خبریں

3مہینے  کے اندر اقلیت کی تعریف طے کرے قومی اقلیتی کمیشن: سپریم کورٹ

بی جے پی رہنما اشونی کمار اپادھیائے نے ایک پی آئی ایل  دائر کر کےکہا ہے کہ ہندو جو ملک گیر اعداد و شمار کے مطابق ایک اکثریتی کمیونٹی ہے، نارتھ ایسٹ  کی کئی ریاستوں اور جموں و کشمیر میں اقلیت میں  ہے۔ ہندو کمیونٹی ان فوائد  سے محروم ہے جو کہ ان ریاستوں میں اقلیتی کمیونٹی کے لئے موجود ہیں۔ اقلیتی کمیشن کو اس تناظر میں ’ اقلیت ‘لفظ کی تعریف پر پھر سے غور کرنا چاہیے۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) کو ہدایت دی ہے کہ وہ تین مہینے  کے اندر اقلیت کی تعریف طے کرے۔ سوموار کو چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی بنچ نے اقلیت کی تعریف اور اقلیتوں کی پہچان‌کی گائیڈ لائنس طے کرنے کی مانگ کرنے والی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے یہ ہدایت جاری کی۔ بی جے پی رہنما اشونی کمار اپادھیائے نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کرکے کورٹ سے تعریف طے کرنے کی مانگ کی تھی۔ اس پر سوموار سے تین مہینے کے اندر فیصلہ لیا جائے‌گا۔

اپادھیائے نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ ملک گیر آبادی کے اعداد و شمار کے بجائے ریاست میں ایک کمیونٹی کی آبادی کے تناظر میں اقلیت لفظ کو پھر سے واضح  کرنے اور اس پر دوبارہ غور کئے جانے کی ضرورت ہے۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ ہندو جو ملک گیر اعداد و شمار کے مطابق ایک اکثریتی کمیونٹی ہے، وہ نارتھ ایسٹ کی  کئی ریاستوں اور جموں و کشمیر میں اقلیت  ہے۔ عرضی میں کہا گیا کہ ہندو کمیونٹی ان فوائد  سے محروم ہے جو کہ ان ریاستوں میں اقلیتی کمیونٹی کے لئے موجود ہیں۔ اقلیتی پینل کو اس تناظر میں ‘ اقلیت ‘ لفظ کی تعریف پر پھر سے غور کرناچاہیے۔

این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق، عرضی میں مانگ کی گئی ہے کہ قومی اقلیت کمیشن ایکٹ کی دفعہ 2 (سی) کو رد کیا جائے کیونکہ یہ دفعہ من مانی، غیر منطقی اور آرٹیکل 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اس دفعہ میں مرکزی حکومت کو کسی بھی کمیونٹی  کواقلیتی قرار دینے  کے لئے لامحدود اور من مانا اختیار دیا گیا ہے۔

دینک جاگرن کے مطابق ؛اشونی کمار اپادھیائے نے عرضی میں یہ بھی مانگ کی ہے کہ مرکزی حکومت کی  23 اکتوبر، 1993 کی اس نوٹیفکیشن کو رد  کیا جائے، جس میں پانچ کمیونٹی-مسلمان، عیسائی، بودھ ، سکھ اور پارسی کو اقلیتی قرار دیا گیا ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کو ہدایت دی جائے کہ وہ اقلیت کی تعریف طے  کرے اور اقلیتوں کی پہچان کے لئے گائیڈ لائن  بنائے۔

 اس سے یہ متعین ہو کہ صرف انہی اقلیتوں کو آئین کے آرٹیکل30-29 میں حق اور تحفظ ملے جو اصل میں مذہبی اور لسانی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر متاثر کن نہ ہوں اور جو تعداد میں بہت کم ہوں۔ سپریم کورٹ کے ٹی ایم اے پائی معاملے میں دئے گئے آئینی بنچ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے عرضی میں کہا گیا ہے کہ اقلیت کی پہچان ریاست کی سطح پر کی جانی چاہیے نہ کہ قومی سطح پر۔ کیونکہ کئی ریاستوں میں جو طبقہ اکثریت ہیں ان کو اقلیت کا فائدہ مل رہا ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ مسلمان لکش دیپ میں 96.20 فیصد، جموں و کشمیر میں 68.30 فیصد ہوتے ہوئے اکثریت ہیں جبکہ آسام میں 34.20 فیصد، مغربی بنگال میں 27.5 فیصد، کیرل میں 26.60 فیصد، اتر پردیش میں 19.30 فیصد اور بہار میں 18 فیصد ہوتے ہوئے اقلیتوں کے درجے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ پہچان نہ ہونے کی وجہ سے جو اصل میں اقلیت ہیں، ان کو فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ اس لئے حکومت کی نوٹیفکیشن من مانی ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ عیسائی میزورم، میگھالیہ، ناگالینڈ میں اکثریت میں ہیں جبکہ اروناچل پردیش، گووا، کیرل، منی پور، تمل ناڈو اور مغربی بنگال میں بھی ان کی تعداد اچھی ہے، اس کے باوجود یہ اقلیت مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں سکھ اکثریت میں ہیں جبکہ دہلی، چنڈی گڑھ، اور ہریانہ میں بھی اچھی تعداد میں ہیں لیکن وہ اقلیت مانے جاتے ہیں۔