسوی یادو فیس بک پیج

فوٹو : تیجسوی یادو فیس بک پیج

گزشتہ دنوں اے بی پی نیوز کے ایک پروگرام میں جب  آر جے ڈی اور بہار میں اپوزیشن کے رہنما  تیجسوی یادو سے ریاست میں کانگریس سے اتحاد کے متعلق سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا، فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔  سب لوگ ساتھ رہیں‌گے، مل‌کر انتخاب لڑیں‌گے اور جیتیں‌گے۔  ہمارا مقصد ایک ہے۔

دراصل اتر پردیش میں ایس پی-بی ایس پی کے اتحاد میں کانگریس کوشامل نہیں کئے جانے اورتیجسوی یادو کےلکھنؤ پہنچ‌کر دونوں پارٹیوں کو مبارکباد دینے کے بعد میڈیا اور سیاسی گلیاروں میں اس  کو لےکر بات ہونے لگی ہے کہ بہار میں آر جے ڈی اور کانگریس کے پرانے اتحاد کا کیا ہوگا؟

تیجسوی کے لکھنؤ جانے پر طنز کرتے ہوئے بی جے پی رہنما اور بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی نے ٹوئٹ کیا،یوپی میں ایس پی-بی ایس پی نے کانگریس کو اکیلا چھوڑ دیا۔  بہار میں بے مینڈیٹ کانگریس کی کوکوئی پوچھ نہیں رہا۔

اپوزیشن کے طنز ، میڈیا اور سیاسی گلیاروں کی قیاس آرائیوں کے بعد کل تیجسوی نے یہ صاف کر دیا کہ بہار میں کانگریس اور آر جے ڈی کا ساتھ بنا رہے‌گا۔  پہلے لالو یادو اور سونیا گاندھی اہم مواقع پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے اور اب ان دونوں کی جگہ      تیجسوی یادو اور راہل گاندھی نے لے لی ہے۔  دراصل ابھی بہار میں جو زمینی حالت ہے اس میں آر جے ڈی کانگریس کو درکنار نہیں کرے‌گی۔  دونوں جماعت ایک دوسرے کے پرانے اور بھروسہ مند مددگار ہیں اور اتر پردیش کے مقابلے بہار میں مہاگٹھ بندھن کے سامنے این ڈی اے کا چیلنج کہیں زیادہ بڑا ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نتیش کمار کی پارٹی کے این ڈی اے میں پھر سے شامل ہونے کے بعد بہار میں این ڈی اے ابھی 2014 کے مقابلے میں انتخابی فارمولے کے لحاظ سے زیادہ مضبوط دکھائی دیتی ہے۔  ایسے میں      تیجسوی جے ڈی یو کے الگ ہونے کے بعد سے ہی کانگریس کو ساتھ رکھتے ہوئے مہاگٹھ بندھن کا دائرہ بڑھا رہے ہیں۔  پہلے انہوں نے جیتن رام مانجھی، اس کے بعد اپیندر کشواہا کو جوڑا۔  وہ چھوٹی اور نئی جماعتوں کو بھی ساتھ لے رہے ہیں۔  مکیش ساہنی کی نئی-نویلی پارٹی وی آئی پی یعنی کہ وکاس شیل انسان پارٹی کو بھی انہوں نے اپنے ساتھ ملایا ہے تو بائیں بازو ں کی جماعتوں سے بھی آر جے ڈی کے اتحاد ہونے کے تذکرے ہیں۔

کچھ دوسری وجہیں بھی ہیں جن کی وجہ آر جے ڈی اور کانگریس کا ساتھ بنا رہے‌گا۔  آر جے ڈی علاقائی پارٹی ہے، لالو جیل میں ہیں ؛ ایسے میں قومی سطح پر سیاسی سرپرستی، اخلاقی اور سیاسی حمایت کے لئے بھی آر جے ڈی کانگریس کا ساتھ نہیں چھوڑے‌گی۔  ساتھ ہی لالو یادو کے جیل میں ہونے کی وجہ سے بہار میں آر جے ڈی-کانگریس کے درمیان قیادت کو لےکر یوپی اور دیگر ریاستوں کی طرح ہوڑ بھی نہیں ہے جہاں مایاوتی یا ممتا بنرجی راہل کی قیادت کو قبول کرنے کو تیار نہیں دکھائی دیتی ہیں۔  تیجسوی نے راہل گاندھی کو رہنما مان لیا ہے۔

فائل فوٹو : پی ٹی آئی

فائل فوٹو : پی ٹی آئی

کانگریس کے نظریہ سے دیکھیں تو اس کو آر جے ڈی کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ 1990 میں اقتدار سے بےدخل ہونے کے بعد اب تک یہ پارٹی بہار میں اپنا مینڈیٹ واپس نہیں حاصل کر پائی ہے۔  منڈل اور کمنڈل کے دور میں اتر پردیش اور بہار سے اقتدار سے بےدخل ہونے کے بعد بیچ-بیچ میں کانگریس نے یوپی میں اچھا اور چونکانے والا مظاہرہ کیا ہے مگر بہار میں وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔  ایسے اس کے لئے آر جے ڈی کے ساتھ گٹھ بندھن کئے بنا انتخاب میں جانا بہار کی سیاسی لڑائی میں خودکشی کرنے جیسا ہوگا۔

دوسری اور کچھ تاریخی اور کچھ موجودہ حالات کی وجہ سے اونچی کہیں جانے والی ذاتوں اور مسلمانوں کے درمیان کانگریس کو لےکر جو کشش رہی ہے وہ اس پارٹی کو آر جے ڈی کے لئے زیادہ مددگار بنا دیتی ہے۔  آر جے ڈی کو لگتا ہے کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد سے اس کے مشہور ایم وائی (مسلم-یادو) توفارمولے کو چٹانی مضبوطی مل جاتی ہے۔  آر جے ڈی کانگریس کے ساتھ کے بہانے کچھ حد تک اپنے لئے اشرافیہ  کی حمایت حاصل کرنے کی بھی امید رکھتی ہے۔

بہار میں کانگریس کے کچھ رہنما دسمبر کے اسمبلی نتائج سے پرجوش ہوکر برابری کی دعوےداری کرتے ہوئے 20 سیٹ کی مانگ‌کر رہے ہیں۔  ایسا ہونا انتخابی موسم میں فطری بھی ہے۔  آر جے ڈی-کانگریس کے درمیان سیٹوں کو لےکر مول-بھاؤ اور دونوں جماعتوں کے رہنماؤں اور امیدواروں کے دعوے ہوتے رہیں‌گے لیکن دونوں جماعت تجربہ کار ہیں اور اس کا امکان نہیں ہے کہ آر جے ڈی یوپی کی طرح کانگریس کو الگ کرکے انتخابی میدان میں جائے۔دونوں ہی جماعتوں کی طرف سے ایسے کوئی اشارے بھی نہیں ہیں۔


یہ بھی پڑھیں : اتر پردیش میں ایس پی بی ایس پی اتحاد میں کیوں شامل نہیں ہوئی کانگریس؟


تیجسوی کے جس لکھنؤ سفر کے بہانے آر جے ڈی-کانگریس رشتوں کی بات  ہوئی اس  کی اپنی خاص سیاسی اور انتخابی اہمیت دکھائی دیتی ہے۔  تیجسوی کا مایاوتی اور اکھلیش سے ملنا بی جے پی کے خلاف مہاگٹھ بندھن کو وسیع بنانے کی سمت میں اٹھایا گیا قدم دکھائی دیتا ہے۔       تیجسوی آنے والے دنوں میں ممتا بنرجی سے بھی ملنے والے ہیں۔  لکھنؤ کی ملاقات کے ذریعے لوک سبھا میں 20 فیصد سے زیادہ رکن پارلیامان کو بھیجنے والے دو ریاستوں کے تین بڑی سیاسی بنیاد والی علاقائی جماعتوں نے ملک بھر میں بڑی سماجی صف بندی کا سیاسی پیغام دیا ہے۔

یوپی میں ایس پی-بی ایس پی کا کانگریس سے اتحاد نہیں کرنے کے سوال پر تیجسوی نے کہا کہ یوپی میں بی جے پی کو ہرانے کے لئے ایس پی-بی ایس پی ہی کافی ہے۔  منگل کو پٹنہ میں انہوں نے کہا کہ جو جہاں بی جے پی کو ہرائے، اس کا تعاون کرنا پڑے‌گا۔  دراصل حزب مخالف جماعت بی جے پی کے خلاف ملک گیر مورچہ بناتے ہوئے مگر ریاستی سطح پر زمینی حالات کے حساب سے اتحاد بناکر لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔اس حکمت عملی کے تحت انتخابات سے پہلے کانگریس کے ساتھ اتحاد کا امکان پوری طرح سے موجود ہے اور انتخابات کے بعد کانگریس سے مول-بھاؤ کرنے کی ان کی طاقت بھی بڑھ جاتی ہے۔

فوٹو : @yadavtejashwi

فوٹو : @yadavtejashwi

مایاوتی اور ایس پی سے تیجسوی کی ملاقات کی سیاسی کے ساتھ-ساتھ انتخابی اہمیت بھی ہے۔  خاص کر بی ایس پی کے ساتھ۔  اس انتخابی تال میل میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی نہیں دکھتی ہے کیونکہ تینوں کا بنیادی علاقہ بھی الگ الگ ہے۔

بی ایس پی ایک قومی پارٹی ہے۔  ہندی علاقے کی ہر ریاست میں اس کے پاس ایک چھوٹا سا صحیح مگر پرعزم ووٹر ہے۔  جس کی مثال گزشتہ سال دسمبر میں آئے اسمبلی انتخابی نتائج میں دیکھنے کو بھی ملی جب اس کو چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں قابل قدر ووٹ ملے۔  مایاوتی کے حامی’سائلینٹ ووٹر’سمجھے جاتے ہیں۔بہار کے اسمبلی انتخابات میں بھی بی ایس پی ٹھیک ٹھاک ووٹ لاتی رہی ہے اور پہلے اس کے کچھ ایم ایل اے بھی ہوتے رہے ہیں۔  بہار کے ان حصوں میں بی ایس پی کا زیادہ اثر ہے جو یوپی سے سٹے ہوئے ہیں۔

     تیجسوی یادو نے لکھنؤ پہنچ‌کر بی ایس پی صدر مایاوتی کا پیر چھوکر ان سے دعاء لی اور اس کی تصویر ٹوئٹر پر بھی لگائی۔  مانا جا رہا ہے کہ      تیجسوی مایاوتی سے دعاء لےکر مہاگٹھ بندھن کے لئے ان کے ووٹر کی حمایت کی بھی خواہش بھی رکھتے ہیں۔  اس ملاقات سے آر جے ڈی کی سماجی انصاف والی امیج مضبوط ہوتی ہے اور اس کی طرف دلت ووٹ کے پولرائزیشن کا امکان بھی بڑھے‌گا۔  ساتھ ہی پچھڑا اور دلتوں کا ساتھ آنا شمالی ہندوستان کی سیاست میں ایک نئے باب کی شروعات کی وجہ بن سکتی ہے۔

آر جے ڈی اور بی ایس پی اس سے پہلے تب قریب آئے تھے جب مایاوتی نے راجیہ سبھا میں دلت مدعوں کو اٹھانے سے روکے جانے پر ایوان سے استعفیٰ دے دیا تھا، تب آر جے ڈی صدر لالو پرساد یادو نے ان کو بہار سے راجیہ سبھا بھیجنے کی تجویز دی تھی۔  مایاوتی نے حالانکہ اس تجویز کے لئے شکریہ کہتے ہوئے اس سے انکار کر دیا تھا، لیکن اس کے بعد دونوں جماعت ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے۔  اور اب تیجسوی-مایاوتی ملاقات کے بعد مایاوتی نے کہا ہے کہ سی بی آئی لالو پرساد کو بغیر وجہ کے پریشان کر رہی ہے۔

وہیں سابق مرکزی وزیر دیویندر یادو جیسے بہار میں ایس پی کے کچھ پاپولر رہنما ہیں، پارٹی کا ایک ڈھانچہ ہے، ایسے میں      تیجسوی چاہیں‌گے کہ ایس پی سے رسمی اتحاد نہ صحیح لیکن کسی نہ کسی طرح کا تال میل ہو۔  جس میں ایسا کچھ ہو سکتا ہے کہ یوپی میں آر جے ڈی کے کچھ امیدوار ایس پی اور بہار میں ایس پی کے کچھ امیدوار آر جے ڈی کے ٹکٹ پر لڑے۔