خبریں

شہریت ترمیم بل: آسام تحریک میں جان گنوانے والوں کے رشتہ داروں نے لوٹایا ایوارڈ

شہریت بل کے خلاف نارتھ ایسٹ  ریاستوں  میں مخالفت جاری ہے۔

آسام تحریک میں جان گنوانے والے لوگوں کے رشتہ داروں نے شہریت بل کی مخالفت کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے ذریعے دئے گئے میموریل نشان کو لوٹایا (فوٹو : پی ٹی آئی)

آسام تحریک میں جان گنوانے والے لوگوں کے رشتہ داروں نے شہریت بل کی مخالفت کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے ذریعے دئے گئے میموریل نشان کو لوٹایا (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: شہریت ترمیم بل، 2016 کو لےکر نارتھ ایسٹ کی مختلف ریاستوں میں مظاہرے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ 30 جنوری کو آسام تحریک میں لڑتے ہوئے جان گنوانے والے لوگوں کے رشتہ داروں نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے ریاستی حکومت کے ذریعے دئے گئے یادگاری نشان لوٹا دئے ہیں۔وہیں تریپورہ کے قبائلی رہنما راجیشور دیب برما نے ریاست کے حقیقی باشندوں کی ترقی کو لےکر اسمبلی انتخاب میں کئے گئے وعدوں کو نہ پورا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بی جے پی سے استعفیٰ دے دیاہے۔ انہوں نے بھی شہریت (ترمیم شدہ)بل 2016 کو تریپورہ کے حقیقی باشندوں کے لئے خطرہ بتاتے ہوئے اس کو رد کئے جانے کی مانگ کی ہے۔

ساتھ ہی بی جے پی کی قیادت والی نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس (این ای ڈی اے)کی  اکثر پارٹیوں سمیت  سمیت نارتھ ایسٹ کی 10 سیاسی پارٹیوں اور بہار میں بی جے پی کی  معاون جماعت جے ڈی یو نے ‘شہریت ترمیم بل ‘ کی مخالفت کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔

آسام تحریک میں جان گنوانے والوں کے رشتہ داروں نےیادگاری نشان لوٹائے

بدھ کو شہریت(ترمیم)بل کے خلاف اپنی  مخالفت درج کرتے ہوئے 1980 میں آسام تحریک کے دوران مارے گئے 76 لوگوں کے اہل خانہ  نے وہ یادگاری نشان لوٹا دئے، جو 2016 میں ان کو وزیراعلیٰ سربانند سونووال کے ذریعے دیا گیا تھا۔آسام تحریک میں مارے گئے لوگوں کے رشتہ داروں کی تنظیم’ایس پی ایس پی’کے ممبر متنازعہ بل کی مخالفت میں آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے صدر دفتر ‘شہید نیاس’میں یکجا ہوئے۔

آسام حکومت کے ذریعے 855 لوگوں کو بعدان کی وفات کے بعددئے گئے یادگاری نشان کو ہاتھوں میں لئے رشتہ داروں نے شہریت (ترمیم) بل، 2019 کو نافذ کرنے کے مرکز کے قدم کے خلاف یادگاری نشان لوٹانے کا فیصلہ کیا۔تنظیم کے چیف راجن ڈیکا نے نامہ نگاروں سے کہا، شہریت بل لوک سبھا میں منظور ہو گیا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت شرم کی بات ہے۔اگر بل قانون بنتا ہے تو آسام تحریک کے 800 سے زیادہ شہیدوں کی قربانی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ ‘

ڈیکا نے کہا، اگر 1971 کے بعد آسام میں گھسنے والے ہندو بانگلادیشیوں کو ہندوستان میں شہریت دی جاتی ہے تو ان کی قربانی کی اہمیت ختم ہوجائے‌گی۔ یہ یادگاری نشان ہمارے لئے ایک وقت میں عزت کی بات تھی لیکن اب یہ اہم نہیں ہے۔ ‘انہوں نے کہا کہ آسام تحریک میں جان قربان کرنے والے لوگوں کے رشتہ دار اپنے اپنے علاقے کے ضلع ڈپٹی کمشنروں کو یاد گاری نشان لوٹائیں‌گے۔غور طلب ہے کہ بی جے پی قیادت سروانند سونووال حکومت نے 10 دسمبر 2016 کو ایک پروگرام میں جان گنوانے والوں  کی فیملی کو پانچ لاکھ روپے اور یادگاری نشان دئے تھے۔

تحریک کے دوران مارے گئے لوسان بروآ کی بہن ریتا بروآ نے انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں کہا، ہم ایوارڈ لوٹا رہے ہیں کیونکہ سونووال کی قیادت والی حکومت نے آسام کو غیر قانونی غیر ملکیوں  سے آزاد کرنے کا اپنا وعدہ نہیں نبھایا۔ یہ شرم کی بات ہے کہ شہیدوں کی قربانی کی اس طرح بے عزتی کی جا رہی ہے۔ ‘تحریک کے دوران مارے گئے کے ڈیکا کے ایک رشتہ دار بھون بورا نے کہا،غیر قانونی غیر ملکی سے آسام کو بچانے کے لئے تقریباً 855 لوگ شہید ہوئے تھے۔ اگر بل منظور ہو جاتا ہے، تو تحریک کی کوشش اور آسام سمجھوتہ کی اہمیت ختم ہو جائے‌گی۔ اگر وہ آسام سمجھوتہ کے خلاف بل لےکر آ رہے ہیں تو اس حکومت سے ملے یاد گاری نشان کو رکھنے کا کیا مطلب؟ ‘

موری گاؤں ضلع کی دیپتی بورا جنہوں نے تحریک کے دوران اپنے بڑے بھائی کو کھویا تھا، نے کہا، یہ بل آسام سمجھوتہ کی خلاف ورزی کرکے غیر ملکی باشندوں  کی حفاظت کرتا ہے۔ ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں۔ ‘موری گاوں کے سدھیشور پٹور اور لکھیم پور کے کرشنا بورپاتراگوہین جنہوں نے تحریک میں رشتہ داروں کو کھویا تھا کہتے ہیں، یہ بل آسام کے لئے بہت برا ثابت ہوگا۔ اس بل کے ذریعے غیر قانونی غیر ملکیوں کو جائز بنایا جائے‌گا۔ ‘

واضح ہو کہ آسام تحریک 1979 میں ریاست میں’غیر قانونی مہاجروں ‘کے خلاف شروع ہوا تھا۔ 1985 میں آسام سمجھوتہ پر دستخط کے ساتھ 6 سال کی تحریک ختم ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ 24 مارچ، 1971 کے بعد بنگلہ دیش سے آئے تمام لوگوں کو جلا وطن کیا جانا چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔

گوہاٹی میں نومبر 2018 کو مختلف تنظیموں  کے ذریعے شہریت ترمیم بل کے خلاف مظاہرہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

گوہاٹی میں نومبر 2018 کو مختلف تنظیموں  کے ذریعے شہریت ترمیم بل کے خلاف مظاہرہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

تریپورہ میں قبائلی رہنما نے بی جے پی کی رکنیت چھوڑی

تریپورہ کے قبائلی رہنما راجیشور دیب برما نے ریاست کے حقیقی  باشندوں کی ترقی کے لئے اسمبلی انتخاب میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں’ناکام ‘رہنے کا الزام لگاتے ہوئے بی جے پی سے استعفیٰ دے دیا۔دیب برما نے وزیراعلیٰ اور پارٹی کی ریاستی اکائی کے صدر بپلب کمار دیب کو منگل کو اپنا استعفیٰ بھیجا۔ دیب اس وقت ریاست سے باہر ہیں۔انہوں نے شہریت (ترمیم شدہ) بل 2016 کو تریپورہ کے حقیقی باشندوں کے لئے خطرہ بتاتے ہوئے اس کو رد کئے جانے کی بھی مانگ کی۔

راجیشور دیب برما نے کہا، میں ریاست میں بی جے پی قیادت والی  حکومت کے مظاہرہ سے بہت ناراض ہوں کیونکہ وہ تریپورہ کے حقیقی باشندوں کو نظرانداز کر رہی ہے۔ پارٹی نے گزشتہ سال اسمبلی انتخاب میں جو وعدے کئے تھے، ان میں سے ایک کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ ‘آئی این پی ٹی سے سابق ایم ایل اے دیب برما گزشتہ سال انتخاب سے پہلے بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔

نارتھ ایسٹ  کی پارٹیوں نے شہریت بل کی مخالفت کرنے کا لیا فیصلہ

بی جے پی کی قیادت والی نارتھ ایسٹ ڈیموکریٹک الائنس (این ای ڈی اے) کی اکثر پارٹیو ں سمیت نارتھ ایسٹ کی 10 سیاسی پارٹیوں اور بہار میں بی جے پی کی معاون جماعت جے ڈی یو نے’شہریت ترمیم بل ‘ کی مخالفت کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔پارٹیوں کی میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ تمام جماعتوں کی شراکت داری والی ایک نمائندہ ٹیم صدر رامناتھ کووند اور وزیر اعظم نریندر مودی کو بل کے متعلق اپنی مخالفت سے واقف کرائے‌گا۔

قابل ذکر ہے کہ نارتھ ایسٹ  کے آٹھوں ریاستوں میں لوک سبھا کی کل 25 سیٹیں ہیں اور مرکز میں حکمراں بی جے پی کی آئندہ انتخاب میں ان سیٹوں پر بھی نظر ہے۔ میٹنگ  میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ تمام جماعتوں سے رابطہ کرنے کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل کی جائے‌گی۔

میگھالیہ کے وزیراعلیٰ کونراڈ سنگما کی پہل پر یہ میٹنگ بلائی  گئی تھی۔ میزورم کے وزیراعلی جورام تھنگا بھی اس میں شامل ہوئے تھے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ لوگ کانگریس سے بھی رابطہ کریں‌گے، سنگما نے کہا، ‘ ہم یہاں ان تمام جماعتوں کے ساتھ کام کرنے آئے ہیں جس نے اس بل کی مخالفت میں ہیں اورپارلیامنٹ کے اندر اور باہر ہمارے قدم کی حمایت کی ہے۔ ‘اس مدعے کو لےکر آسام میں سروانند سونووال کی قیادت والی بی جے پی حکومت سے حال ہی میں حمایت واپس لینے والے آسام گن پریشد (اے جی پی) بھی میٹنگ کے انعقاد میں شامل تھا۔

میٹنگ  میں حصہ لینے والے 10 سیاسی جماعتوں میں میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف)، یونائٹیڈ ڈیموکریٹک پارٹی (یو ڈی پی)، آسام گن پریشد (اے جی پی)، نگا پیپلس فرنٹ (این پی ایف)، نیشنل پیپلس پارٹی (این پی پی) نیشنل ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (این ڈی پی پی)، ہل اسٹیٹ پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ایس پی ڈی پی)، پیپلس ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی ایف)، انڈیجینس پیپلس فرنٹ آف تریپورہ (آئی پی ایف ٹی) اور کیچ این اے ایم شامل ہیں۔

میٹنگ میں جنتا دل-یونائٹیڈ(جے ڈی یو) کی نمائندگی اس کے نارتھ ایسٹ صدر این ایس این لوتھا نے کی۔میٹنگ  میں سنگما نے کہا، بل کے خلاف نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کی مخالفت پر غور  کرنے کے لئے میٹنگ  ایک فطری عمل تھا اور اس کا  سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ‘انہوں نے کہا، علاقے کی زیادہ تر پارٹیاں اپنی-اپنی ریاستوں میں بل کی مخالفت کر رہی ہیں اور اس لئے ہم نے یکجا ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنے لوگوں اور علاقے کو بچانے کی تدبیروں پر گفتگو کی۔ ‘

این ای ڈی اے میں بنے رہنے کے بارے میں پوچھے جانے پر سنگما نے کہا کہ سیاسی مدعوں پر گفتگو کرنا ابھی جلدبازی ہوگی اور اگر ضرورت پڑی تو ایک فیصلہ کیا جائے‌گا۔ ابھی ہم یہاں سیاست پر گفتگو کرنے نہیں بلکہ ایک بہت ہی حساس مدعے کا حل کرنے آئے ہیں جو علاقے کے لوگوں سے جڑا ہوا ہے۔انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ این ای ڈی اے کے کنوینر اور آسام کے وزیر خزانہ ہمنتا بیسوا شرما اس اجلاس سے واقف تھے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیانارتھ ایسٹ  میں ایک نیا علاقائی اتحاد بن رہا ہے، سنگما نے کہا، مناسب وقت آنے پر اس بارے میں ہم فیصلہ کریں‌گے۔ ‘

شہریت ترمیم بل کے خلاف مظاہرہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

شہریت ترمیم بل کے خلاف مظاہرہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

اجلاس میں موجود رہے میزورم کے وزیراعلیٰ جورام تھنگما نے کہا کہ اس بل کی مخالفت کرنے کے لئے اتفاق رائے سے ایک تجویز لائی گئی، جو نارتھ ایسٹ  کے لوگوں کے لئے خطرناک اور نقصان دہ ہے۔اے جی پی صدر اتل بورا نے کہا کہ اجلاس تاریخی ہے کیونکہ پارٹیوں نے بل کی مخالفت کرنے اور اس کو راجیہ سبھا میں منظور نہیں ہونے دینے کا اتفاق رائے سے فیصلہ کیا۔

بتا دیں حال ہی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر نارتھ ایسٹ  کے کئی حصوں میں کچھ تنظیموں  کے ذریعے شہریت بل کی مخالفت کی وجہ سے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی آسام پولیس نے گزشتہ26 جنوری کو شہریت ترمیم بل کی مخالفت کے خدشہ کے مدنظر یوم جمہوریہ کے سرکاری پروگراموں میں لوگوں کو کالے کپڑوں میں جانے سے روکا۔وہیں میزورم کے وزیراعلیٰ نے گزشتہ 24 جنوری کو کہا کہ اگر شہریت ترمیم بل کو رد نہیں کیا گیا تو حکمراں میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف) این ڈی اےکے ساتھ اتحاد توڑنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائے‌گی۔

نگالینڈ کے وزیراعلیٰ نیفیو ریو نے بھی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو خط لکھ کر کہا تھا کہ شہریت بل ریاست پر نافذ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کو آئین کے آرٹیکل 371 (اے) کے تحت تحفظ حاصل ہے۔وہیں جنوری کی شروعات میں شہریت ترمیم بل کے لوک سبھا میں منظور ہونے کے بعد بی جے پی ترجمان مہدی عالم بورا نے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا تھا،یہ بل آسامی سماج کے سیکولر ڈھانچے کو متاثر کرے‌گا، اس پر میں پارٹی سے متفق نہیں اس لئے پارٹی چھوڑ رہا ہوں۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)