فکر و نظر

مودی حکومت کا یہ غصہ کسی گھبراہٹ کا مظہر تو نہیں؟

کانگریس کو ابھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ لوک سبھا انتخاب میں 100 سیٹوں سے زیادہ لا پائے گی۔ ایسے میں امید کی کرن یہی ہے کہ رائے دہندگان پارلیامنٹ میں کی گئی مودی کی تقریر سے متاثر نہ ہوں۔

فوٹو : رائٹرز

فوٹو : رائٹرز

وزیر اعظم نریندر مودی جب لوک سبھا میں کانگریس اور اپوزیشن  پر حملہ کررہے تھے، تب کانگریس لیڈران کا ایک گروپ 24 اکبر روڈ پر کاناپھوسی میں لگا ہوا تھا۔اے کاش پرینکا گاندھی واڈرا لوک سبھا کی ممبر ہوتیں تومودی کو منھ توڑ جواب دیتیں ۔اگر مودی کو کوئی بات ثابت کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی، تو کانگریس اوراپوزیشن   یعنی غیر این ڈی اے دھڑے کی ساری پارٹیاں جانتی ہیں کہ ابھی بھی مودی میں اتنی اہلیت ہے کہ اکیلے دم پر ایک بار پھر وہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔

2018 کے جاتے ہوئے ایام دیکھ چکے ہیں کہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کو فتح نصیب ہوئی، مگر اس قدیم و عظیم پارٹی کو ابھی بھروسہ نہیں ہے کہ مئی 2019 میں ہونے والے لوک سبھا انتخاب میں وہ 100 سیٹوں سے زیادہ لا پائے گی۔ ایسے میں امید کی کرن یہی ہے کہ ملک کے 29  صوبوں کی 543 سیٹوں پر ہونے والے الیکشن کے رائے دہندگان پارلیامنٹ میں کی گئی مودی کی تقریر سے متاثر نہ ہوں۔آخر کھیتی میں کسانوں کی مشکلات ایک حقیقت ہی ہے۔ بجٹ میں غریب کسانوں کے لیے 500 روپے ماہانہ کی رقم دینے کا اعلان بذاتِ خود یہ قبول کرنا ہے کہ کھیتی کے شعبے میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ روزگار کی کمی  دورسے دکھائی پڑ رہی ہے۔ یہاں تک کہ محکمہ شماریات کے چیف آفیسر استعفیٰ دے چکے ہیں اور جرائم سے لے کر معاشیات تک کے اہم اعدادوشمار غائب ہیں۔

رابرٹ واڈرا سے لے کر وجے مالیا، کرشچین مائیکل اور شاردا گھوٹالے تک تمام معاملات ایک لڑی میں پروئے جا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے منشاء یہی ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیوں کو بدعنوانی کے الزامات میں لپیٹ دیا جائے۔ جس سے بہ آسانی کہا جا سکے کہ یہ ساری بدعنوان پارٹیاں ایک دوسرے سے مل کر ملک میں لوٹ مار مچانے والی ہیں۔ مہا گٹھ بندھن کو مہا ملاوٹ یا مہا ٹھگ بندھن جیسا نام دیاجانا مودی کی اسی نیتی کا حصہ لگتے ہیں۔ لیکن اس بابت حقائق پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے، کیونکہ ملک میں انتخابی فیصلے الگ طرح سے آتے ہیں۔ تمل ناڈو کے لوگوں کو جے للیتا یا ایم کروناندھی کا انتخاب کرنے میں کوئی ہچک نہیں ہوتی۔ اسی طرح کی مثالیں بہار، اتر پردیش، ہماچل پردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ اور ملک کے شمال مشرقی حصوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

بدعنوانی اپنے آپ میں بڑی لعنت اور قابلِ سزا عمل ہے، لیکن طول و طویل قانونی جنگ، قانون کا من مانہ اطلاق اور این ڈی اے کے ذریعے واڈرا، مایاوتی، مالیا، کرشچین مائیکل، شاردا گھوٹالے جیسی فائلزکا عین 2019 کے انتخاب سے پہلے کھل جانا، بدعنوانی کے خلاف اقدام کو ایک سیاسی حربے میں تبدیل کر رہا ہے۔اگر مودی سرکار (سمبِت پاترا اس میں شامل ہیں) کے پاس رابرٹ واڈرا کے خلاف پختہ ثبوت تھے، تو مرکزی سرکار کے ساتھ ہی بی جے پی کی راجستھان اور ہریانہ سرکار نے ان کے خلاف کارروائی کرنے میں مہینوں اور سالوں لگا دیے۔ اب اس وقت یعنی انتخاب  سے پہلے ان کے خلاف یہ معاملات اٹھانے پر غیر بھکت قسم کے لوگ رک کر سوچ سکتے ہیں اور اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کر سکتے ہیں کہ یہ سرکاریں اب تک کیا کر رہی تھیں؟


یہ بھی پڑھیں : مودی حکومت کے پاس اب اپوزیشن پر بد عنوانی کا معاملہ چلانے لائق بھروسہ نہیں بچا ہے


وزیر اعظم کو رافیل اور قومی سلامتی سے جڑے ایسے دوسرے معاملات پر کانگریس کے خلاف مورچہ کھولنے کا حق ہو سکتا ہے، لیکن ایک سوال ضروری ہے۔ یہ کہ اگر کانگریس قومی سلامتی جیسے حساس موضوع پر ایسے تباہ کن فیصلے لے رہی تھی تو، وزیر اعظم کو اُس کے خلاف قدم اٹھانے سے کس نے روکا تھا؟ “کانگریس نہیں چاہتی تھی کہ انڈین ایئر فورس طاقتور بنے۔ میں ایک گمبھیر آروپ لگا رہا ہوں۔” جیسی باتوں کو ثبوت یا کسی بنیاد کی ضرورت ہوتی ہیں۔ پرانے وقت پر نظر رکھنے والے لوگ اسے آسانی سے بھول نہیں سکتے کہ کانگریس کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے ہی سنہ 1971 میں پاکستان کو شکستِ فاش سے ہمکنار کیا تھا اور اس کے دو حصے کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

کوئی مودی کی گنا (مدھیہ پردیش) میں 2014 کے عام انتخاب  کی تشہیری مہم کے دوران کی گئی وہ تقریر بھی یاد کر سکتا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ “ہم ان کی نیند چرا لیں گے۔” لیکن اب تک ہوا کچھ بھی نہیں اور اگلے الیکشن  آن کھڑے ہوئے۔یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ الکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ای وی ایم کو کسی دیگر وسیلے سے ہیک کرنے کے کوئی پختہ ثبوت نہیں ہیں ۔ ووٹگ کے لیے اس مشین کے استعمال سے خرچ میں بھی بہت کمی آئی ہے۔ اب وی وی پیٹ کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے، جس میں ووٹ ڈالنے پر پرچی برامد ہوتی ہے۔

ووٹنگ کے بعد مشین میں کسی گڑبڑی کا شک و شبہ ہونے پر اس پرچی کو ثبوت کے  طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انتخاب کے کسی بھی عمل کو معتبر بنانے کے لیے تین پہلو نہایت اہم ہوتے ہیں: پہلا رازداری/اِخفاء؛ دوسرا شفافیت اور تیسرا انتخابی عمل کو ثابت کرنے کی اہلیت۔  لیکن کہا جا سکتا ہے کہ ای وی ایم ان تینوں معاملات میں کسی سطح پر ناکام ٹھہرتی ہے۔کسی بھی غیر جانبدار مشاہد کے لیے، جو مودی کی تقاریر بنا کسی تفرقہ پروری کے سنتا ہو، یہ بات تعجب خیز ہو سکتی ہے کہ وزیر اعظم، اُن کے منتری اور بی جے پی  کے ترجمان بولتے اور تقریر کرتے وقت یکساں طور پر غصے سے بھرے نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے غصے کا مظاہرہ ان لوگوں کے لیے قطعی غیر مناسب ہے، جو بر سرِ اقتدار ہیں۔ یہ مظاہرہ پسِ پردہ مایوسی و افسردگی کے ساتھ ناکامی کی کہانی بھی کہتا ہے۔