خبریں

بلیک منی پر رپورٹ کو عام نہیں کرسکتے: وزارت خزانہ

مرکزی حکومت کے پاس اس رپورٹ کو جمع کرائے 4 سال سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے ۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ان رپورٹس کی جانچ ایک پارلیامانی کمیٹی کر رہی ہے ، ایسے میں ان کو عام کرنے سے پارلیامنٹ کے خصوصی اختیار کی خلاف ورزی ہوگی۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: وزارت خزانہ نے بلیک منی پر ان 3 رپورٹس کو عام کرنے سے منع کر دیا ہے جن میں ملک کے اندر اور دوسرے ملکوں میں ہندوستانیوں کے ذریعے بلیک منی رکھنے سے متعلق جانکاری ہے۔وزارت کا کہنا ہے کہ  ان رپورٹس کی جانچ ایک پارلیامانی کمیٹی کر رہی ہے ، ایسے میں ان کو عام کرنے سے پارلیامنٹ کےخصوصی اختیار کی خلاف ورزی ہوگی۔مرکزی حکومت کے پاس گزشتہ 4 سالو ں سے زیادہ وقت سے یہ رپورٹس جمع ہیں ۔ پچھلی یو پی اے حکومت نے 2011 میں اس بارے میں دہلی واقع  نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فنانس اینڈ پالیسی (این آئی پی ایف پی)، نیشنل کاؤنسل آف اپلائیڈ اکانومک ریسرچ(اہم ایس آئی آر) اور فریدآباد کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فنانس مینجمنٹ(این آئی ایف ایم) سے الگ الگ اسٹڈی کرایا تھا۔

آرٹی آئی کے جواب میں مرکزی حکومت نے بتایا کہ اس کو این آئی پی ایف پی کی رپورٹ 30 دسمبر 2013، این سی اے ای آر کی رپورٹ 18 جولائی 2014 اور این آئی ایف ایم کی رپورٹ 21 اگست 2014 کو ملی تھی۔وزارت نے کہا کہ ، پارلیامنٹ کے مالیاتی معاملوں کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیجنے کے لیے یہ رپورٹ اور اس پر حکومت کے جواب کو لوک سبھا سکریٹریٹ بھیج دیا گیا۔خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے نمائندہ کی جانب سے دائر ایک آر ٹی آئی کے جواب میں لوک سبھا سکریٹریٹ نے تصدیق کی ہے کہ اس طرح کی رپورٹ اس کو ملی ہیں اور اس کو کمیٹی کے سامنے رکھا گیا ہے جو اس کی جانچ کرے گی۔

وزارت نے ان رپورٹس کو عام کرنے سے منع کردیا ہے ۔ اس کے پیچھے یہ دلیل دی گئی ہے کہ پارلیامنٹ کے خصوصی اختیار کی خلاف ورزی ہوگی ۔ آرٹی آئی ایکٹ -2005 کی دفعہ -8(1) (جی) کے تحت اس طرح کی رپورٹ کو عام کیے جانے سے چھوٹ حاصل ہے۔جواب کے مطابق، پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو یہ رپورٹس 21 جولائی 2017 کو سونپی گئی ۔امریکی تحقیقاتی ادارہ گلوبل فنانشیل انسٹی گریٹی کے مطابق 2005 سے 2014 کے دوران ہندوستان میں تقریباً 770 ارب امریکی  ڈالر بلیک منی آیا۔

دی نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق، یکساں مدت کے دوران تقریباً 165 ڈالر کا بلیک منی ملک سے باہر گیا ۔ وزارت خزانہ نے 2011 میں کہا تھا کہ گزشتہ کچھ وقتوں میں  بلیک منی کے مدعے نے عوام اور میڈیا کی توجہ مبذول کی ہے۔ ابھی تک ملک اور ملک سے باہر بلیک منی کا کوئی قابل اعتماد اعداد وشمار نہیں ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ قیاس مختلف غیر مصدقہ قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)