فکر و نظر

مودی حکومت کے پاس اب اپوزیشن  پر بد عنوانی کا معاملہ چلانے لائق بھروسہ نہیں بچا ہے

مودی حکومت کے ذریعے کسی بھی طرح کی فاسٹ ٹریک کارروائی کے ارادے کے بغیرجانچ ایجنسیوں کے مبینہ طورپر جانبدارانہ  استعمال کو متحد  اپوزیشن  کے ذریعے بخوبی بھنایا جائے‌گا۔

وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو : پی ٹی آئی)

وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو : پی ٹی آئی)

اس بات میں شک کی گنجائش کم ہے کہ کولکاتہ پولیس کمشنر کے خلاف سی بی آئی کی کارروائی کا وقت اور اس کا طریقہ ایک قسم کی سیاست سے متاثر تھا، جس سے میکیاویلی کا سر بھی فخر سے اونچا ہو سکتا تھا۔میکیاویلی 16ویں صدی کی اطالوی ڈپلومیٹک اور سیاسی مفکر تھا، جسے دھوکے اور بےایمانی کو سیاست کے متاثر کن آلات کے طور پر قائم کرنے اور اس کو فطری بنانے کا سہرا دیا جاتا ہے۔2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندوستانی نظام اس کا استعمال مؤثر طور پر کر رہا ہے۔ بے شک ایسے طریقوں کی ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے کئی مواقع پر وزیر اعظم دفتر نے بھی بری طرح سے غلطیاں کی ہیں۔ ظاہر ہے ایک حد کے بعد ایسے طریقے اتنے متاثر کن ثابت نہیں ہوتے۔

اپوزیشن  کی بڑھتی صف بندی  میں بہت حد تک حکمراں نظام کے ذریعے استعمال میں لائے جانے والے بلیک میل کے ان کندآلات کا کردار رہا ہے۔ پھر بھی نریندر مودی، امت شاہ اور اجیت ڈوبھال کی تثلیث سیاسی طاقت-استعمال کے آلات کے طور پر سی بی آئی،ای ڈی اور انکم ٹیکس محکمے کا استعمال کرنے سے باز نہیں آ رہی ہے۔اور زیادہ دلچسپ یہ ہے کہ انہوں نے اپوزیشن  رہنماؤں کے خلاف لگے الزامات میں سے کسی بھی الزام کو ایک طےشدہ معینہ مدت کے اندر اس کے منطقی نتیجے تک نہیں پہنچایا ہے۔ جبکہ 2014 میں مودی نے ایسے معاملوں کا حل ایک طےشدہ معینہ مدت کے اندر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

مودی نے سیاسی بد عنوانی کے معاملوں کی سماعت کرنے کے لئے فاسٹ ٹریک عدالتوں کا وعدہ عوامی طور پر کیا تھا۔ انہوں نے ایک متاثر کن لوک پال اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک صاف-ستھرے انتخابی فنڈنگ نظام کا بھی وعدہ کیا تھا۔ظاہر ہے، وزیر اعظم کا ایسا کچھ بھی کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ فوری سماعت کروانے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا، کیونکہ ایک بار کسی معاملے کا فیصلہ ہو جانے پر-کسی کو سزا مل جائے یا کوئی چھوٹ جائے-طاقت-استعمال کا ایک اوزار اقتدار کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔

اس بات کی نذیر ایودھیا میں رام مندر ہے۔ اگر اس کی تعمیر کر دی جائے، تو ایک سیاسی مدعا ختم ہو جائے‌گا۔ اس لئے مودی-شاہ کی جوڑی نے معاملوں کو بھٹی پر چڑھائے رکھنے کا راستہ اپنایا ہے، تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کا استعمال حزب مخالف رہنماؤں کے خلاف کیا جا سکے۔

ایک دکھائی پڑنے والی حکمت عملی

کوئی بھی معمولی آدمی اس حکمت عملی کو دیکھے بنا نہیں رہ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نظام نے جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال اتنا کھل‌کر کیا ہے کہ ان میں سے کچھ اداروں میں ایک طرح سے اندرونی دھماکہ ہو گیا ہے، جس کا نتیجہ ایماندار افسروں کی بغاوت کے طور پر نکلا ہے۔حال کے وقت میں ایسا سی بی آئی میں اور کچھ حد تک ای ڈی  کے اندر دیکھا گیا۔

فی الحال ایک بغاوت انکم ٹیکس محکمے میں سر اٹھا رہی ہے، جہاں کے سینئر افسر سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسیشن کے صدر کی قبضہ والی مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی بےنامی جائیدادوں کی جانکاری کاانکشاف کر رہے ہیں۔ ا س کے صدر کو سبکدوشی کے بعد وزیر اعظم دفتر کی طرف سے غیر متوقع -توسیع مل رہی ہے، جس کی وجہ کسی کو بھی سمجھ میں آ سکتی ہے۔اگر سی بی آئی کے بد عنوانی مخالف اکائی کی قیادت کر چکے ایک ایماندار افسر کو سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دےکر سی بی آئی کے کام کاج میں پی ایم او کی دخل اندازی کے بارے میں بتانا پڑا، تو اس کی کوئی پختہ وجہ رہی ہوگی۔

اسی حلف نامہ میں سی بی آئی میں بطور ڈی آئی جی اپنی  خدمات دے رہے ایم کے سنہا نے جو کہا ہے، اس کا معنی یہ نکلتا ہے کہ پورا سرکاری نظام رشوت خوری کے ایک معاملے میں سی بی آئی کے خاص ڈائریکٹر راکیش استھانا کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔سنہا نے سی بی آئی کو سینٹر فار بوگس انویسٹی گیشن اور ای ڈی کو ایکسٹارشن ڈائرکٹوریٹ(رنگداری ڈائریکٹر)کہہ‌کر پکارا۔ ایسے الزامات ساٹھ سالوں میں پہلے کبھی نہیں لگے تھے۔کوئی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ سیاسی آقاؤں کے ذریعے جانچ ایجنسیوں کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے، یہ سب اسی کے رد عمل میں ہو رہا ہے۔

روی شنکر پرساد نے سوموار کو پوچھا کہ ممتا بنرجی کولکاتہ کے پولیس کمشنر راجیو کمار کا بچاؤ کیوں  کر رہیں ہیں؟ پرساد نے سوال کیا، ‘ ان کے پاس کون سے راز دبے ہیں؟ ‘یہی سوال یکساں طورپر پی ایم او پر بھی لاگو ہو سکتا ہے، جس نے استھانا کو پوچھ تاچھ سے بچانے کے لئے اپنی پوری طاقت لگا دی۔ ایسے میں حزب مخالف بھی پلٹ‌کر یہ سوال داغ سکتا ہے، ‘ استھانا کے پاس کون سے راز دبے ہیں؟ ‘

استھانا کی کڑی

مودی اور ممتا بنرجی کے درمیان موجودہ ٹکراؤ میں راکیش استھانا ایک اہم کڑی ہیں۔اب یہ صاف ہے کہ سی بی آئی کے اسپیشل ڈائریکٹر کے طور پر عہدے میں ترقی  دئے جانے کے بعد، راکیش استھانا 2017 کے نصف آخر سے کولکاتہ کے پولیس کمشنر کو کافی جارحانہ طورپر سمن بھیج رہے تھے۔پولیس کمشنر نے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما خط لکھ‌کر جو کہا اس کا معنی یہ نکلتا ہے کہ سی بی آئی ایسے پولیس افسروں کو نشانہ بناتی دکھ رہی ہے، جو معاملے میں گواہ ہیں، جبکہ اصلی ملزمین کے خلاف، جو اب بی جے پی کا حصہ ہیں، کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔

راکیش استھانا (فوٹو : پی ٹی آئی)

راکیش استھانا (فوٹو : پی ٹی آئی)

وہ مکل رائے اور آسام کے نائب-وزیراعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کی طرف اشارہ کر رہے تھے، جو شاردا چٹ فنڈ کو آسام میں کام کرنے دینے کے عوض میں ہر مہینہ مبینہ طور پر 20 لاکھ روپے لیتے تھے۔ مکل رائے شاردا چٹ فنڈ کے مالک سدیپت سین کو بنگال سے محفوظ نکلنے کا راستہ دینے کے ملزم تھے۔ آلوک ورما کو مغربی بنگال کی پولیس ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی پی) نے شاردا جانچ سے جڑے مسائل پر سی بی آئی اور کولکاتہ پولیس کو آپس میں مل‌کر بات چیت کرنے کی تجویز بھی دی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ استھانا کولکاتہ پولیس کے افسروں سے پوچھ تاچھ کرنے پر اڑے رہے۔ اس لئے یہ پورا معاملہ جانبدارانہ لگتا ہے۔

ہم نے کرناٹک انتخاب سے پہلے ایجنسیوں کی جانبداری  کو دیکھا، جب سی بی آئی نے ریڈی بندھوؤں کو ایک ایسے معاملے میں راحت دے دی، جس کو ریاست کے لوک پال نے غیر قانونی لوہا برآمد کا آسانی سے ثابت ہونے والا معاملہ بتایا تھا۔ اس کے بعد ہم کرناٹک کے کانگریسی رہنما ڈی شیوکمار کے احاطوں پر ڈالے گئے کئی چھاپوں کے بھی گواہ بنے۔حال کی بات کریں تو مایاوتی اور اکھلیش یادو کے درمیان 2019 کے لئے انتخابی اتحاد کئے جانے کے بعد اکھلیش کے خلاف ریت کان کنی ایک 12 سال پرانے معاملے میں ایک تازہ مقدمہ درج کر دیا گیا۔

اسی طرح سے چندربابو نائیڈو کے ذریعے بی جے پی سے رشتہ توڑ لئے جانے کے بعد ان کے خلاف بھی لاء اینڈ آرڈر کو تحلیل کرنے کے کچھ پرانے معاملوں کو پھر سے شروع کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ حال میں مایاوتی بھی ای ڈی کی جانچ‌کے دائرے میں آ گئیں۔ان تمام رہنماؤں نے ممتا بنرجی کے ساتھ یکجہتی دکھائی ہے۔ ممتا کے دھرنا نے بی جے ڈی کے نوین پٹنایک کو بھی بھڑکا دیا، جنہوں نے کہا کہ سی بی آئی کا استعمال ان کی پارٹی کے خلاف بھی کیا جا رہا ہے۔

ایسے میں اگراپوزیشن یہ دعویٰ کرے کہ وہ بی جے پی، سی بی آئی اور ای ڈی اور انکم ٹیکس محکمے کے اتحاد کے خلاف متحد ہو رہی ہے، تو اس میں حیران ہونے والی کوئی بات نہیں ہے!مودی کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ ان جانبدارانہ  کارروائیوں اور معاملوں کے فوری حل کی کسی منشاء کے بغیر تفتیش ایجنسیوں کے توہین آمیز استعمال نے این ڈی اے کے سامنے بھروسہ کا ایک سنگین بحران پیدا کر دیا ہے۔

اب جبکہ مودی کی مدت کار ختم ہو رہی ہے اور انتخاب سر پر ہے، آدھی رات میں کی جانے والی ہر چھاپےماری یا ایف آئی آر کو بدلے کی کارروائی کے طور پر دیکھا جائے‌گا اور حزب مخالف اس کا اپنے فائدے کے لئے زیادہ سے زیادہ استعمال کرے‌گا۔مودی اس انتخاب میں بد عنوانی کا استعمال اس طرح سے ایک مدعا کے طور پر نہیں کر سکتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے 2014 میں کیا تھا۔ اس کے الٹ ان کو اپنے دورحکومت میں بےقابو کرونی کیپٹل ازم سے جڑے سوالوں کا بھی جواب دینا پڑ سکتا ہے۔