ادبستان

مہاتما گاندھی کے پرسنل سکریٹری وی کلیانم کی زبانی’گاندھی جی کا آ خری دن‘

دستاویز : ایسا عام طور پر کہا جا تا ہے کہ گاندھی جی جب آ خری سانس لے رہے تھے تو انہوں نے ’’ہے رام‘‘ پکارا۔مگر سچ یہ ہے کہ جب گاندھی جی کو گولی لگی، تب ان کی زبان سے ایک لفظ کا ادا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔یہ فرضی بات کسی منچلے رپورٹر نے لکھ دی اور دیکھتے دیکھتے پوری دنیا نے اس کو سچ مان لیا۔

Photo: PTI

فوٹو: پی ٹی آئی

وی کلیانم مہاتما گاندھی کے پرسنل سکریٹری تھے۔ان کا یہ مضمون ایم کے گاندھی ڈاٹ او آرجی  پر انگریزی میں پڑھا جاسکتاہے۔ گاندھی جی کی شہادت کے عینی شاہد کے قلم سے لکھا یہ مضمون ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ تحریر اور بھی کئی معنوں میں اہم ہے۔لہذا آپ کی خدمت میں اس کا ترجمہ ایم کے گاندھی ڈاٹ او آر جی کے شکریے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔سید کاشف

9ستمبر 1947 کو مہاتما گاندھی کلکتہ سے دلی واپس آ ئے تھے۔گاندھی جی تیس جنوری مارگ پر واقع برلا ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔حویلی کی نچلی منزل پر ایک بڑا کمرہ تھا ، جس میں قالین بچھی ہوی تھی۔کمرے سے ایک ٹوائلٹ بھی منسلک تھا۔یہیں ملا قاتی بیٹھتے تھے۔کمرے کے ایک کونے میں روئی کا ایک موٹاگدا بچھا ہوا تھا۔ ٹیک لگانے کے لئے، گدے پر ایک بڑا تکیہ رکھا ہوا تھا۔آگے کی جانب ایک ڈیسک بھی موجود تھا۔ کمرے کے دوسرے حصے میں ایک میز اور ایک کرسی لگی تھی۔ میز پر خطوط کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔گاندھی جی عام طور پر پورا دن یہیں گزارتے تھے۔ خطوط کا جواب لکھتے، لوگوں سے ملتے، چرخے پر سوت کاتتے ، اور قیلولہ کرتے۔

 30 جنوری1948 (جمعہ) کی شروعات ایک عام دن کی طرح ہوئی تھی۔ اس جمعہ کی شام اتنی اندوہناک ہوگی، ہم نے سوچا بھی نہیں تھا۔ معمول کے مطابق ہم صبح کے ساڑھے تین بجے پوجا کے لئے اٹھ گئے۔جب ہم روز مرہ کے کام نپٹا رہے تھے، تب ہما رے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس دن کی شام، شام گریہ ہونے والی ہے۔گاندھی جی نے اپنی پوتی آبھا کو نیند سے بیدار کرنے کے لئے آ واز لگائی۔

ضروریات سے فارغ ہوکر گاندھی جی ٹوائلٹ سے باہر آ ئے اور گدے پر براجمان ہو گئے۔ہم بھی ان کے سامنے با ادب بیٹھ گئے۔ گاندھی جی کا دن ہمیشہ پوجا سے شروع ہو تا تھا۔ان کی پوجا میں سبھی مذاہب کی مقدس کتابوں سے تلاوت کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ خاص طور پر ہندوازم اور اسلام۔اس عمل کے پیچھے ان کی منشا یہی تھی کہ تمام مذاہب کے مابین اتحاد قائم رہے۔

گاندھی جی نے اپنی آ نکھیں بند کر لیں۔ ان کا میڈیٹیشن شروع ہو چکا تھا۔ آبھا ابھی تک سو رہی تھی۔ انہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ وہ پوجا میں غیر حاضر تھی۔آ بھا نہیں آ ئی اور پوجا مکمل ہو گئی۔ پوجا ختم ہوتے ہی، منو کچن میں گئی اور گاندھی جی کے لئے صبح کا مشروب (ایک گلاس گرم پانی میں ایک چمچ شہد اورایک چمچ لیموکا رس)لے آ ئی۔ جب وہ گاندھی جی کو گلاس تھما رہی تھی، تو گاندھی جی گجراتی میں کہنے لگے؛ایسا معلوم پڑتا ہے وہ لوگ جو ہمارے قریب رہتے ہیں، ان کے بیچ بھی میر ا اثر گھٹتا جا رہا ہے۔پوجا آپ کی روح کو پاکیزگی بخشتا ہے۔مجھے دکھ ہے کہ آبھا پوجا میں شامل نہیں ہوئی۔ تم جانتی ہو ، میرے نزدیک پوجا کتنی اہمیت رکھتا ہے۔اگر تم میں ہمت ہے، تو تم میری ناراضگی کی خبر اس تک پہنچا دینا۔ اگر وہ پوجا میں شامل نہیں ہونا چاہتی ہے، تووہ یہاں سے جا سکتی ہے۔یہ اس کے لئے بھی اچھا ہوگا، اور ہمارے لئے بھی۔

 اسی دوران آ بھا جگ گئی اور اپنا کام کرنے لگی۔ گاندھی جی نے اسے خود سے نہیں ٹوکا۔وہ ایسا کیوں نہیں کرتے، یہ ہم سب جانتے تھے۔ میں ان کے قریب بیٹھا رہا ۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ وہ مجھے اس دن کی ذمہ داریاں سونپیں گے۔گاندھی جی چاہ رہے تھے کہ میں ان کے سیوا گرام کے دس روزہ دورے کے متعلق انتظامات کروں۔ انڈین نیشنل گانگریس کی نئی آ ئین کی ٹائپ شدہ پہلی ڈرافٹ میرے ہاتھ میں تھی، جوگاندھی جی نے گزشتہ روز مجھے ڈکٹیٹ کی تھی۔ میں نے ڈرافٹ انہیں تھما دیا۔ وہ چاہ رہے تھے کہ گانگریس کو تحلیل کرکے اسے نئے سرے سے قائم کیا جائے۔ گاندھی جی کو اس وقت ڈرافٹ پڑھنے کی خواہش نہیں ہو رہی تھی۔انہوں نے میرے سینئر پیارے لال جی کو بلا یا اور انہیں یہ ہدایت دی کہ وہ اسے باریکی سے پڑھیں اورجہاں ضرورت محسوس ہو، تصحیح کریں، اور اپنی رائے دیں۔

 ان دنوں دہلی کی حالت بہت خراب تھی۔ پاکستان سے بڑی تعداد میں ہندو مہاجرین کے آ جانے سے جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے تھے۔پاکستا ن میں مسلمانوں کے ذریعے کئے گئے برےسلوک کے سبب، ہندو یہ چاہ رہے تھے کہ دہلی کے مسلمانوں سے اس کا بدلہ لیا جائے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کا وفد ہر روز گاندھی جی سے ملنے آ تا تھا۔وہ یہ بات چیت کرتے تھے کہ کیسے مسئلہ کا حل نکا لا جائے اور دلی میں حالات کو معمول پر لایا جائے۔

سردی کے ان ایام میں گاندھی جی دھوپ میں بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ وہ لان میں لگی چارپائی پر بیٹھے رہتے۔ان کا ہر دن مصروف دن ہوا کرتا تھا۔ وہ شاید ہی کبھی بیکار بیٹھتے تھے۔ جب کوئی میٹنگ نہیں ہوتی، تو وہ گجراتی، ہندی یا پھر انگریزی میں خط یا مضمون لکھا کرتے ۔گرچہ وزراء اور دیگر معزز افسران پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق، گاندھی جی سے ملنے آ تے تھے، مگر پنڈت نہر وکا یہ معمول تھا کہ کہ اگر وہ شہر میں ہیں تو ہر روز آ فس جاتے ہوے صبح قریب نو بجے ضرور آ تے اور گاندھی جی سے ملاقات کرتے۔

اس دن وہ خاص لوگ جو گاندھی جی سے ملنے آئے، ان میں محترمہ آ رکے نہرو بھی تھیں۔ وہ صبح 6 بجے آ ئیں تھیں۔ انہیں دو پہر میں امریکہ کے لئے روانہ ہونا تھا۔ان کی درخواست پر گاندھی جی نے انہیں اپنی ایک دستخط شدہ فوٹو بھی دی، جس پر انہوں نے ایک پیغام بھی تحریر کیا؛ ایک غریب ملک کی نمائندہ کے طور پر ، آپ کو وہاں سادہ اور کفایت شعار زندگی گزارنی چاہئے۔’ دو بجے، مارگریٹ بورک وہائٹ (مشہور فوٹو گرافر، لائف میگزین) نے گاندھی جی کا انٹر ویو لیا۔اپنی بات چیت کے دوران انہوں نے گاندھی جی سے پوچھا؛’آپ نے ہمیشہ کہا ہے کہ آپ 125 سال تک زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ آ پ کو یہ امید کہاں سے آ تی ہے؟’ گاندھی جی نے انہیں جب جواب دیا تو وہ حیرت میں پڑ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ ایسی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ اب کیا ہو گیا تو انہوں نے کہا؛’دنیا میں رو نما ہونے والے ہولناک واقعات؛ میں اب اس اندھیرے میں نہیں جینا چاہتا۔’

برلا ہاؤس میں گاندھی جی کا زیادہ وقت خطوط لکھنے، لوگوں سے ملنے، یا پوجا کرنے میں گزرتا تھا۔ مارگریٹ بورک وہائٹ کے جانے کے فورا ًبعد، پروفیسر این۔ آ ر۔ ملکھانی (ڈ پٹی ہائی کمشنر آ ف پاکستان) او ر دو دیگر معزز حضرات تشریف لائے۔ انہوں نے سندھ کے ہندوؤں کی بری حالت کا ذکر کیا۔ ان کو تحمل کے ساتھ سننے کے بعد گاندھی جی نے جواب دیا؛’یہ سب نہیں ہوا ہوتا، اگر لوگوں نے میری بات سنی ہوتی۔ میں جو بولتا ہوں، لوگ اسے آئی گئی کر دیتے ہیں۔مگر جو سچ ہے وہ میں کہتا جاؤں گا۔’


یہ بھی پڑھیں:  گاندھی کا آخری اپواس


 بی بی سی کے باب اسٹمسن گاندھی جی کو پوجا کے بعد ملنے والے تھے۔ انہوں نے پہلے ہی گاندھی جی کو چند سوالات لکھ بھیجے تھے۔ وہ تشریف لاچکے تھے اور لان میں انتظار کر رہے تھے، جہاں گاندھی جی پوجا کرنے والے تھے۔ وزیر اعلیٰ یواین ڈھیبر، رسیکل پاریکھ (کاٹھیاوار سے) اور مشہور رائٹر ونسنٹ شیان(جنہوں نے آخری دنوں میں گاندھی جی کے کئی انٹرویوز لئے تھے) بھی آ گئے تھے۔ان لوگوں نے پہلے سے کوئی اپوائنمنٹ نہیں لی تھی۔وہ بس اس امید سے آ گئے تھے کہ گاندھی جی سے ملاقات ہو جائے گی۔مگر، ان سب کو مایوسی ہاتھ لگی۔

برلا ہاؤس کا اپنا واچ مین ہوا کرتا تھا۔قرآن کی تلاوت کے حوالے سے کچھ لوگوں نے گاندھی جی کی گزشتہ سال کی پبلک میٹنگز میں اپنا اعتراض جتایا تھا۔ اسی بات کا خیال کرتے ہوے، سردار پٹیل (بطور وزیر داخلہ) نے ایک حکم جاری کیا، جس کے تحت احتیاط کے لئے ایک ہیڈ کانسٹبل اور چار کانسٹبلز برلا ہاؤس میں تعینات کئے گئے۔

20 جنوری کو پوجا کے دوران ایک بم پھٹا تھا۔بم مدن لال( جو ایک پنجابی مہاجر تھا) نے پھینکا تھا۔ حالانکہ اس کا نشانہ چوک گیا اور گاندھی جی بچ گئے ، مگرایک دیوار دھماکہ کی زد میں آکر منہدم ہو گئی تھی۔ اور کچھ نہیں ہوا۔ گاندھی جی کو کبھی یہ گمان بھی نہیں ہوا کہ کوئی انہیں مارنے آ یا تھا۔ در اصل گاندھی جی نے ہندوستانی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف اپواس رکھا تھا، جس کے تحت بھارت نے پاکستان کے 50 کروڑ روپے روک لیے تھے۔ اس فیصلہ کی بنیا د یہ بنائی گئی تھی کہ پاکستان نے کشمیر پر حملہ کرنے اور اسے ہتھیانے کے لئے آ فریدی قبائلی لوگوں سے سازش رچی ۔ گاندھی جی کی زندگی کی خاطر ہندوستانی سرکار جھک گئی تھی۔ پاکستان کا پیسہ بھی ادا کر دیا گیا تھا۔ گاندھی جی کے اس عمل سے کٹر ہندو ناراض ہو گئے تھے۔انہیں ایسا لگا تھا کہ گاندھی جی مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے یہ سب کر رہے تھے، اور ان سب سے ہندوؤں کا نقصان ہو رہا تھا۔ مندرجہ بالا بم کا واقعہ اسی کا نتیجہ تھا۔

لہذا برلا ہاؤس میں پولیس سیکورٹی بڑھا دی گئی۔ انہیں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ ہراس شخص کو گیٹ پرر و کیں گے جو انہیں مشکوک لگتے ہیں۔ لیکن، پولیس نے یہ مشورہ دیا کہ صرف مشکوک نہیں، انہیں ہر شخص کو چیک کرنے کی اجازت دی جائے۔ جب ایس پی صاحب نے مجھ سے اس حوالے سے رابطہ کیا، تو میں نے گاندھی جی سے اس بابت بات کی۔ لیکن وہ اس بات کے لئے راضی نہیں ہوئے۔ میں نے ایس پی کو گاندھی جی کی رائے سے مطلع کر دیا۔ جب یہ بات اعلیٰ افسران کو معلوم ہوئی توڈی آئی جی صاحب خو د تشریف لے آ ئے ۔ انہوں نے گاندھی جی سے بات کرنے کی اجازت چاہی۔ میں انہیں اندر لے گیا۔ ڈی آ ئی جی نے گاندھی جی کو بتلا یا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، لہذا انہیں یہ اجازت دی جائے وہ اندر آ نے والے ہر شخص کی تلاشی لیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کچھ انہونی ہوتی ہے، تو ایسی صورت میں پولیس پر ساری ذمہ داری عائد ہو جائے گی۔

گاندھی جی نے ڈی آ ئی جی کو صاف صاف کہہ دیا کہ ان کی زندگی بھگوان کے ہاتھ میں ہے۔اگر انہیں مرنا ہوگا، وہ مر جائیں گے۔انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔’’وہ لوگ جو آ زادی کی بجائے حفاظت کوترجیح دیتے ہیں، انہیں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ وہ شاید اس بات کے لئے راضی ہو جاتے کہ عام پوجا کو بند کر دیا جائے، مگر لوگوں کی تلاشی کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لہذا، پولیس کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ سادہ لباس میں رہیں اور مشکوک لوگوں پر نظر رکھیں۔ انہیں یہ بھی ہدایت دی گئی کہ جب گاندھی جی پوجا کے لئے جائیں اور جب وہ وہاں سے واپس آئیں، اس دوران یہ یقینی بنا یا جائے کہ ان پر کوئی حملہ نہ کرے۔ دو بجے ، آ بھا اور منو، گاندھی جی سے اجازت لیکر، کچھ دوستوں سے ملنے گئیں تھیں۔انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ شام کی پوجا میں شامل ہونگی۔

اس طرح گاندھی جی کو شام کا کھانا پروسنے کا ذمہ مجھ پر آ ن پڑا۔ گرچہ سرکار کو کام کرتے ہوے صرف پانچ مہینے ہوے تھے، میڈیا میں نہرو اور پٹیل کے بیچ کے مبینہ اختلافات کاشور تھا۔ گاندھی جی اس افواہ سے بہت پریشان تھے۔ وہ اس افواہ کی تردید کرنا چاہتے تھے۔ وہ یہاں تک بھی سوچ رہوے تھے کہ سردار پٹیل کو کہیں گے کہ وہ استعفیٰ دے دیں تاکہ نہرو ملک کی باگ ڈور آ زادانہ طور پر سنبھال سکیں۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ انہوں نے پٹیل کو گفتگو کے لئے 4 بجے بلا یا تھا۔ وہ ان سے اس موضوع پر پوجا کے بعد بات کرنے والے تھے۔ لیکن خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔ پٹیل اپنی بیٹی منی بین کے ہمراہ وقت پر آ گئے تھے۔ گاندھی جی اس وقت شام کا کھانا کھا رہے تھے۔ جب وہ لوگ بات کر رہے تھے،تبھی آ بھا اور منو بھی واپس آ گئے تھے۔

پوجا 5بجے شر وع ہونی تھی۔پانچ بج گئے مگر پٹیل اور گاندھی جی کی گفتگو چلتی رہی۔ گفتگو کی اہمیت اور انکی سنجیدگی کو بھانپتے ہوے ،کسی نے ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا۔لڑکیوں نے سردار پٹیل کی بیٹی کو اشارہ کیا، تب گفتگو ختم ہوئی۔ گاندھی جی ٹوائلٹ گئے۔ اور پھر اس کے بعد سیدھے پوجا گراؤنڈ کی طرف بڑھنے لگے، جو تیس سے چالیس گز دور تھا۔ چار پانچ زینوں کے بعد، بڑا سا لان تھا۔ گاندھی جی پندرہ منٹ لیٹ ہو گئے تھے۔ تقریبا ًد و سو پچاس لوگ گاندھی جی کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی وہ آئے، سب ایک ساتھ بول پڑے: گاندھی جی آ گئے۔ پھرسب کی نگاہیں گاندھی جی کی جانب ٹک گئیں۔معمول کے مطابق گاندھی جی اپنی دونوں پوتیوں کے کندھوں کے سہارے ہلکے ہلکے قدموں سے آ گے بڑھ رہے تھے۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا۔نگاہیں زمین پر ٹکی تھیں۔ میں ان کے ٹھیک بائیں طرف ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔

میں نے سنا گاندھی جی لڑکیوں کو ڈانٹ پلا رہے تھے۔’’میں دیر ہو گیا، مجھے یہ با الکل بھی پسند نہیں ہے۔‘‘ جب منو نے گاندھی جی سے کہا کہ چونکہ انکی گفتگو کسی اہم موضوع پر ہورہی تھی، لہذا ان لوگوں نے بیچ میں ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا ، توگاندھی جی نے فور ا جواب دیا؛’’ایک نرس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مریض کو وقت پر دوا دے۔ دیر ہونے کی وجہ سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔‘‘

ہم پرارتھنا کے لئے مخصوص چبوترے کو لگی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔لوگ ہاتھ باندھے ہوے گاندھی جی کے استقبال میں کھڑے تھے۔ گاندھی جی نے سبھی کا خیر مقدم کیا۔ لوگ گاندھی جی کے لئے راستہ بنا رہے تھے۔ اسٹیج سیڑھیوں سے قریب 25 فٹ اوپر تھا۔اسٹیج پر ایک فٹ اونچی لکڑی کی ڈائس تھی،گاندھی جی اسی پر بیٹھتے تھے۔قاتل (ناتھو رام گوڈسے) ظاہر ہے اسی بھیڑ میں گاندھی جی کا انتظار کر رہا تھا۔وہ اپنی جیب میں ریوالور چھپائے ہوئے تھا۔گاندھی جی نے بہ مشکل پانچ چھ قدم بڑھا ئے ہونگے کہ قاتل نے با لکل قریب سے لگاتار کئی گولیاں فائر کر ڈالیں۔ گاندھی جی وہیں ڈھیر ہو گئے اور لمحوں میں رخصت ہو گئے۔خون دھاڑے مار رہا تھا۔اسی ہماہمی میں ان کا چشمہ پارہ پارہ ہو گیا تھا۔جوتے کہیں کے کہیں پڑے تھے۔میرے حواس باختہ ہو گئے تھے۔تھوڑی دیر کے لئے میں اپنا سدھ بدھ کھو بیٹھا تھا۔ بعد میں، جب میں تنہا تھا،میں نے دیکھا میری آنکھیں بھر آ ئیں تھیں۔

چند ہی وقفے میں خبر دور دور تک پھیل گئی ۔منٹوں میں لوگوں کا ہجوم برلا ہوؤ س کے با ہر امنڈ پڑا تھا۔ مجبو راً گیٹ بند کر دیا گیا تا کہ لوگ کیمپس کے اندر نہ آ سکیں۔پٹیل تو پہلے ہی جا چکے تھے۔ میں اپنے کمرے میں بھا گا، اور ٹیلیفون کے ذریعے نہرو کے آفس کو یہ اطلاع دے دی۔ ان دنوں ہم کسی بھی وزیر کے گھربغیر کسی روک ٹوک کے داخل ہو سکتے تھے۔ میں کسی طرح بھیڑ کو چیرتے ہوے باہر نکلا اور کار میں بیٹھ کر سیدھا پٹیل کے گھر کے لئے روانہ ہو گیا، تاکہ ان کو اس ناگہانی کی خبر دے سکوں۔ان کا گھر بمشکل پانچ منٹ کی دوری پر تھا۔

اسی دوران، گاندھی جی کے مردہ جسم کو اٹھا کر انکے کمرے میں رکھا گیا۔ایک چٹائی پر انہیں لٹا دیا گیا تھا۔ لوگ انکے ارد گرد کھڑے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا ، گاندھی جی سو رہے ہیں۔ان کا جسم کافی دیر تک گرم رہا۔وہ رات کتنی اندوہناک تھی، بیان کرنا مشکل ہے۔ صرف چند لوگ نہیں، بلکہ دنیا بھر کے لا کھوں لوگوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ان سب کے لئے، جن کی خاطر گاندھی جی نے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ اور جن کی خاطر وہ مر گئے تھے۔
جیسے ہی گاندھی جی کی نعش کو انکے کمرے میں لے جا یا گیا، باہر بھگدڑ مچ گئی۔ ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ اسے گاندھی جی سے وابستہ کوئی نہ کوئی چیز ہاتھ لگ جائے، تاکہ وہ اسے گاندھی جی کی نشانی کے طور پر سنجو کر رکھ سکے۔ کچھ لوگ تو زمین کے اس حصے سے مٹھی بھر مٹی ہی اکٹھا کرنے لگے، جہاں گاندھی جی قاتل کی گولی کھاکر گر پڑے تھے۔نتیجتاً اس جگہ پر ایک بڑا گڈھا بن گیا۔خیر، پھر اس جگہ کوگھیر لیا گیا۔ایک گارڈ بھی وہاں تعینات کیا گیا۔

پرارتھنا سبھا میں ہوئے بم بلاسٹ کے پہلے اور پھر اس کے بعد، گاندھی جی کی حفاظت کے سلسلے میں سرکار کے ذریعے اٹھا ئے گئے اقدام کا ذکر کرتے ہوے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے یہ بیان کیا کہ؛’’میں نے خود باپو سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ پولیس کو اپنی ڈیوٹی کرنے دیں تاکہ وہ ان کی حفاظت کر سکیں۔ مگر وہ راضی نہیں ہوئے۔یہ میرے لئے ، ملک کے لئے اور پوری دنیا کے لئے ناقابل تلا فی نقصان ہے۔مجھے اور پولیس کو جس بات کا اندیشہ تھا وہ سچ ثابت ہو گیا۔ قاتل ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھا نے میں کامیاب رہا۔اور گاندھی جی کے وہ معنی خیز جملے کہ اگر ان کی موت لکھی ہوگی تو وہ واقع ہو کر رہے گی، چہ جائے کہ کتنے بھی حفاظتی انتظام کیوں نہ کر لیے جائیں، باالاخر صحیح ثابت ہو گئے۔‘‘

ایسا عام طور پر کہا جا تا ہے کہ گاندھی جی جب آ خری سانس لے رہے تھے تو انہوں نے ’’ہے رام‘‘ پکارا۔مگر سچ یہ ہے کہ جب گاندھی جی کو گولی لگی، تب ان کی زبان سے ایک لفظ کا ادا ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔ ہاں البتہ یہ بات صحیح ہے کہ گاندھی جی اکثر کہا کرتے تھے کہ ان کی یہ خواہش ہے کہ جب ان کی روح نکل رہی ہو، تب ان کی زبان پر رام کا نام ہو۔یہ فرضی بات کسی منچلے رپورٹر نے لکھ دی اور دیکھتے دیکھتے پوری دنیا نے اسے سچ مان لیا۔حیرت کی بات ہے کہ کبھی کسی نے اس کی تصدیق کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔

ایک سراسر جھوٹ کو سچ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ اگر وہ بیمار ہوتے، یا بستر مرگ پر ہوتے ، تو وہ ضرور رام کا نام لیتے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں رام کا نام لینے تک کا موقع نہیں دیا گیا۔گاندھی جی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں، پرارتھنا سبھا کے بعدکے بھاشن میں، کئی بار اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ وہ چاہتے ہیں کہ بھگوان انہیں اپنے گھر بلا لے۔ وہ نہیں چاہتے کہ وہ زندہ رہیں اورملک  میں ہو رہے مظالم کے خاموش گواہ بنیں۔ شا ید بھگوان نے ان کی منتیں سن لی۔ ان کی موت اس معنی میں عظیم تھی کہ ان کی روح تب پرواز ہوئی جب وہ خدا کی طرف رجوع ہونے جا رہے تھے۔جب ان کی روح نکلی، انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔انہیں ایک لمحے کے لئے بھی کسی تکلیف کا احساس نہیں ہوا۔

(سید کاشف پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں مترجم  ہیں۔)