فکر و نظر

رویش کا بلاگ: کیا وزیر اعظم کو نہیں معلوم  کہ ڈپریشن بورڈ اگزام کی وجہ سے نہیں تعلیمی صورت حال کی وجہ سے ہے

ملک کے سرکاری اسکولوں میں دس لاکھ اساتذہ نہیں ہیں۔ کالجوں میں ایک لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کمی بتائی جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں آٹھویں کے بچّے تیسری کی کتاب نہیں پڑھ پاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ڈپریشن  سے گزریں‌گے کیونکہ اس کے ذمہ دار بچّے نہیں، وہ سسٹم ہے جس کو پڑھانے کا کام دیا گیا ہے۔

29 جنوری کو پریکشا پہ چرچہ  کے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

29 جنوری کو پریکشا پہ چرچہ  کے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

ضابطہ اخلاق سے پہلے ایک سو ریلیاں کرنے نکلے وزیر اعظم کے پاس بورڈاگزام  کے طالبعلموں کو خطاب کرنے کے لئے بھی وقت بچا رہ گیا۔ ایک اسٹیڈیم بک ہوا، 2000 طالبعلموں کو بلایا گیا اور ملک بھر‌کے اسکولوں میں نوٹس گیا کہ پروگرام دکھانا ہے۔لہذا بچّوں کو اسکولوں کے Audio-Visual روم میں لے جایا گیا اور انہوں نے یہ پروگرام دیکھا۔ کئی اسکولوں میں اس سبب پڑھائی نہیں ہوئی۔ وزیر اعظم نے جو کہا اس میں نیا کیا تھا یا ایسا کیا تھا جو اسکولوں میں پرنسپل اور کاؤنسلر ان کو نہیں بتاتے رہے ہیں۔

ہم نے یہی جانا ہے کہ وزیر اعظم کا ایک ایک منٹ کا وقت قیمتی ہوتا ہے۔ مگر سال شروع ہوتے ہی بیس سے زیادہ ورکنگ ڈے  کے برابر وقت وہ سو ریلیاں نپٹانے میں لگے ہیں۔ پھر بی جے پی کے کارکنان سے ویڈیو کانفرنسنگ کرتے ہیں۔ جو کام بی جے پی صدر کو کرنا چاہیے وہ بھی وزیر اعظم کو کرنا پڑ رہا ہے۔پھر آپ خود سوچیں کہ کیا وزیر اعظم کے پاس اتنا اضافی وقت ہے کہ وہ لگاتار عوامی رابطہ میں ہی رہتے ہیں۔ کیا وزیر اعظم کا وقت اتنا فالتو ہو گیا ہے کہ واعظ کے کردار میں بچّوں کو خطاب کر رہے ہیں؟

پہلی نظر میں تو بہت اچھا لگتا ہے کہ وزیر اعظم اگزام پر بات کر رہے ہیں۔ کیا وزیر اعظم کو نہیں معلوم  کہ تناؤ بورڈ کے امتحان کی وجہ سے نہیں بلکہ بورڈ کے بعد تعلیم کی حالت کی وجہ سے ہے؟بارہویں کے بعد ہندوستان میں بیس کالج نہیں ہیں جہاں طالب علم بغیر سوچے داخلہ لے لے۔ سب کو دہلی یونیورسٹی ہی آنا ہے جہاں 96 فیصد سے کم پر اچھے کالج میں داخلہ نہیں ہوتا ہے۔ کیا وزیر اعظم نے اس بارے میں کچھ کہا؟

وزیر اعظم کو بھی پتہ ہے کہ ہندوستان گھٹیا کالجوں کا مہاساگرہے۔ تعلیم کو لےکر اصل سوالوں کا نہ تو جواب دے سکتے ہیں اور نہ بات  کر سکتے ہیں اس لئے کامیابی-ناکامیابی کے معنوں پر فوکس شفٹ کر دو۔جو کام شیو کھیڑا جیسے کارپوریٹ واعظ کر رہے ہیں اس کو وزیر اعظم کو کیوں کرنا پڑ رہا ہے؟ اس میں بھی تضاد ہے۔ خود سو ریلیاں کر رہے ہیں کس لئے؟ کیا وہ ناکامیابی کے ڈر اور تناؤ کی وجہ سے یہ سب نہیں کر رہے ہیں؟

کیا انہوں نے ان 5 سالوں میں تعلیم پر بات  کی؟ بتایا کہ جہاں وہ 12 سال وزیراعلیٰ رہے یا ان کی پارٹی کی حکومتیں جہاں 15 سال اقتدار میں رہیں وہاں بھی کوئی ڈھنگ کا کالج نہیں بن سکا۔ باقیوں نے بھی نہیں بنایا چاہے نتیش ہوں یا ممتا ہوں یا بادل ہوں یا کوئی ہو۔بورڈ کے امتحان کا تناؤ اور دباؤ اس لئے بھی بڑھتا ہے کیونکہ 12ویں تک آتے آتے طالب علموں کا سب کچھ داؤ پر لگ جاتا ہے۔ یہ تو بتاتے کہ وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے کیا کیا ہے جس سے آگے کسی کو تناؤ نہیں ہوگا۔

دی پرنٹ کی خبر آئی تھی کہ پرائیویٹ یونیورسٹی پر انٹلی جنس بیورو رپورٹ تیار کرتی ہے کہ وہاں مودی حکومت کی تعریف ہوتی ہے یا تنقید۔ کیا کسی حکومت کو یہ رپورٹ بنوانی چاہیے کہ کلاس روم میں حکومت کی تعریف ہو رہی ہے یا تنقید۔تو پھرپریکشا پر چرچہ  میں بولنا تھا نہ کہ ہم نے ایسا سسٹم بنا دیا ہے کہ آگے جب آپ کالج میں جائیں‌گے تو میرے نام کا بھجن کرنا ہوگا، تناؤ ہوگا ہی نہیں۔ کیا اس طرح ہم پرائیویٹ یونیورسٹی کھڑی کریں‌گے، سرکاری نقصان کرنے کے بعد؟

فوٹو بہ شکریہ: ILO in Asia and the Pacific, CC BY-NC-ND 2.0

فوٹو بہ شکریہ: ILO in Asia and the Pacific, CC BY-NC-ND 2.0

پریکشا پہ چرچہ  عوامی رابطہ کی انتہا پسندی ہے۔ ایک قسم کا سطحی پروگرام ہے۔ یہ کام ہندوستان کے انسانی وسائل کے وزیر سے بھی ہو سکتا تھا۔ اگر انسانی وسائل کے وزیر رہتے ہوئے طالب علموں کے درمیان وہ اتنی بھی جگہ نہیں بنا سکے ہیں تو پھر وزیر اعظم کو پرکاش جاوڈیکر سے بھی بلاگ لکھوانا چاہیے۔گزشتہ سال ممبئی یونیورسٹی کو لےکر کئی مہینوں تک تحریک چلی۔ طالب علموں کی جان رکی رہی۔ تب تو کوئی وزیر یقین دہانی کراتا نظر نہیں آیا۔

ملک کے سرکاری اسکولوں میں دس لاکھ اساتذہ نہیں ہیں۔ کالجوں میں ایک لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کمی بتائی جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں آٹھویں کے بچّے تیسری کی کتاب نہیں پڑھ پاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ تناؤ سے گزریں‌گے۔ کیونکہ اس کے ذمہ دار بچّے نہیں، وہ سسٹم ہے جس کو پڑھانے کا کام دیا گیا ہے۔سرکاری نوکریوں کا امتحان چار-چار سال میں پورا نہیں ہوتا ہے۔ خود ریلوے ایک امتحان ایک سال میں نہیں کرا پاتا ہے۔ وزیر اعظم کو ریلوے کے امتحان دینے جا رہے ڈھائی کروڑ امتحان دہندہ کے ساتھ پریکشا پہ چرچہ  کرنی چاہیے تھی۔ ان سے پوچھنا چاہیے تھا کہ آپ لوگوں میں جو غریب طالب علم ہیں وہ چار-چار دن کے سفر کے خرچ کیسے اٹھائیں‌گے۔

ان کو پوچھنا چاہیے تھا کہ 80 لاکھ سے زیادہ طالب علموں کے امتحان کیوں چھوٹ گیا؟ سرکاری کمیشن کے امتحانوں کے طالب علم چار-چار سال سے رزلٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیا ان کو یہ نصیحت دی جا سکتی ہے کہ تناؤ نہ کریں۔کیا وزیر اعظم نے تعلیم، اعلیٰ تعلیم اور سرکاری نوکری کے امتحان پر کچھ کہا؟ آخر وہ کب تک امیج بنانے کی ہی سوچتے رہیں‌گے۔ اس پریکشا پہ چرچہ  سے حاصل کیا ہوا؟ایک بیدار شہری کے ناطے وزیر اعظم کے پروگراموں کی افادیت کا بھی حساب رکھیے۔ امیج بنانے کی دھن کی بھی ایک حد ہونی چاہیے۔

(یہ مضمون رویش کمار کے بلاگ پر شائع ہوا ہے۔)