فکر و نظر

مقبول بٹ اور افضل گرو کے ساتھ دوہرا معیار کیوں؟

مقبول بٹ کی پھانسی کے سلسلے میں جو رول 1984میں فاروق عبداللہ نے ادا کیا تھا، ان کے فرزند عمر عبداللہ نے فروری 2013میں اسی کا اعادہ کرکے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔

فوٹو : کشمیر ریڈر

فوٹو : کشمیر ریڈر

6فروری1984 کی خنک آلود دوپہر جب دہلی سے انڈین ایئر لائنز کا طیارہ ریاست جموں و کشمیر کے سرمائی دارلحکومت جموں ایئرپورٹ پہنچا، تو سانولے رنگ کا ایک پست قد شخص تیزی کے ساتھ سیڑھیاں طے کرتے ہوئے نیچے اترا۔ دیگر مسافر تو ایئرپورٹ بلڈنگ کی طرف روانہ ہوئے، یہ شخص ایک بریف کیس تھامے سیڑھی کے ساتھ ہی پارک کی گئی ایک ایمبسڈر کار میں بیٹھ گیا، جو فوراً ہی حرکت میں آگئی۔اس کی منزل سیکریٹریٹ سے متصل جموں کا اسمبلی کمپلیکس تھا، جہاں جموں میں متعین ہندوستان کے خفیہ محکموں کے چند افراد پورچ میں بے چینی کے ساتھ اس کا انتظار کر رہے تھے۔

اسمبلی کمپلکس پہنچ کر اس شخص کو تیزی کے ساتھ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے چیمبر میں لے جایا گیا۔ جلد ہی وزیر قانون اور پولیس کے سربراہ پیر غلام حسن شاہ بھی چیمبر میں آن پہنچے۔ ان دنوں ریاست کے واحد انگریزی اور کثیر الاشاعت اخبار کشمیر ٹائمز کے مدیر وید بھسین کسی کام کے سلسلے میں کمپلکس میں موجود تھے۔ پہلے تو انہیں لگا کہ یہ کوئی روٹین میٹنگ ہے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے، وید جی کہتے ہیں کہ؛’وزیر اعلیٰ کے چیمبر کے اطراف ماحول خاصا تناؤ سے پر تھا۔ سیکورٹی کا حصارکھنچا گیا تھا۔ ان دنوں دہلی سے سری گر بذریعہ جموں فلائٹ آتی تھی ، جو واپسی پر مسافروں کو چھوڑنے اور لینے کے لیے پھر جموں میں رکتی تھی۔

ایئر پورٹ سے خبر آگئی تھی کہ فلائٹ واپس جموں آچکی تھی اور کسی وی وی آئی پی کو د ہلی لیجانے کے لیے ایئر پورٹ پر ایک گھنٹہ سے انتظار کر رہی تھی۔ بلڈنگ سے نکلتے ہی وید جی نے چیف جوڈیشل آفیسر، ٹھاکر پوتر سنگھ کو‘جو اس وقت ایک سیشن جج تھے’گاڑی سے اترتے دیکھا۔ ان کو بھی وزیر اعلیٰ کے چیمبر میں پہنچایا گیا۔پوتر سنگھ کے اندر جانے کے آدھے گھنٹہ کے بعد سانولا شخص، جو ہندوستان کی وزرات داخلہ کا ایک افسر تھا، ہاتھ میں بریف کیس لئے ایئرپورٹ کی طرف تیزی کے ساتھ روانہ ہوا۔

بعد میں پوتر سنگھ نے وید جی کو بتایا کہ چیمبر میں ان سے ایک طرح سے زبر دستی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کشمیر حریت پسند رہنما محمد مقبول بٹ کی ڈیتھ وارنٹ پر دستخط لئے گئے۔ وہ پہلے مصر تھے کہ یہ ایک عدالتی کارروائی ہے، جو عدالت میں یا زیادہ سے زیادہ جج کے چیمبر میں ہونی چاہئے تھی۔ ایک جج کو وزیر اعلیٰ کے چیمبر میں بلانے پر بھی انہوں نے احتجاج درج کروایا تھا۔ بہرحال اگلے دن ’کشمیر ٹائمز‘ کی یہ بڑی خبر تھی۔ معروف صحافی ظفر معراج سرینگر میں کشمیر ٹائمز کا آفس سنبھالنے کے علاوہ ایک اردو اخبار آئینہ کی ادارت کا کام بھی کرتے تھے۔

دونوں اخبارات کا نیوز شیئر کرنے کا ایک بندوبست تھا۔ خبر و سرخی تیار کرنے کے بعد ظفر معراج اور ان کے ایک دوست کیپٹن تکو نے مشور ہ کیا کہ مقبول بٹ کو سزائے موت سے بچانے کی آخری کوشش کرنی چاہئے۔ مقبول بٹ چونکہ کشمیر میں ایک انڈر گراؤنڈ لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، اس لئے بہت کم افراد ان سے ذاتی طور پر واقف تھے۔ واقف کار حلقہ میں ایک نام میاں سرور کا تھا، جو 70کی دہائی میں الفتح سے وابستگی کے نتیجے میں جیل بھگت چکے تھے اور اب کورٹ کمپلکس کے بار سرینگر کے واحد فوٹو اسٹیٹ سینٹر کے مالک تھے۔

3فروری 1984کو لندن میں ہندوستانی سفارت کار رویندر مہاترے کا اغوا اور بعد میں قتل کیا گیا۔ ایک غیرمعروف گروپ کشمیر لبریشن آرمی نے اغوا کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مقبول بٹ کی رہائی اور ایک ملین پونڈ کے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔ دو دن بعد سفارت کار کی لاش لندن کے نواح میں برآمد ہوگئی۔ اسی رات وزیرا عظم اندرا گاندھی نے ایک میٹنگ بلاکر مقبول بٹ کی موت کا فرمان جاری کیا۔ ظفر معراج، میاں سرور اور دیگر دوستوں کا خیال تھا کہ اس وقت مقبول بٹ کو پھانسی پر چڑھانا انتقامی کارروائی کے زمرے میں آتا ہے۔

خیر قانونی مشورہ کے لیےآدھی رات گئے، ریاست کے نامور وکیل مظفر بیگ سے رابطہ کیا گیا، جو اس وقت کسی کیس کے سلسلے میں دہلی میں تھے۔ انہوں نے میاں سرور کو کورٹ کے پیپرز تیار رکھنے اور بٹ کے اہل خانہ کو سرینگر پہچانے کے لیے کہا ، تاکہ وہ وکالت نامہ پر دستخط کر سکیں۔ اگلی صبح میا ں سرور نہ صرف کورٹ سے ڈاکومینٹ وغیرہ نکال چکے تھے، بلکہ مقبول بٹ کے برادر اکبر غلام نبی بٹ کو بھی کپواڑہ ضلع کے ترہگام سے سرینگر لانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ 7فروری کو سرینگر واپس آکر بیگ نے کاغذات کھنگالنے کے بعد نعرہ یا ہو بلند کیا کہ وہ آدھی جنگ جیت چکے ہیں۔

معلوم ہوا کہ اگست 1968کو جج نیل کنٹھ گنجو کی طرف سے سزائے موت کا فیصلہ صادر کرنے کے بعد تاحال جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اس کی تصدیق و توثیق نہیں کی تھی۔ بیگ نے ہائی کورٹ جاکر ریکارڈ دوبارہ چیک کیا اور رجسٹرار ملک سیف الدین سے اس سلسلے میں ایک باضابطہ دستخط شدہ سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کی ۔ جس میں بتایا گیا کہ مقبول بٹ کا معاملہ ابھی ہائی کورٹ میں زیر غور ہے۔ ان حالات میں قانونی طور پر بلیک وارنٹ پر عمل کرنا ممکن نہیں تھا اور سبھی قانون دانوں کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ سزا کو مؤخر کر دے گی۔

مگر شاید ان کو معلوم نہیں تھا کہ سپریم کورٹ آزاد اور خود اختیار ہی سہی، مگر جب اہل کشمیر کا معاملہ یہاں پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ 29سال بعد افضل گرو کو پھانسی دیتے وقت اور کشمیر کے ان گنت کیسوں کو نپٹاتے وقت بھی اس کورٹ نے مایوس ہی کیا ہے۔مظفر بیگ نے دہلی پہنچ کر معروف وکیل اور کانگریس کے موجودہ سینئر لیڈر کپل سبل کی خدمات حاصل کیں۔ مقبول بٹ کے وکیل رمیش چندر پاٹھک اور راجہ محمد طفیل نے معاونت کے لیے خدمات پیش کیں۔

مقبول بٹ کے برادر غلام نبی بٹ کو دہلی روانہ کرنے کے لیے ٹکٹ وغیر ہ کا انتظام میاں سرور کر چکے تھے، مگر سرینگر ایئرپورٹ پر ان کو روک کر حراست میں لیا گیا۔ 10 فروری 1984کو کپل سبل نے چیف جسٹس ، جسٹس چندر چوڑ کی عدالت میں خصوصی اور فوری سماعت کے لیے عرضی دائر کی۔ سبل نے زور دار بحث کرکے دلیل دی کہ ہائی کورٹ کی طرف سے سزا کی توثیق کئے بنا ، سزائے موت پر عمل درآمدنہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی دستخط و مہر شدہ سند بھی پیش کی۔

اٹارنی جنرل کے پراساران نے دلائل کا جواب دئے بغیر بس ایک سادہ ٹائپ شدہ کاغذ چیف جسٹس کے حوالے کیا ، جس پر کسی کے دستخط نہیں تھے، اور دعوی کیا کہ یہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا توثیق نامہ ہے۔ چیف جسٹس نے سبل کی اپیل مسترد کی اور مداخلت کرنے سے انکار کیا۔ بس ایک مراعت کے نام پر مظفر بیگ، رمیش چندر پاٹھک اور راجہ محمد طفیل کو تہاڑ جیل میں آخری ملاقات کی اجازت دی۔ اس حکم نامہ کو لے کر تینوں افراد تہاڑ کی جیل نمبر تین کے گیٹ کے باہر پہنچے ، جہاں ان کو گھنٹوں انتظار کروایا گیا۔ سورج غروب ہو رہا تھا ، کہ ایک جیل افسر نے باہر آکر کہا کہ بس رمیش چندر پاٹھک پانچ منٹ کے لیے قیدی سے اس کی سیل میں ملاقات کر سکتے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں:  ہندوستانی عدلیہ، ماہ فروری اور کشمیریوں کی کسمپرسی


پاٹھک ہائی سیکورٹی وارڈ کی پیچ در پیچ برآمدوں کو پار کرتے ہوئے اس پورشن میں پہنچے، جہاں پھانسی پانے والے مجرموں کو آخری دس دن رکھا جاتا ہے۔ راقم بھی2002 میں تہاڑ جیل کی اس سیل میں کئی روز قید رہا ہے، تاآنکہ رحم کھاکر جیل انتظامیہ نے بعد میں جنرل وارڈ میں منتقل کیا۔ پاٹھک نے پوری عدالتی کارروائی مقبول بٹ کے گوش گزار کی۔ انہوں نے پاٹھک کا شکریہ ادا کیا اور مظفر بیگ و راجہ محمد طفیل تک بھی شکریہ پہنچانے کے لیےکہا۔پاٹھک کی غالباً1997میں موت ہوئی ۔ان کی دختر وسندرا پاٹھک مسعودی بھی فی الوقت سپریم کورٹ کی نامور وکیل ہے۔

بقول پاٹھک، جن کے ساتھ دہلی میں ان کے چیمبر اور انکے گھر پر اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں، مقبول بٹ کے آخری الفاظ تھے؛’کل مجھے پھانسی پر چڑھایا جائیگا، مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔’ ہمیں معلوم ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب، ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔ نہ مسکراؤ میری بے بسی پر اے تارو۔تم اپنی خیر مناؤ کہ رات جاتی ہے۔ اس کے بعد پاٹھک نے اپنی ڈائری میں انگریزی میں مقبول بٹ کا آخری جملہ درج کیا ہو ا تھا؛

I am confident that tomorrow my children (people of Kashmir) will realise the truth and legitimacy of what I stood for all these years and for what I am today sacrificing my life

‘مجھے یقین ہے کہ کل میرے بچوں(کشمیر عوام)کو میری جدوجہد کی سچائی کا ادراک ہوگا، جس کے لیے میں آج اپنی زندگی قربان کر رہا ہوں’

اگلے روز 11فروری کی صبح مظفر بیگ بی بی سی کے نمائندے ستیش جیکب کے ہمراہ جیل کے گیٹ پر آپہنچے کہ جیل کے افسر نے باہر آکر اعلان کیا کہ صبح سویرے مقبول بٹ کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے اور ان کی نعش کو جیل کے احاطہ میں ہی دفن کر دیا گیاہے۔ بیگ نے وکالت نامہ دکھا کر ڈائری و قیدی کے زیر استعمال دیگر اشیا حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ۔ جیل افسران نے ایسی کسی بھی چیز کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ مقبول بٹ اور افضل گرو کا کیس عدلیہ کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ قانون کے کئی طالب علموں نے حق اطلاعات قانون کا سہارا لیکر کئی بار سپریم کورٹ سے مقبول بٹ کے کورٹ پیپریز مطالعہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی، جس کو متعدد بار مسترد کر دیا گیا۔

ان دونوں افراد کو تختہ دار تک پہنچانے میں کشمیر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس بھی کچھ کم ملوث نہیں ہے۔ اس پارٹی کے لیڈروں کے دامن پر یہ ایک بدنما داغ ہے، جو شاید ہی کبھی دھل سکے۔ اقتدار کی نیلم پری کے قرب نے اس پارٹی کو نہ صرف بزدل بنا کر چھوڑا ہے ، بلکہ اس کے لیڈروں کی خود اعتمادی بھی چھین لی ہے۔ مقبول بٹ کی پھانسی کے سلسلے میں جو رول 1984میں فاروق عبداللہ نے ادا کیا تھا، ان کے فرزند عمر عبداللہ نے فروری 2013میں اسی کا اعادہ کرکے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔8فروری 2013کی رات جب وہ دہلی کے ایک ریستوراں میں ڈنر کر رہے تھے ، تو وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے ان کو فون کر کے بتایا کہ،جو بات اس دن ہوئی تھی ، وہ کل ہو رہی ہے، خیال رکھیے گا۔’

دس روز قبل 30جنوری کو عمر عبداللہ کی ملاقات شنڈے سے ان کے دفتر میں ہوئی تھی اور ان کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاستی حکومت نے گران قدر مشورہ دیا تھاکہ اگر پھانسی پر عمل درآمد کرنا ہے تو موسم سرما میں ہو کیونکہ دارلحکومت سرینگر شفٹ ہونے کے بعد سیکورٹی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ وہ پنجاب کی اکالی دل حکومت یا تامل ناڈو میں تامل قوم پرستوں کی صوبائی حکومت کی پیروی کرسکتے تھے۔ آخرکیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کی سخت گیر حکومت بھی بلونت سنگھ روجانہ اور دیویندر پال سنگھ بھلیر کی عدالت کی طرف سے دی گئی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں کر پاتی ہے؟تامل ناڈو حکومت راجیو گاندھی کے قتل کی معاونت میں 27 سالوں سے جیل میں بندمجرموں کو آزاد کرنےکو بہ ضد ہے۔ سابق وزرائے اعظم اندرا گاندھی،راجیوگاندھی کے قاتلوں ،جنوبی ہندوستان کے بدنام زمانہ ڈاکو ویراپن کے ساتھیوں ، حتیٰ کہ ممبئی بم دھماکوں ملوث یعقوب میمن کی رحم کی درخواستوں پر کئی دن سپریم کورٹ نے سماعتیں کیں ۔ ان کے نا منظور ہونے پر ان کے اہل خانہ کو مطلع کیا اور انہیں سپر یم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کے لیے مہلت دی گئی لیکن مقبول بٹ اور محمد افضل گرو کے سلسلے میں دوہرا معیاراپنایاگیا۔ آخر کیوں؟

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)