خبریں

بھوپین ہزاریکا کے بیٹے نے اپنے والد کو بھارت رتن دینے کی مودی حکومت کی منشا پر اٹھائے سوال

گلوکار بھوپین ہزاریکا کے بیٹے تیج ہزاریکا کا کہناہےکہ وہ اپنے والد کو دیے گئے بھارت رتن کو اسی وقت قبول کریں گے جب مرکزی حکومت شہریت ترمیم بل کو واپس لے گی ۔

بھوپین ہزاریکا، فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب

بھوپین ہزاریکا، فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب

نئی دہلی: شہریت ترمیم بل تنازعے کی وجہ سے ملک کے مشہور گلوکار  اور موسیقار بھوپین ہزاریکا کو ان کی وفات کے بعد دیے جانے والے بھارت رتن کو ان کے اہل خانہ نے قبول نہیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ اس سال یوم جمہوریہ کے موقع پر مودی حکومت نے ہزاریکا کو ملک کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے نوازے جانے کا اعلان کیا تھا ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ، بھوپین ہزاریکا کے بیٹے تیج ہزاریکا نے شہریت ترمیم بل کی مخالفت میں یہ اعلان کیا ہے ۔

گلوکار بھوپین ہزاریکا کے بیٹے تیج ہزاریکا کا کہنا ہے کہ اب تک اس بارے میں مرکزی حکومت کا جو رویہ رہا ہے، وہ کسی جانے مانے قومی اعزاز کو دینے لینے کی اہمت سے زیادہ سستی اور وقتی مقبولیت حاصل کرنے کا حربہ ہے۔ان کے اس اعلان کے بعد بھوپین ہزاریکا کے اہل خانہ بھارت رتن کوقبول کرنے کو لے کر آپس میں متفق نہیں ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق، بھوپین ہزاریکا کے بھائی سمر ہزاریکا اور بھابھی منیشا ہزاریکا  کا کہنا ہے کہ بھارت رتن کی بے عزتی نہیں کرنی چاہیے ۔ حالاں کہ امریکہ میں رہ رہے تیج ہزاریکا نے صورت حال کو اپنے فیس بک پوسٹ میں واضح کیا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ؛

کئی صحافی مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں اپنے والد کو دیے گئے بھارت رتن کو قبول کروں گا یا نہیں ؟ تو  میں ان کو بتادوں کہ مجھے ابھی تک اس کو لے کر کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا ہے ۔ اس لیے ابھی اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے جیسا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ مرکزی حکومت نے اس اعزاز کو دینے میں ایک طرح کی عجلت پسندی دکھائی ہے  اور اس کے لیے جو وقت چنا ہے وہ کچھ اور نہیں بس مقبولیت کا فائدہ اٹھانے کا ایک سستا طریقہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ، میں نے بھارت رتن دینے کو ‘چپ تھرل’ قرار نہیں دیا ہے ،بلکہ یہ جس وقت دیا جارہا ہے اس پر سوال کھڑے کیے ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب نارتھ ایسٹ میں عوام ،شہریت ترمیم بل کی مخالفت میں سڑکوں پر ہیں ان کے ہیرو کو بھارت رتن دینا سوال کھڑے کر تا ہے۔تیج نے صاف کیا ہے کہ وہ اپنے والد کو دیے گئے بھارت رتن کو اسی وقت قبول کریں گے جب مرکزی حکومت شہریت ترمیم بل کو واپس لے گی ۔اس اعلان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے بھوپین ہزاریکا کے بھائی سمر ہزاریکا نے کہا کہ ، یہ تیج کا فیصلہ ہے ، میر انہیں ۔ خیر مجھے لگتا ہے کہ ان کو بھارت رتن لینا چاہیے ۔ ویسے بھی بہت دیر ہوچکی ہے۔

مشہور گلو کار کے بیٹے تیج ہزاریکا نے فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ، میرا ماننا ہے کہ میرے والد کے نام کا استعمال ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب شہریت ترمیم بل جیسے متنازعہ بل کو غیر جمہوری طریقے سے لانے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ، یہ بھوپین دا کی اس سوچ او رنظریے کے خلاف ہے جس کی انہوں نے ہمیشہ حمایت کی ۔تیج ہزاریکا کے بیان پر آسام کے وزیر اعلیٰ سربانند سونو وال کے میڈیا صلاح کار رشی کیش گوسوامی نے  انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں کہا کہ ، بھوپین ہزاریکا کی فیملی نے بھارت رتن کو تہہ دل سے قبول کر لیا ہے اور عوامی طور پر اس کا خیر مقدم بھی کیا ہے ۔ کیا تیج ہزاریکا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کے والد بھارت رتن کے قابل نہیں ہیں ؟ وہ امریکہ میں بیٹھ کر کیوں اس بل پر بیان دے رہے ہیں ۔

وہیں نئی دہلی میں وزارت داخلہ کے افسروں نے یہ کہتے ہوئے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا کہ وہ ہزاریکا کے اہل خانہ کی جانب سے رسمی طور پر جواب کا انتظار کر رہے ہیں ۔قابل ذکر ہے کہ بھوپین ہزاریکا  کا تعلق آسام سے تھا ۔ اپنی مادری زبان آسامی کے علاوہ بھوپین ہزاریکا نے ہندی ، بنگلہ سمیت مختلف ہندوستانی زبانوں میں نغمے گائے ۔ انہوں نے گاندھی ٹو ہٹلر  میں مہاتما گاندھی کا پسندیدہ بھجن ویشنو جن بھی گایا تھا ۔ ان کو پدم بھوشن سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔ 8 ستمبر 1926 کو  آسام میں پیدا ہوئے ہزاریکا نے اپنا پہلا نغمہ 10 سال کی عمر  میں گایا تھا ۔ ان کا انتقال 5 نومبر 2011 کو ہوا تھا۔

غور طلب ہے کہ اس سے پہلے منی پور کے مشہور فلمساز اریبم شیام شرما نے نے بل کی مخالفت میں اپنا پدم شری اعزاز لوٹا دیا تھا ۔واضح ہو کہ  شہریت بل کو لےکر پورے مشرقی ہندوستان میں مخالفت ہو رہی ہے۔ اس بل کے ذریعے مرکزی حکومت کی  پڑوسی ممالک کے غیر مسلمانوں کو ہندوستان کی شہریت دینے کی اسکیم ہے۔ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہندو، سکھ، جین، بودھ ، عیسائی اور پارسی لوگوں کو شہریت دینے کا جو بل لایا گیا، اس کو لوک سبھا نے پاس کر دیا ہے۔

بل کو لےکر سماجی کارکنان اور شمال مشرق کی علاقائی پارٹیوں  نے بھی ناراضگی ظاہر کی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بل مسلم مخالف ہے اور آئندہ انتخابات کو دیکھتے ہوئے بی جے پی ہندتووادی سیاست کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پچھلے مہینے آسام کی بی جے پی حکومت کو تب بڑا جھٹکا لگا تھا جب 80 کی دہائی میں غیر قانونی مہاجر مخالف تحریک کے دوران اپنی جان گنوانے والے لوگوں کی فیملی کے 8 ممبروں نے حکومت کو ایک ایوارڈ لوٹانے کا فیصلہ لیا تھا۔ دراصل، ان کو یہ ایوارڈ  2016 میں سربانند سونووال حکومت نے دیا تھا۔

بل کی مخالفت کرتے ہوئے ایسی 125 فیملیوں نے گواہاٹی میں ایک ریلی نکال‌کر اپنا ایوارڈ  لوٹایا۔ آسام آندولن  کے دوران اپنی جان گنوانے والے 855 لوگوں کی فیملی اس بل کو اپنی بے عزتی کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ لوک سبھا سے پاس ہو چکے اس بل کو اگلے سیشن میں راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے‌گا۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ وہاں حزب مخالف جماعتوں کے ذریعے اس کا خاصا اثر  ہوگا۔ باہری لوگوں کو ملک میں داخلہ دینے کی مخالفت میں لوگ سڑکوں پر اتر رہے ہیں وہیں سماجی گروپوں  نے مذہبی بنیاد پر مہاجروں کے خلاف جانبداری کا الزام لگایا ہے۔

اب تک شمال مشرق کے کم سے کم 4 وزیراعلیٰ  بل کو لےکر خدشہ  کا اظہار کر  چکے ہیں۔ شمال مشرق میں بڑھتی مخالفت کی وجہ سے  مرکزی حکومت سے اس بل کو رد  کروانے کے لئے متحد ہو کر  کوشش کرنے کی سمت میں حال ہی میں میگھالیہ کے وزیراعلیٰ کانراڈ سنگما اور میزورم کے وزیراعلیٰ زورمتھانگا نے دہلی  کا دورہ کیا تھا۔

(خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ان پٹ کے ساتھ)