فکر و نظر

رویش کا بلاگ: دی ہندو کی رپورٹ سے اٹھا سوال، کس کے لئے رافیل ڈیل میں ڈیلر اور کمیشن خور پر مہربانی کی گئی؟

آخر مودی حکومت فرانس کی دونوں کمپنیوں کو بد عنوانی کی حالت میں کارروائی سے کیوں بچا رہی تھی؟ اب مودی جی ہی بتا سکتے ہیں کہ بد عنوانی ہونے پر سزا نہ دینے کی مہربانی انہوں نے کیوں کی۔ کس کے لئے کی۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

آج کے دی ہندو میں رافیل ڈیل کی فائل سے دو اور صفحے باہر آ گئے ہیں۔اس بار پورا صفحہ چھپا ہے اور جو باتیں ہیں وہ کافی خوفناک ہیں۔ دی ہندو کی رپورٹ کو اپنی زبان  میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔حکومت بار بار کہتی ہے کہ رافیل ڈیل میں کوئی بد عنوانی نہیں ہوئی ہے۔ وہی حکومت ایک بار یہ بھی بتا دے کہ رافیل ڈیل کی شرطوں میں بد عنوانی ہونے پر کارروائی کے اہتمام کو کیوں ہٹایا گیا؟ وہ بھی وزیر اعظم کی صدارت والی دفاعی معاملوں کی کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں اسے ہٹایا گیا۔

کیا آپ نے دفاعی خرید کی ایسی کوئی ڈیل سنی ہے جس کی شرطوں میں سے کسی ایجنسی یا ایجنٹ سے کمیشن لینے یا غیر ضروری دباؤ ڈالنے پر سزا کے اہتمام کو ہٹا دیا جائے؟ مودی حکومت کی مبینہ طور پر سب سے شفاف ڈیل میں ایسا ہی کیا گیا ہے۔ مودی جی بتا دیں کہ کس ڈیلر کو بچانے کے لئے اس شرط کو ہٹایا گیا ہے؟

دی ہندو نے اپنے پہلے صفحے کی پوری کور پر تفصیل سے اس کو چھاپا ہے۔ اگر سب کچھ ایک ہی دن چھپ جاتا تو حکومت ایک بار میں رد عمل دےکر نکل جاتی۔ اب اس کو اس پر بھی رد عمل دینا ہوگا۔ کیا پتہ پھر کوئی نیا نوٹ جاری کر دیا جائے۔ این رام نے جب 8 فروری کو نوٹ کا آدھا صفحہ چھاپا تو حکومت نے پورا صفحہ جاری کروا دیا۔ اس سے تو آدھے صفحے کی بات کی ہی تصدیق ہوئی۔ لیکن اب جو نوٹ جاری ہوا ہے وہ اس سے بھی خوفناک ہے اور اس کو پڑھنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں افسران  وزیر اعظم دفتر(پی ایم او) کے متوازی طور سے دخل دینے کو لےکر فکرمند تھے۔

این رام نے دفاعی خرید کی کارروائی  کی شرطوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 2013 میں بنائے گئے اس اصول کو ہر دفاعی خرید پر نافذ کیا جانا تھا۔ ایک اسٹینڈرڈ پروسیس کو اپنایا گیا تھا کہ کوئی بھی ڈیل ہو اس میں چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ مگر حکومت ہند نے فرانس کی دو کمپنیوں داسسو اور ایم بی ڈی اے فرانس کو بے مثال رعایت دی۔

 وزارت دفاع کے مالیاتی افسر اس بات پر زور دیتے رہے کہ پیسہ سیدھے کمپنیوں کے ہاتھ میں نہیں جانا چاہیے۔ یہ مشورہ دیا گیا کہ سیدھے کمپنیوں کو پیسہ دینے کے بجائے ایسکرو اکاؤنٹ بنایا جائے۔ اس میں پیسے رکھے جائیں۔ یہ کھاتا فرانس کی حکومت کا ہو اور وہ تبھی ادا کرے جب داسسو اور ایم بی ڈی اے فرانس ساری شرطوں کو پورا کرتے ہوئے فراہمی کرے۔ یہ اہتمام بھی ہٹا دیا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا۔ کیا یہ شفاف طریقہ ہے؟ سیدھے فرانس کی کمپنیوں کو پیسہ دینے اور اس کو ان کی حکومت کی نگہبانی سے آزاد کر دینا، کہاں کی شفافیت ہے۔

این رام نے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ سے یہ باتیں چھپائی ہیں۔ کیا حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اس ڈیل میں قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر اعظم دفتر کے بھی رول  رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب حکومت سے آ سکتا ہے یا پھر سپریم کورٹ سے۔


یہ بھی پڑھیں:  دی ہندو کی رپورٹ میں ہوا انکشاف: رافیل ڈیل میں پی ایم او نے دیا تھا دخل، وزارت دفاع نے کیا تھا اعتراض


این رام کا کہنا ہے کہ بغیر اوپر سے آئے دباؤ کے ان شرطوں کو ہٹانا آسان نہیں ہے۔ بےوجہ دباؤ ڈالنے پر سزا کا اہتمام تو اسی لئے رکھا جاتا ہوگا کہ کوئی خرید عمل میں دوسرے چینل سے شامل نہ ہو جائے اور ٹھیکہ نہ لے لے۔ ایجنٹ اور ایجنسی کا پتہ چلنے پر سزا کا اہتمام اسی لئے رکھا گیا ہوگا تاکہ کمیشن کی گنجائش نہ رہے۔ اب آپ اپنی زبان  میں سوچیں، کیا یہ سمجھنا واقعی اتنا مشکل ہے کہ ان شرطوں کو ہٹانے کے پیچھے کیا منشا رہی ہوگی؟

بہ شکریہ : دی ہندو

بہ شکریہ : دی ہندو

23 ستمبر 2016 کو دہلی میں ہندوستان اور فرانس کے درمیان معاہدہ  ہوا تھا۔ اس کے مطابق دفتار رافیل ایئرکرافٹ کی سپلائی کرے‌گا اور MBDA فرانس ہندوستانی فضائیہ کو ہتھیاروں کا پیکیج دے‌گی۔ اسی مہینے میں پریکر کی صدارت میں دفاعی خرید کونسل کی میٹنگ ہوئی تھی۔اس اجلاس میں خرید سے متعلق آٹھ شرطوں کو بدل دیا گیا۔ ان میں آفسیٹ کانٹریکٹ اور سپلائی پروٹوکول بھی شامل ہیں۔ آفسیٹ کانٹریکٹ کو لےکر ہی تنازعہ ہوا تھا کیونکہ انل امبانی کی کمپنی کو دفاعی آلات بنانے کا ٹھیکہ ملنے پر سوال اٹھے تھے۔ 24 اگست 2016 کو پہلے وزیر اعظم کی صدارت میں دفاع کی کابینہ کمیٹی نے منظوری دے دی تھی۔

ڈیل سے ایجنٹ، ایجنسی، کمیشن اور بےکار دباؤ ڈالنے پر سزا کے اہتمام کو ہٹانے سے جو کمرشیل سپلائر تھے ان سے سیدھے بزنس کرنے کا راستہ کھل گیا۔ اس بات کو لےکر ہندوستانی مذاکرہ کار ٹیم کے ایم پی سنگھ، اے آر سلے اور راجیو ورما نے عدم اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ دی ہندو کے پاس جو دستاویز ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ ان تینوں نے کافی سخت اعتراض کیا ہے۔ دو کمپنیوں کے ساتھ سیدھے ڈیل کرنے والی بات پر نوٹ میں لکھتے ہیں کہ خرید دو حکومتوں کی سطح پر ہو رہی ہے۔ پھر کیسے فرانس حکومت آلات کی فراہمی، انڈسٹریل خدمات کی ذمہ داری فرانس کے انڈسٹریل سپلائروں کو سونپ سکتی ہے۔ یعنی پھر حکومتوں کی سطح پر ڈیل کا مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے جب حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں رہ جاتی ہے۔

تینوں افسر اس بات کو لےکر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ خرید کے لئے پیسہ فرانس حکومت کو دیا جانا تھا۔ اب فرانس کی کمپنیوں کو سیدھے دیا جائے‌گا۔ مالیاتی ایمانداری کی بنیادی شرطوں سے سمجھوتہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

وزارت کے تین بڑے افسر لکھ رہے ہیں کہ مالیاتی ایمانداری کی بنیادی شرطوں سے سمجھوتہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ وہ کیوں ایسا لکھ رہے تھے؟

آخر حکومت فرانس کی دونوں کمپنیوں کو بد عنوانی کی حالت میں کارروائی سے کیوں بچا رہی تھی؟ اب مودی جی ہی بتا سکتے ہیں کہ بد عنوانی ہونے پر سزا نہ دینے کی مہربانی انہوں نے کیوں کی۔ کس کے لئے کی۔ دو ڈیفینس سپلائر کے لئے کیوں کی یہ مہربانی۔

ویڈیو:  رافیل ڈیل میں پی ایم اوکا دخل اور وزارت دفاع کا اعتراض

این رام اب اس بات پر آتے ہیں کہ اس مہربانی کو اس بات سے جوڑ‌کر دیکھا جائے کہ کیوں حکومت ہند نے 70 سے 80 ہزار کروڑ کی اس ڈیل کے لئے فرانس حکومت سے کوئی گارنٹی نہیں مانگی۔آپ بھی کوئی ڈیل کریں‌گے تو چاہیں‌گے کہ پیسہ نہ ڈوبے۔ بیچ میں کوئی گارنٹر رہے۔ مکان خریدتے وقت بھی آپ ایسا کرتے ہیں۔ یہاں تو وزارت دفاع کے افسر کہہ رہے ہیں کہ بینک گارنٹی لے لیجئے، حکومت سے خودمختار گارنٹی لے لیجئے مگر حکومت ہند کہتی ہے کہ نہیں ہم کوئی گارنٹی نہیں لیں‌گے۔ یہ مہربانی کس کے لئے ہو رہی تھی؟

این رام نے لکھا ہے کہ اس کے بدلے حکومت لیٹر آف کنفرم پر مان جاتی ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔ اس میں یہی لکھا ہے کہ اگر سپلائی میں دقتیں آئیں تو فرانس کی حکومت مناسب قدم اٹھائے‌گی۔

یہ لیٹر آف کنفرٹ بھی دیر سے آیا۔ 24 اگست 2016 کی کابینہ کمیٹی کے اجلاس سے پہلے تک گارنٹی لینے کی تجویز تھی۔ یہی کہ فرانس کی حکومت کے پاس ایک کھاتا ہو جس کو ایسکرو اکاؤنٹ کہتے ہیں۔ اسی کے ذریعے جب جب جیسا کام ہوگا، جتنی سپلائی ہوگی، ان دو کمپنیوں کو پیسہ دیا جاتا رہے‌گا۔ کمپنیاں بھی اس بھروسے کام کریں‌گی کہ مال کی سپلائی کے بعد پیسہ ملے‌گا ہی کیونکہ وہ اسی کی حکومت کے کھاتے میں ہے۔ لیکن وزارت دفاع کے ڈائریکٹر خرید اسمتا ناگراج اس کو ہٹا دینے کی تجویز بھیجتی ہیں اور منظوری مل جاتی ہے۔ وزیر اعظم نے اس کو منظوری کیوں دی؟


یہ بھی پڑھیں: رویش کا بلاگ: رافیل معاملے میں امبانی کے لئے وزیر اعظم نے وزارت دفاع اور سپریم کورٹ سے جھوٹ بولا


اب آپ یہاں 8 فروری کو چھپی این رام کی رپورٹ کو یاد کیجئے۔ اس رپورٹ میں یہی تھا کہ 24 نومبر 2015 کو وزارت دفاع کے تین اعلیٰ افسر اعتراض کرتے ہیں کہ وزیر اعظم دفتر ہماری جانکاری کے بغیر آزادانہ طورپر اس ڈیل میں گھس گیا ہے۔ جس سے ہماری ٹیم کے مول بھاؤ کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔ دفاعی سکریٹری جی موہن کمار بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے وزیر دفاع کو فائل بھیجتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ مناسب ہوگا کہ وزیر اعظم دفتر اس سے دور رہے۔

مودی حکومت کے ذریعے کی گئی تبدیلی، بہ شکریہ : دی ہندو

مودی حکومت کے ذریعے کی گئی تبدیلی، بہ شکریہ : دی ہندو

اس نوٹ پر وزیر دفاع تقریباً ڈیڑھ مہینے کے بعد سائن کرتے ہیں۔ 11 جنوری 2016 کو۔ خود وزیر دفاع فائل پر سائن کرنے میں ڈیڑھ مہینہ لگاتے ہیں۔ لیکن وزارت دفاع میں مالیاتی مشیر سدھانشو موہنتی کو فائل دیکھنے کا مناسب وقت بھی نہیں دیا جاتا ہے۔ 14 جنوری 2016 کو سدھانشو موہنتی نوٹ-263 میں لکھتے ہیں کہ کاش میرے پاس پوری فائل دیکھنے اور کئی مدعوں پر خیال کرنے خاطر خواہ وقت ہوتا۔ پھر بھی چونکہ فائل فوراً وزیر دفاع کو سونپی جانی ہے میں مالیاتی نظر سے کچھ فوری تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔

موہنتی لکھتے ہیں کہ اگر بینک گارنٹی یا خودمختار گارنٹی کا اہتمام نہیں ہو پا رہا ہے تو کم سے کم ایک ایسکرو اکاؤنٹ کھل جائے جس کے ذریعے کمپنیوں کو پیسہ دیا جائے۔ اس سے سپلائی پوری کرانے کی اخلاقی ذمہ داری فرانس کی حکومت کی ہو جائے‌گی۔ چونکہ فرانس کی حکومت بھی اس ڈیل میں ایک پارٹی ہے اور سپلائی کے لئے مشترکہ طور پر ذمہ دار ہے تو اس کو اس طرح کے کھاتے سے اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

موہنتی اپنے نوٹ میں حکومت اور کمپنی کے درمیان تنازعہ ہونے پر کیسے حل ہوگا، اس پر جو اتفاق بن چکا تھا، اس کو ہٹانے پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ وزارت قانون نے بھی بینک گارنٹی اور خودمختار گارنٹی کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ وزارت دفاع کو بھیجے گئے اپنے نوٹ میں۔

کوئی بھی مبینہ طور پر ایماندار حکومت کسی معاہدے سے بد عنوانی کے امکان پر کارروائی کرنے کا اہتمام کیوں ہٹائے‌گی؟ بنا گارنٹی کے 70 سے 80 ہزار کروڑ کا معاہدہ کیوں کرے‌گی؟ کیا بد عنوانی ہونے پر سزا کے اہتماموں کو ہٹانا شفافیت ہے؟ آپ جب ان سوالوں پر سوچیں‌گے تو جواب مل جائے‌گا۔

(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)