خبریں

مجسمہ سازی میں خرچ کیا گیا عوام کا پیسہ مایاوتی کو واپس کرنا ہوگا: سپریم کورٹ                       

2007 سے 2012 کے درمیان جب مایاوتی وزیر اعلیٰ تھیں،مایاوتی حکومت نے دلت میموریل، جس میں بی ایس پی کے بانی کانشی رام اور بی ایس پی کے انتخابی نشان ‘ہاتھی’ کے مجسموں کی تعمیر کرائی تھی۔ جن پر 2600 کروڑ سے زیادہ خرچ ہوا تھا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ  بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی)سپریمو مایاوتی کو اپنی اور اپنی ہاتھیوں کے مجسموں پر لگے عوام کے پیسے کو واپس کرنا ہوگا۔ نوئیڈا میں لگے ہاتھی کے مجسموں کے معاملے میں شنوائی کرتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے مایاوتی کے وکیل کو کہا کہ اپنے کلائنٹ کو بتا دیجیے کہ ان کو مجسموں پر خرچ پیسے کو سرکاری خزانے میں واپس جمع کرانا چاہیے۔

 حالانکہ سی جے آئی نے  یہ بھی کہا  کہ یہ ہمارا مجوزہ خیال ہے کہ  میڈم مایاوتی کو مجسموں کا سارا پیسہ اپنی جیپ سے سرکاری خزانے کو دینا چاہیے۔این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق؛ مایاوتی کی طرف سے ستیش مشرا نے کہا کہ ا س کیس کی شنوائی مئی کے بعد ہو لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کچھ اور کہنے کے لیے مجبور نہ کریں۔ اب اس معاملے میں 2 اپریل کو شنوائی ہوگی۔

غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر شنوائی کر رہا ہے کہ کیا مایاوتی اور بی ایس پی کے  انتخابی نشان(ہاتھی) کے مجسموں کی تعمیر پرہوئے  خرچ کو بی ایس پی سے وصول کیا جائے یا نہیں۔شنوائی کرنے والی بنچ میں چیف جسٹس رنجن گگوئی کے علاوہ جسٹس دیپک گپتا اور سنجیو کھنہ  ہیں۔  عرضی گزار روی کانت نے مایاوتی اور بی ایس پی کے انتخابی نشان کے مجسموں کی تعمیر پر سرکاری خزانے کو خرچ کرنے کو لے کر سپریم کورٹ سے مانگ کی کہ مجسموں کی تعمیر پر ہوئے کروڑوں کے خرچ کو بی ایس بی سے وصول کیا جائے۔

عرضی گزار روی کانت نے سپریم کورٹ میں کہا کہ سرکاری رقم کو اس طرح خرچ نہیں کیا جا سکتا۔ سرکار کی کارروائی نا مناسب تھی اور اس پر شنوائی ہونی چاہیے۔ روی کانت نے سال 2009 میں سپریم کورٹ میں پی آئی ایل عرضی داخل کرکے مجسمے  کی تعمیر پر ہوئے کروڑوں کے خرچ کو بی ایس پی سے وصول کرنے کی مانگ کی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق؛  2007 سے 2012 کے درمیان جب مایاوتی وزیر اعلیٰ تھیں،مایاوتی حکومت نے دلت میموریل، جس میں بی ایس پی کے بانی کانشی رام اور بی ایس پی الیکشن سمبل ‘ہاتھی’ کے مجسموں کی تعمیر کرائی تھی۔یہ مجسمے  لکھنؤ، نوئیڈا اور ریاست کی کچھ دوسری جگہوں  پر لگائے گئے تھے، جن پر 2600 کروڑ سے زیادہ خرچ ہوا تھا۔

اس سے پہلے 2015 میں سپریم کورٹ نے اترپردیش کی حکومت سے پارکوں اور مجسموں پر خرچ ہوئے سرکاری پیسے کی جانکاری مانگی تھی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)