خبریں

سپریم کورٹ کے جج نے کہا؛ خاص طرح کے کھانے کی وجہ سے لنچنگ آئین کی لنچنگ ہے

ایک پروگرام کے دوران سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ جب کسی کارٹونسٹ کوسیڈیشن کے الزام میں جیل میں ڈالا جاتا ہے یا مذہبی عمارت کی تنقید کرنے پر کسی بلاگر کو ضمانت کے بجائے جیل ملتی ہے، تب آئین ناکامیاب ہوجاتا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، فوٹو بہ شکریہ:Increasing Diversity by Increasing Access

سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، فوٹو بہ شکریہ:Increasing Diversity by Increasing Access

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ماب لنچنگ کو لےکر کہا ہے کہ جب کسی شخص کو اس کے کھان-پان کی وجہ سے پیٹ پیٹ‌کر مار دیا جاتا ہے تو یہ اس کا نہیں، بلکہ آئین کا قتل ہوتا ہے۔لائیو لا کی خبرکے مطابق، جسٹس چندرچوڑ بامبے ہائی کورٹ میں بامبےبار ایسوسی ایشن کے ذریعے منعقد جسٹس دیسائی میموریل لکچر میں خطاب کر رہے تھے، جہاں انہوں نے حال کے واقعات کے تناظر میں آئین کی اہمیت پر بات کی۔

انہوں نے کہا،جب کسی کارٹونسٹ کو سیڈیشن کے الزام میں جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، جب مذہبی عمارت کی تنقید کرنے کے لئے کسی بلاگر کو ضمانت کے بجائے جیل ملتی ہے تو ان سب کی وجہ سے آئین کی پامالی ہوتی ہے۔ ‘انہوں نے کہا، جب مذہب اور ذات کی بنیاد پر لوگوں کو محبت کرنے کا حق نہیں دے پاتے ہیں، تو آئین کو تکلیف پہنچتی ہے۔ ٹھیک ایسا ہی تب ہوا، جب ایک دلت دولہے کو گھوڑے پر نہیں چڑھنے دیا گیا۔ جب ہم اس طرح کے واقعات دیکھتے ہیں تو ہمارا آئین روتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ‘

جسٹس چندرچوڑ نے اپنی تقریر کی شروعات بال گنگادھر تلک کو یاد کرتے ہوئے کی، جن پر اسی عدالت میں سالوں پہلے مقدمہ چلایا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ آئین برٹش حکومت سے جمہوری ہندوستان کو اقتدار کی منتقلی کا محض ایک دستاویز نہیں ہے۔ آئین ایک تغیر پذیر وژن ہے، جو ہرایک شخص کو موقع دیتا ہے اپنی قسمت آزمانے کا۔ ملک کا ہرایک شخص اس کی بنیادی اکائی ہے۔

ایک آئینی کلچر اس یقین پر مبنی ہوتی ہے کہ وہ جان پہچان‌کے دائرے سے پرے ہٹ‌کر لوگوں کو ایک دھاگے میں پروتی ہے۔ انہوں نے آئین کے بندھن مکت (آزاد)شکل کا بھی ذکر کیا، جو حال ہی میں سبری مالا مندر کے معاملے میں دیکھنے کو ملا۔جسٹس چندرچوڑ نے کہا، دنیا میں نئی تبدیلی ہو رہی ہے، جو ذاتی اور ثقافتی پہچان کی تعریف کو تیزی سے بدل رہے ہیں۔ انہوں نے راشٹرواد کی نئی نسل، سیکولرازم اور مذہبی تشدد کی نئی شکل، جنسی اور ثقافتی پہچان کی نئی سیاست کا حوالہ دیا جو لوگوں اور سماج کے درمیان بات چیت کی فطرت کو بدل رہے ہیں۔ ‘

انہوں نے کہا،مصنوعی دانشوری جیسے تکنیکی ترقیات کے تناظر میں شخصیت کی تعریف تبدیلی کے دور میں ہے۔ آئین سازوں کو بے شک ان تبدیلیوں کا اس وقت احساس نہ ہوا ہو۔ آئین میں خاموشی کو تغیر پذیر اور قابل تقلید اصولوں کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے تاکہ آئین باحیات رہے اور نئے دور کے چیلنجز کا مہارت سے مقابلہ کر سکے۔جسٹس چندرچوڑ نے قانون کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آئین اپنا کام کرتا رہتا ہے، بے شک اس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے۔ یہ آپ کو متاثر بھی کرتا ہے، بے شک آپ اس میں بھروسہ نہیں کریں۔