فکر و نظر

نتیش کمار کا دعویٰ ؛ ہماری حکومت میں نہیں ہوئے فسادات، جانیے کیا ہے حقیقت

خصوصی رپورٹ:نتیش کمار نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ ا ن کی 13 سالہ حکومت  میں صرف  ایک بار نوادہ میں کرفیو لگا  اور وہ بھی محض 48 گھنٹے کے لئے۔ مگر میڈیا رپورٹس کی مانیں، تو ان کا یہ دعویٰ بھی سچائی سے پرے ہے۔

گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل کو دئے تقریباً ایک گھنٹے کے انٹرویو میں جےڈی یو سپریمو اور بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے دعویٰ کیا کہ ان کی اب تک کی مدت  میں بہار میں فساد نہیں ہوا۔ انہوں نے بی جے پی کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا، آج تک تین چیزوں سے ہم نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، اتحاد چاہے جس کے ساتھ بھی ہو۔ کرائم، کرپشن اور کمیونلزم۔ اب اس حالت میں آپ ذرا بتائیے کہ بی جے پی کے ساتھ سب دن رہے، چاہے بی جے پی پر جو الزام لگے۔ اور بہار کے تناظر میں دیکھ لیجئے۔ زیادہ وقت تو بی جے پی کے ساتھ اتحاد کی حکومت ہم نے چلائی۔ آپ ذرا تصور کرکے دیکھ لیجئے، کہاں فساد ہوا۔ ‘

انہوں نے آگے کہا، آج تقریباً 13 سال ہو رہا ہے۔اس کے بارے میں چاہے جس طرح سے، جو بھی مشتہر کیا جائے، بہار میں کوئی فساد نہیں ہوا۔ ان 13 سالوں میں صرف ایک بار کچھ وقت کے لئے…زیادہ سے زیادہ 48 گھنٹے کے لئے نوادہ میں کرفیو لگا تھا۔ ‘لیکن، فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کو لےکر وزارت داخلہ کی طرف سے وقت وقت پر پیش کئے گئے اعداد و شمارنتیش کمار کے دعوے کی پول کھول رہے ہیں۔

وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق، بہار میں سال 2006 سے سال 2017 کے درمیان یعنی11 سالوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی 564 واردات ہوئیں جن میں کئی جانیں گئیں۔24 نومبر 2009 کو لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارت داخلہ کی طرف سے دئے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2006 میں فرقہ وارانہ تشدد کی 40 واردات اور سال 2007 اور سال 2008 میں 26-26 واردات ہوئیں۔

اسی طرح 27 نومبر 2012 کو لوک سبھا میں ہی فرقہ وارانہ تشدد کو لےکرپوچھے گئے سوالوں کے جواب میں وزارت داخلہ نے جو اعداد و شمار دئے تھے اس کے مطابق، سال 2009 میں بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کی کل 40 واردات ہوئی تھیں جن میں چار لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ سال 2010 میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کی 40 واردات ہی درج کی گئی تھیں، لیکن سال 2009 کے مقابلے میں دو گنا یعنی 8 لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2011 میں فرقہ وارانہ تشدد کی محض 26 واردات درج ہوئی تھیں جن میں چار لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔


یہ بھی پڑھیں :سیتا مڑھی سے گراؤنڈ رپورٹ: ’ ایک گھنٹے کا وقت دیجیے سبھی مسلمانوں کو ختم کردیں گے ‘


سال 2012 میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں گراوٹ آئی تھی۔ وزارت داخلہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2012 میں فرقہ وارانہ تشدد کی محض 21 واردات درج کی گئی تھیں، جن میں تین لوگوں کی جان گئی تھی۔ لیکن، حیرت انگیز طور پر اس کے بعد کے سال میں یعنی سال 2013 میں فرقہ وارانہ تشدد کی واردات میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہوا تھا۔ سال 2013 میں فرقہ وارانہ تشدد کی 63 واردات ہوئی تھیں اور سات لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ پورے ملک میں اس سال فرقہ وارانہ تشدد کی 823 واردات درج کی گئی تھیں۔

4 سالوں میں 282 فسادات

بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار کے تجزیے میں ایک نئی بات یہ بھی سامنے آئی کہ سال 2013 کے بعد کے سالوں میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں بہت زیادہ گراوٹ نہیں آئی، بلکہ کچھ ایک سالوں میں اس میں اچھال ہی آیا۔11 دسمبر 2018 کو رکن پارلیامان جگل کشور اور گورو گگوئی کے ذریعے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں ملے اعداد و شمار کی مانیں، تو سال 2014 میں بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کی 61 واردات درج کی گئی تھیں، جن میں پانچ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

وہیں، سال 2015 میں فرقہ وارانہ تشدد کی 71 واردات ہوئی تھیں۔ ان تشدد آمیز واردات میں 20 لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔ یہاں یہ بھی بتا دیں کہ سال 2015 میں بہار میں اسمبلی کا انتخاب ہوا تھا۔ اس انتخاب میں بہار میں بی جے پی،ایل جے پی اورراشٹریہ لوک سمتا پارٹی نے مل‌کر انتخاب لڑا تھا جبکہ جے ڈی یو اور آر جے ڈی  ایک ساتھ تھے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2016 میں بہار فرقہ وارانہ تشدد کی 65 واردات درج کی گئی تھیں جن میں 4 لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔


یہ بھی پڑھیں : یوگی آدتیہ ناتھ کے اس دعوے میں کتنی سچائی ہے کہ ان کی مدت کار میں کوئی فساد نہیں ہوا؟


سال 2017 میں بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کی واردات سب سے زیادہ 85 واردات درج کی گئیں۔ ان میں تین لوگوں کی موت ہو گئی تھی جبکہ 321 لوگ زخمی ہوئے تھے۔سال 2018 میں رام نومی کے وقت تو بہار کے آدھا درجن اضلاع میں فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ بی جے پی رکن پارلیامان گریراج سنگھ اور اشونی چوبے نے متنازعہ بیان بھی دئے تھے۔اس کو لےکرنتیش کمار نےعوامی طور پر لوگوں کو ہدایت دینی پڑی تھی کہ وہ لوگوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں۔

آدھا درجن علاقوں میں کرفیو بھی لگے

نتیش کمار نے ٹی وی انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ 13 سالوں کی  ان کی مدت  میں محض ایک بار نوادہ ضلع میں کرفیو لگا تھا اور وہ بھی محض 48 گھنٹے کے لئے۔ مگر میڈیا رپورٹوں کی مانیں، تو یہ دعویٰ بھی سچائی سے پرے ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دو کمیونٹی میں کشیدگی کی وجہ سےپچھلے چار سالوں میں ہی بہار کے تقریباً آدھا درجن علاقوں میں کرفیو لگانا پڑا۔

گزشتہ سال رام نومی کے جلوس کو لےکر ہوئی فرقہ وارانہ جھڑپ کی وجہ سے نہ صرف نوادہ بلکہ اورنگ آباد میں بھی کرفیو لگایا گیا تھا۔ ان فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات کو لےکر حزب مخالف پارٹیوں نےنتیش کمار پر ڈھیلائی برتنے کا الزام لگایا تھا۔ بھاگل پور میں فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کے معاملے میں اشونی چوبے کے بیٹے اریجیت شاشوت کے خلاف شکایت درج ہوئی تھی، لیکن پولیس نے کئی دنوں تک ان کو گرفتار نہیں کیا تھا۔ بعد میں اریجیت نے خود کورٹ میں سرینڈر کر دیا تھا۔سال 2014 میں اکتوبر میں کشن گنج میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کی واردات ہوئی تھی، جس کے بعد انتظامیہ نے کرفیو لگایا تھا۔ اس سے پہلے سال 2013 میں اگست مہینے میں نوادہ میں بھی کرفیو لگانا پڑا تھا۔


یہ بھی پڑھیں :بہار میں کیوں بڑی تعداد میں تلواریں بر آمد ہو رہی ہیں؟


غور طلب ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کا ریکارڈ وزارت داخلہ اپنی سطح پر تیار نہیں کرتا ہے۔ بلکہ ریاستی حکومتوں کی طرف سے دئے گئے حقائق  کی بنیاد پر ہی وزیر داخلہ لوک سبھا میں اعداد و شمار پیش کرتے ہیں۔20 دسمبر 2017 کو لوک سبھا میں فرقہ وارانہ تشدد کو لےکر رکن پارلیامان پی ایل پنیا کے ذریعے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں وزیر مملکت برائے داخلہ ہنس راج گنگارام اہیر نے کہا بھی تھا، لاء اینڈ آرڈر کی بحالی، تفتیش اورجانچ، مجرموں کو سزا دلانے، جان اور مال کی حفاظت وغیرہ اور ضروری ڈیٹا رکھنے کی ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر ہے۔ ‘

اس کا مطلب ہے کہ نتیش حکومت نے فرقہ وارانہ تشدد پر وزارت داخلہ کو جو اعداد و شمار دئے تھے، انہی اعداد و شمار کو وزارت داخلہ نے ایوان میں رکھا تھا۔ راشٹریہ جنتا دل (آرجے ڈی)نےنتیش کے دعوے پر تیکھا رد عمل دیا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما شیوانند تیواری کہتے ہیں، نوادہ میں بڑا فساد ہوا۔ اورنگ آباد میں فساد ہوا۔ پچھلے ہی سال سیتامڑھی میں تشدد ہوا اور ایک مسلم بزرگ کو زندہ جلا دیا گیا۔ ‘انہوں نے کہا، ‘اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی نتیش کمار کی ہمت کیسے ہوتی ہےاور دعویٰ کرنے کی کہ ان کے وقت میں فساد نہیں ہوا۔نتیش کمار سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔ ‘