خبریں

سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کو ہتک عزت معاملے میں نوٹس جاری کیا

سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کو اس نوٹس پر 3 ہفتے میں جواب دینے کے لیے کہا ہے ۔ وہیں اٹارنی جنرل اور مرکزی حکومت کو ان کے جواب  پر ایک ہفتے میں اپنا جواب دینا ہوگا۔

پرشانت بھوشن، فوٹو: پی ٹی آئی

پرشانت بھوشن، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سینئر وکیل پرشانت بھوشن کے خلاف اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال اور مرکز کے ذریعے داخل کی گئی  ہتک عزت کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ان کے خلاف ہتک عزت کی نوٹس(Contempt Notice)جاری کی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم ایک بڑے مدعے پر بحث کر رہے ہیں کہ جب کوئی معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو تو کیا عدالت کی تنقید کرتے ہوئے عوامی رائے بنانا کسی فریق کے انصاف پانے کے حق کی خلاف ورزی ہے ؟ سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کو اس نوٹس پر 3 ہفتے میں جواب دینے کو کہا ہے ۔ وہیں اٹارنی جنرل اور مرکزی حکومت کو ان کے جواب پر ایک ہفتے میں اپنا جواب دینا ہوگا۔ سپریم کورٹ اب اس معاملے کی شنوائی 7 مارچ کو کرے گا۔

عدالت نے شنوائی کے دوران کہا کہ جب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو وکیل پبلک میں کیوں لکھ رہے ہیں یا ٹی وی مباحثے میں جارہے ہیں؟ عدالت نے مزید کہا کہ  کیا آزادی میں ذمہ داری بھی رہتی ہے؟ عدالت نے کہا کہ زیر سماعت معاملوں میں عدالت سے باہر جاکر میڈیا سے بات کرنے کا چلن بڑھ گیا ہے ۔سب کا استقبال ہے لیکن اس طرح کے معاملوں میں کوئی  وکیل کیسے میڈیا میں بیان بازی کر سکتا ہے؟

غور طلب ہے کہ سی بی آئی کے عبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ کی تقرری پر پرشانت بھوشن نے ٹوئٹر پر بیان دیے تھے ۔ اپنے بیانا ت میں پرشانت بھوشن نے عدالت کو بھی طنز کا نشانہ بنایا تھا۔قابل ذکر ہے کہ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے سی بی آئی کے عبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ کی تقرری پر سینئر وکیل پرشانت بھوشن کے حالیہ بیانات (ٹوئٹ)میں عدالت کو مبینہ طور پر گھسیٹے جانے کو لے کر ان کے خلاف  سپریم کورٹ میں سوموار کو عدالت کی ہتک عزت سے متعلق عرضی دائر کی تھی۔ہتک عزت کی عرضی میں بھوشن کے ایک فروری کے بیانات کا حوالہ دیا گیا تھا۔

بھوشن نے ایک فروری کو ٹوئٹ کرکے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ایسا جان پڑتا ہے کہ حکومت نے عدالت کو گمراہ کیا اور شاید ، وزیراعظم  کی قیادت والی اعلیٰ اختیار والی کمیٹی کے فرضی تفصیلات پیش کیے ہیں۔ایک فروری کی شنوائی کے بعد بھوشن نے ٹوئٹ کر کے کہا تھا کہ ، میں نے ذاتی طور پر اپوزیشن کے رہنما ملیکارجن کھڑگے سے بات کی ہے اور انہوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اعلیٰ اختیار والی کمیٹی کی میٹنگ میں ناگیشور راؤ کو عبوری ڈائریکٹر بنانے پر کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا۔

انہوں نے کہا معلوم پڑتا ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں اعلیٰ اختیار والی کمیٹی کے فرضی منٹ آف میٹنگ پیش کرکے اس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔اعلیٰ اختیار والی کمیٹی میں وزیر اعظم ، سب سے بڑے اپوزیشن پارٹی کے رہنما اور چیف جسٹس یا ان کے ذریعے نامزد سپریم کورٹ کے جسٹس ہوتے ہیں ۔وینو گوپال نے اپنی عرضی میں کہا کہ بھوشن نے جان بوجھ کر اٹارنی جنرل کی سچائی اور ایمانداری پر شک کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک فروری کو شنوائی کے دوران انہوں نے 9 جنوری اور 10 جنوری کو منعقد اعلیٰ اختیار والی کمیٹی کی بیٹھک میں منٹس بنچ کو سونپے تھے ۔

وینو گوپال نے اپنی دلیل میں کہا کہ منٹس آف میٹنگ محض پڑھنے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بیٹھک میں اعلیٰ اختیار والی کمیٹی نے مرکزی حکومت کو ایک اہل افسر کو سی بی آئی کے نئے ڈائریکٹر کی تقرری تک کام کی ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دینے کا فیصلہ لیا تھا۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کے تینوں ارکان وزیر اعظم نریندر مودی ، سپریم کورٹ کے جسٹس اے کے سیکری (چیف جسٹس کے نامزد نمائندہ) اور کانگریس رہنما ملیکا رجن کھڑگے کے دستخط موجود ہیں ، جو پینل کے ذریعے لیے  گئے فیصلے میں شامل تھے ۔

اٹارنی جنرل نے ہی ایک فروری کو شنوائی کے دوران سپریم کورٹ کے سامنے اعلیٰ اختیار والی کمیٹی کی میٹنگ کی تفصیلات پیش کی تھی ۔

(خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ان پٹ کے ساتھ)