خبریں

کشمیر: جہاں صحافی ہونا آسان نہیں ہے…

تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ سنیچر کو ملک کے 70ویں یوم جمہوریہ پر سری نگر میں مختلف پریس اداروں سے وابستہ سینئر فوٹو گرافروں کو یوم جمہوریہ کی تقریب میں عکس بندی سے روکا گیا ۔حیرت یہ ہے کہ پولیس نے خود انہیں تقریب میں شرکت کے لئے سیکورٹی پاس جاری کیا تھا۔

فوٹو : مہراج بٹ/کشمیر لائف

فوٹو : مہراج بٹ/کشمیر لائف

کشمیر ی میڈیا گزشتہ تین دہائیوں سے دودھاری تلوار پر چلتا آیا ہے۔ہند و پاک کے مابین بٹے اورفوجی دستوں کی کثیر تعداد میں موجودگی کے درمیان کشمیرمیں صحافیوں کوسخت چیلنج درپیش ہے۔70سال سے چلی آرہی شورش میں کشمیر میں صحافت ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے۔ان سات دہائیوں خصوصاً 1990 کے بعد اب تک یہاں درجنوں صحافی حالات کی زد میں آکر جاں بحق ہوئے ہیں،کچھ عمر بھر کے لئے معذور ہوئے اور کچھ برسوں تک پابند سلاسل رہے ۔کشمیر ی صحافی آج بھی سیکورٹی ، سیاسی ،سماجی ،عسکری اور اقتصادی دباؤ اور عدم تحفظ کے سائے تلے جی رہے ہیں ۔

کشمیر میں صحافیوں کو درپیش چیلنج کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سنیچر کو ملک کے 70ویں یوم جمہوریہ پر سری نگر میں مختلف پریس اداروں سے وابستہ سینئر فوٹو گرافروں کو یوم جمہوریہ کی تقریب میں عکس بندی سے روکا گیا ۔حیرت یہ ہے کہ پولیس نے انہیں تقریب میں شرکت کے لئے سیکورٹی پاس جاری کیا ،مگر تقریب کے عین وقت پولیس نے ہی انہیں یہ سیکورٹی پاس غلط ہونے کی وجہ پر اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔پولیس نے سینئر صحافیوں کویہ کہتے ہوئے لوٹا دیا کہ ان کے خلاف ناموافق رپورٹیں ہیں ۔ واقعہ کے بعد صحافیوں نے یوم جمہوریہ کی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔

گزشتہ دِنوں ایک بار پھر چار مقامی صحافیوں کو حفاظتی دستوں نے پیلٹ گن کا نشانہ بنایا ۔ یہ صحافی شوپیاں میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انکاؤنٹر کی جگہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے جب انہیں بلا جواز پیلٹ گن کا نشانہ بنایا گیا۔ رام ناتھ گوئنکا ایوارڈ یافتہ ہندوستان ٹائمز کے سینئر فوٹو گرافر وسیم اندرابی جنہوں نے درجنوں ایسے انکاؤنٹر کور کئے ہیں،ان کے مطابق انکاؤنٹر کی جگہ کے نزدیک حفاظتی دستوں کو اپنا کیمرہ دکھانے کے باوجود بھی ان پر سیدھے پیلٹ فائرنگ کی گئی ۔

وسیم کی گردن ، کان اور چہرے میں پیلٹ لگے البتہ اس کے ساتھی کی آنکھ میں پیلٹ لگے۔صحافیوں کے خلاف اس ظلم و تشدد کو اکثر لوگوں نے نظر انداز کردیا یہاں تک کہ صحافت کی آزادی کی دُ ہائی دینے والے نیشنل میڈیا کے اکثر حلقوں نے بھی اس معاملے کو نظر انداز کردیا جس سے ایک بارپھر یہ ثابت ہوا کہ کشمیر میں صحافی حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ان کے ساتھ کب کون سا سانحہ پیش آئے گا ، اس کی گواہی کوئی نہیں دے سکتا ۔

کشمیر میں صحافیوں پر قدغن اور ظلم و تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے ۔کشمیر کے نامور مؤرخ اور سابق ڈائریکٹر انفارمیشن خالد بشیر کے مطابق کشمیر میں صحافیو ں پر ظلم و تشدد لمبے وقت سے چلتا آرہا ہے۔اُن کا کہنا ہےکہ؛1896 میں جب ایک کشمیری مسلمان اور سرسید احمد خان کے ساتھی عبدالسلام رفیقی نے سری نگر سے ماہوار ’الرفیقی‘ نامی اخبار نکالا ، جو آمرانہ دور کی سخت نکتہ چینی کرتا تھا ،نے اس وقت کشمیر کے حکمران مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو اس حد تک غصے سے دو چار کردیا تھا کہ مہاراجہ نے مدیر کو جلا وطن کردیا۔


یہ بھی پڑھیں: ہم نے کئی بار ساتھ میں موت کو دھوکہ دیا ، مگر آخر میں شجاعت اکیلا چلا گیا


خالد کے مطابق 1904 ء میں بھی محمد الدین فوق کو مہاراجہ نے اخبا ر شروع کرنے کی اجازت نہیں دی یہا ں تک کہ مہاراجہ نے اپنے وزیر اعظم کو مستقبل میں اخبار شروع کرنے کی عرضی تک کو بھی ممنوع قرار دینے کا حکم دیا۔ان کے مطابق کشمیر میں صحافت کا فروغ ہری سنگھ کے دورِ اقتدارمیں شروع ہوا اور اس مدت کے دورا ن کشمیر سے جہانگیر ، حقیقت ، رہبر، اسلام، صداقت ،ہمدرد ،روشنی اور کشمیر ٹائمز جیسے اخبارات شائع ہونے لگے۔

مؤرخ کے مطابق اگرچہ ہری سنگھ نے کئی اخبارات کی اشاعت کی اجازت دی البتہ اُس وقت بھی مدیروں کو اکثر قدغنوں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور مہاراجہ حکومت کی نکتہ چینی کرنے والے کئی اخبارات کو سربمہر کردیا گیا۔’’آزاد ی کے دس سال بعد 1958ء میں ثناء اللہ بٹ کے زیر اشاعت روزنامہ ’آفتاب‘ نے کشمیر میں صحافت کو نئی جلا بخشی ۔ خواجہ ثناء اللہ بٹ کو پیشہ وارانہ اخبار چلانے اور اپنی حصولیابیوں کے لئے کشمیر میں بابائے صحافت مانا جاتا ہے۔‘

1990 کی شورش کا اثر

کشمیرمیں جدید صحافت نے 1985ء سے نیا موڑ لینا شروع کیا جب کشمیر یونیورسٹی میں صحافتی شعبہ قائم ہوا۔اس مرکز سے ابھی تک ہزاروں طالبعلم تربیت حاصل کرچکے ہیں جو آج دنیا بھر کے اعلیٰ صحافتی اداروں میں اہم حیثیتوں پر کام کررہے ہیں۔کشمیرمیں 1993ء میں ہفتہ وار ’گریٹر کشمیر‘ کے روزنامے میں تبدیلی کوکشمیر میں انگریزی صحافت کا سنگ میل مانا جاتا ہے اور اس وقت گریٹر کشمیر ،رائزنگ کشمیر،کشمیر مونیٹر،کشمیر ٹائمز اور کشمیر لائف جیسے درجنوں انگریزی اخبارات کی کامیابی اس بات کا عکاس ہے کہ کشمیر میں صحافت میں کس قدر پیشہ واریت آئی ہے۔

اس وقت ریاست میں 450 سے زائد اخبارات شائع ہوتے ہیں مگر صحافتی چیلنج روزبروز سخت ہو رہے ہیں۔کشمیرمیں 1990ء میں شروع ہوئی مسلح شورش کا سیدھا اثر صحافت پر پڑا ۔اس مسلح آرائی نے یہاں صحافت میں سیاسی ، سیکورٹی ،عسکری ، سماجی اور اقتصادی غیر یقینیت کو جنم دیا۔کشمیر ی صحافی سیکورٹی دستوں ، عسکری اور اخوانی تنظیموں کی ہراسانی اور ظلم و تشدد کے شکار ہوتے رہے ہیں ، لیکن اس دو دھاری تلوار پر چلنے کے باوجود بھی کشمیرمیں صحافت پھل پھول گئی ۔حالانکہ 1990ء سے آج تک کشمیر میں تقریباً 21صحافی جاں بحق بھی ہوئے۔

فوٹو : سوشل میڈیا

فوٹو : سوشل میڈیا

کشمیرمیں 1990میں شروع ہوئی مسلح آرائی سے پیدا شدہ حالات سے کوئی نہیں بچا۔ پھر چاہے وہ دور درشن کے ڈائریکٹر لسہ کول ،ڈائریکٹر انفارمیشن پی این ہنڈو ، جوائنٹ ڈائریکٹر اطلاعات سید غلام نبی جیسے سرکاری صحافتی اداروں کے افسر یا پھر مشتاق علی ، محمد شعبان وکیل ، آسیہ جیلانی اور شجاعت بخاری جیسے قد آور صحافی ہوں۔یہ ایسے نام ہیں جو بندوق برداروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔

سرکردہ صحافی یوسف جمیل کے مطابق کشمیر میں صحافت چیلنج بھرا اور پُر خطر کام ہے مگر ایک حقیقی صحافی کو سچائی لکھنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔یوسف جمیل 1995ء میں اس وقت معجزاتی طور بچ نکلے تھے جب سری نگر میں اُن کے دفترمیں ایک پارسل بم بھیجا گیا جس کے پھٹنے سے ان کا ساتھی مشتاق علی جاں بحق ہوا۔ایک اور سرکردہ صحافی اور کشمیر مونیٹر کے مدیرظفر معراج کو بھی 1995ء میں مسلح اخوانیوں نے اغوا کر کے گولی کا نشانہ بنایا البتہ وہ بھی معجزاتی طور بچ نکلے۔ گزشتہ برس قدآور صحافی شجاعت بخاری کو اُن کے دفتر کے باہر بندوق برداروں نے اندھا دُھند گولیاں مار کر قتل کیا۔

1990 سے پہلے کشمیری صحافیوں کو اکثر سیاسی دباؤ کا سامنا تھا۔ سرینگر ٹائمز کے ایڈیٹر اور معروف کارٹونسٹ بشیر احمد بشیر کو ممبران اسمبلی پر کارٹون بنانے کیلئے ریاستی قانون ساز اسمبلی میں سمن کیا گیا مگر اس بیباک کارٹونسٹ نے اگلے دن ایک ایسا کارٹون بنایا جو آج بھی صحافتی اقدار کی ایک مثال ہے۔ مگر ہر کسی کے حصے میں بشیر احمد بشیر کی بیباکی نہیں آتی۔1990کے بعد کشمیری صحافیوں کو محض عسکری تنظیموں کے دباؤ کا سامنا نہیں رہا ہے بلکہ حفاظتی دستوں کی زیادتیوں سے بھی صحافیوں کو سخت چیلنج درپیش ہیں۔2008ء سے کشمیر میں درجنوں ایسے واقعات پیش آئے جب مقامی صحافیوں کو حفاظتی دستوں کے زد و کوب اور تشدد کا سامنا کرنا پڑاہے۔

2016ء میں ایک مقامی فوٹو گرافر ظہیب مقبو ل کی آنکھ میں اس وقت پیلٹ مارے گئے جب وہ شہرخاص میں حالات کی عکس بندی کررہا تھا۔ پیلٹ لگنے سے ظہیب کی ایک آنکھ کی روشنی چلی گئی۔ ظہیب کے مطابق اُس نے سیکورٹی دستوں کو کیمر ہ بھی دکھایا مگر اس کی آنکھ میں جان بوجھ کر پیلٹ مارے گئے۔ ظہیب کی زبان پر آج بھی یہ سوال ہے کہ آخر اس پر پیلٹ کیو ں مارے گئے۔

مقامی رپورٹر ثاقب نے بتایا ؛

چند ماہ قبل میں شہر خاص میں ہوئے ایک انکاؤنٹر کے بعد رپورٹنگ کے لئے گیا تھا جس دوران پولیس نے مجھے اور میرے ساتھیوں پر تشدد کیا اورہمیں پولیس اسٹیشن میں بند کر دیا۔اپنا پریس کارڈ دکھانے کے باوجود پولیس اہلکاروں نے ہمارے پیشے کو ایسی گالیاں دی جو ناقابل بیان ہیں۔

اس سے قبل ثاقب کو گاندربل میں نوجوانوں کی مزاحمت اور مار پیٹ کابھی سامنا کرنا پڑاجنہوں نے مقامی صحافیوں پر حقیقی رپورٹنگ نہ کرنے کا الزام لگایا۔ثاقب کے بقول صحافی دو دھاری تلوار پر چل رہے ہیں اور کئی دفعہ ان پر بنا کسی حقیقت کے جانبدارانہ رپورٹنگ کے الزامات لگتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں صحافت کافی مشکل کام ہے۔


یہ بھی پڑھیں: کیا کشمیر میں صحافت ’جرم‘ کا درجہ اختیار کر چکی ہے؟


؎ایک مقامی فوٹو گرافر کامران یوسف کو ستمبر 2017 میں بنا کسی چارج شیٹ کے قومی تحقیقاتی ایجنسی نے کئی مہینوں تک دہلی میں زیر حراست رکھا۔2018ء میں ایک رپورٹر عاقب جاوید سے بھی دختران ملت کی صدر آسیہ اندرابی کا انٹرویو لینے پر نئی دہلی میں تین دنوں تک این آئی اے نے پوچھ تاچھ کی۔چند ماہ قبل ایک مقامی رپورٹر آصف سلطان کو پولیس نے ایک سٹور ی میں ملی ٹنٹوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ۔ بین الاقوامی تنظیموں اور مقامی صحافیوں کی بار بار کی نکتہ چینی اور گزارشو ں کے باوجود بھی ابھی تک آصف سلطا ن کو رہا نہیں کیا گیا۔وہ اب بھی زیر حراست ہے۔ سینئر ایڈیٹر محمد یوسف نے بتایا ؛

کشمیر میں پریس کوکبھی بھی حقیقی طور پر اظہا ر رائے کی آزادی نہیں ملی ہے چاہے وہ شیخ عبداللہ کی طرف سے 1978 ء میں پبلک سیفٹی ایکٹ میں پریس فریڈم کی شق شامل کرناہو یا کامران یوسف اور آصف سلطان جیسے نوجوان صحافیوں کو پابند سلاسل کرنا ہو۔

رپورٹرس ود آؤٹ باڈرس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں آزادی صحافت کی درجہ بندی میں 180ممالک کی فہرست میں بھارت 138ویں نمبر پر ہے۔رپورٹ کے مطابق کشمیر جیسی حساس ریاست میں اظہار رائے پر بندشوں سے یہاں صحافت انتہائی مشکل کام ہے ۔انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے بھی اپنی تازہ رپورٹ میں کشمیر میں آزادئ صحافت اور صحافیو ں کے تحفظ کے لئے فوری مداخلت کی ضرورت اُجاگر کی ہے۔

اقتصادی غیر یقینیت

پریس کونسل آف انڈیا کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کشمیر میں تقریباً 470 اخبارات شائع ہوتے ہیں اور تقریباً تمام اخبارات نجی سیکٹر کے سُکڑ جانے سے محض سرکاری اشتہارات پر منحصر ہیں۔کشمیر ٹائمز اور رائزنگ کشمیر سمیت کئی اخبارات کو متعدد دفعہ رپورٹنگ کے لئے سرکاری اشتہارات سے محروم ہونا پڑا۔ سرکاری اشتہارات پر منحصر رہنے والے اخبارات کو آزادی صحافت کے اصول پر کاربند رہنے کا سخت چیلنج درپیش ہے۔اس صورت حال میں بھی اگر کسی پر منفی اثر ہے وہ صحافیوں پر ہی ہے جنہیں اکثر بنا کسی کنٹریکٹ کے کام پر لگا کر کم اجرتیں دی جاتی ہیں۔

نوجوان صحافی زاہد کے مطابق کشمیر میں صحافی خاص کر نوجوان صحافی سخت مالی بدحالی کے شکار ہیں اور چیلنج بھری صورتحا ل میں کام کرنے کے باوجود بھی اُنہیں کوئی انشورنس ، ویلفیئر فنڈ ، تعیناتی کے حکم نامے یا کنٹریکٹ نہیں دئے جاتے ہیں ۔صحافی ہمیشہ اس غیر یقینیت میں رہتے ہیں کہ انہیں کسی بھی وقت اخبار کا مالک بنا کسی وجہ کے کام سے بے دخل کرسکتا ہے۔زاہد کے مطابق صورتحال ’’ہائر اینڈ فائر‘‘ جیسی ہوگئی ہے کیونکہ اکثر اخباروں میں سرکاری ملازم مدیروں کے طورکم اجرتوں پر کام کرتے ہیں اس کی وجہ سے پڑھے لکھے جرنلزم ڈگری یافتہ نوجوان صحافیوں کے حقوق پر شب خوب مارا جاتا ہے۔

کشمیرمیں درجنوں ایسے اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں جن کا نام شاید ہی کسی کو معلوم ہو۔انہیں ڈیزائنرس کے حوالے کیا گیا ہے جنہیں ان اخبارات کے مالکان ماہانہ تنخواہ فراہم کرتے ہیں اور اخبار مالکان کو یہ خبر ہی نہیں ہوتی کہ اُن کے نام پر چلنے والے ان اخباروں میں کیا چھپتا ہے۔ کئی ایسے اخبارات میں ایک ہی خبر، تصاویر اور اشتہارات چھپتے ہیں۔اشتہاری پالیسی تشکیل دئیے جانے کے باوجود ریاستی محکمہ اطلاعات ان اخبارات کو ریگولیٹ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حالانکہ ریاستی محکمہ اطلاعات نے گزشتہ برس مقامی اخبارات کو اشتہارات کی اشاعت کے عوض 32کروڑ روپے فراہم کئے مگر اخباروں میں کام کرنے والے صحافیوں کے کام کرنے کی جگہوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

ایک مقامی فوٹو گرافر وسیم نے بتایا کہ ؛

انشورنس اور پنشن تو دور ، انہیں انکاؤنٹر اور پتھر بازی جیسے واقعات کی عکس بندی کے لئے ہیلمٹ یا جیکٹ تک نصیب نہیں ہوتے اور وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنا کام انجام دیتے ہیں اور آج تک درجنوں صحافی شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ ان میں کئی عمر بھر کے لیے معذور بھی ہوئے۔وسیم کے مطابق ؛جسمانی ہراسانی کے ساتھ ساتھ اب صحافیوں کو ڈیجیٹل ہراسانی کا بھی سامنا ہے ۔ چاہے وہ انٹرنیٹ پر بار بار لگنے والی پابندیاں ہوں یا آن لائن ٹرولنگ کا مسئلہ، انہیں اکثر بے لگام ٹرولر فیس بک اور سوشل میڈیا پر جانبداری کا الزام لگا کر گالیا ں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔اس صورتحال میں کشمیری صحافیوں کے پاس ایسے واقعات کی مذمت کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ صحافیوں کو تشدُد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوتی۔ آن لائن ٹرولنگ اور دھمکیوں کا یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔

کشمیر میں ایڈیٹرس گلڈ سمیت صحافیوں کی ترجمان درجنوں انجمنیں ہیں مگر ان میں کوئی اتحاد نہیں اور یہ محض ان واقعات کی مذمت کرتی رہتی ہیں ۔یہ انجمنیں مقامی صحافیوں کو درپیش مشکلات کے ازالے میں بے عار ثابت ہوئی ہیں۔ملک میں صحافیوں کی بہبود سے متعلق سب سے بڑی تنظیم پریس کونسل آف انڈیا نے گزشتہ برس اگر چہ اپنی رپورٹ میں کشمیر میں صحافت کے فروغ کی بات کہی، وہیں مقامی صحافیوں کے مطابق یہ ایک بھونڈا مذاق ہے کیوں کہ پی سی آئی نے آج تک کشمیرمیں صحافیوں کے قتل یا ان کے خلاف تشدداور انٹرنیٹ پر لگنے والی بار بار کی پابندیوں کی کبھی مذمت نہیں کی ۔

یہ تنظیم کشمیری صحافیوں کے حقو ق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرنے میں ناکام ہوئی ہے ۔ کشمیرمیں آزادی صحافت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ یہ روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے۔صحافت کسی بھی حال میں سچائی سے سمجھوتہ نہ کرنے کا مشن ہے جو یہ صحافی سخت چلینج کے باوجود بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔ کشمیری صحافی مشکل ترین حالات سے نبرد آزما ہیں اور سیکورٹی ، عسکری ، سماجی اور اقتصادی دباؤ کے سائے تلے جان ہتھیلی پر رکھ کر حقیقی حالات کو رِپورٹ کرنے کی قدروں کو زندہ رکھنا کوئی آسان کام نہیں۔

(نصیر احمد سرینگر میں  مقیم ملٹی میڈیا صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔)