خبریں

جنسی استحصال معاملے میں متاثرین کا نام شائع کرنے پر وزارت داخلہ نے لگائی روک

وزارت داخلہ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ میڈیا میں جنسی استحصال کے معاملے میں متاثرین کے نام شائع نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ رشتہ داروں کی اجازت کے بعد بھی ایسا نہیں کیا جا سکتا ہے۔

وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے پرنٹ، الکٹرانک یا سوشل میڈیا میں جنسی استحصال کے متاثرین کے نام کو چھاپنے یا شائع کرنے پر روک لگا دی ہے۔ حکومت نے ریاستوں اور یونین ٹریٹریز کو حالیہ ہدایتی خط میں لکھا ہے کہ متاثرین  کا نام صرف عدالت کی اجازت سے عام  کیا جا سکتا ہے۔ ہدایت میں کہا گیا ہے، ‘ مرنے والے یا زندہ شخص کی پہچان رشتہ داروں کی اجازت کے بعد بھی عام  نہیں کی جا سکتی ہے۔ ‘

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، وزارت نے اپنے خط میں کہا ہے کہ ‘ پاکسو کے تحت نابالغ متاثرین کے معاملے میں، ان کی پہچان کو عام  کرنے کی اجازت صرف اسپیشل کورٹ  کے ذریعے دی جا سکتی ہے، اگر ایسا انکشاف  بچے کے حق میں ہو۔ ‘ اس قدم کے پیچھے  متعلقہ افسروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جموں و کشمیر کے کٹھوعہ میں جس طرح آٹھ سالہ بچی کا ریپ  اور قتل ہوا تھا، اس معاملے میں سماجی کارکنوں نے سوال اٹھایا کہ کیسے اس بچی کا نام عام کر دیا گیا۔

وزارت داخلہ کے حکم میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی بھی حالت میں متاثرہ کا نام اجاگر نہیں کیا جا سکتا۔ نام تبھی عام  ہوگا، جب وہ متاثرہ کے مفاد میں ہوگا اور اس کا فیصلہ عدالت کرے‌گی۔ رشتہ داروں کے ذریعے دی گئی اجازت بھی جائز نہیں ہوگی۔

 وزارت نے ہدایت دی ہے کہ دفعہ 376 (ریپ کے لئے سزا)، 376 (اے) ریپ اور قتل، 376 (اے بی) بارہ سال سے کم عمر کی بچی سے ریپ کے لئے سزا، 376 (ڈی) (گینگ ریپ)، 376 (ڈی اے) سولہ سال سے کم عمر کی بچی سے گینگ ریپ کے لئے سزا، 376 (ڈی بی) (بارہ سال سے کم عمر کی بچی سے گینگ ریپ کے لئے سزا) یا آئی پی سی کی 376 (ای) (بار بار جرم کرنے والے مجرموں کے لئے سزا) اور پاکسو کے تحت متاثرہ کا نام عام  نہیں کیا جا سکتا، اس کا مطلب ان کا نام کسی بھی ویب سائٹ پر نہیں ڈالے جائیں‌گے۔

پولیس افسروں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ تمام دستاویزوں کو بند لفافے میں رکھا جائے۔ اصلی دستاویزوں کی جگہ عوامی طور پر ایسی دستاویزوں کو پیش کریں، جس میں متاثرہ کا نام تمام ریکارڈوں میں ہٹا دیا گیا ہو۔ 2012 کے دہلی گینگ ریپ کے بعد، سپریم کورٹ میں دائر ایک عرضی میں عوامی مقامات پر خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے مناسب حل کئے جانے کی مانگ کی گئی تھی اور مشورہ بھی دیا گیا کہ جنسی استحصال کے معاملوں کی ایف آئی آر کو عام نہیں کیا جانا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے پچھلے مہینے جنسی استحصال کے متاثرین کے نام پر نکالی جا رہی  ریلیوں کے بارے میں سخت  تبصرہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ، عدالت نے ریاستوں اور یونین ٹریٹریز کو ایک سال کے اندر ہر ضلع میں ‘ ون اسٹاپ سینٹر ‘ قائم کرنے اور ریپ کے متاثرین کی باز آبادکاری سمیت دیگر مشوروں کو اپنانے کی ہدایت دی تھی۔