فکر و نظر

کیا آپ نے فاطمہ انیس کے بارے میں سنا ہے؟

  فاطمہ انیس صاحبہ  ماہِر تعلیم، کالم نِگار ، سابِق پِرنسپل انجمن خیرالاسلام گرلز ہائی اِسکول، مدن پورہ ،ممبئی اور سابق نائب مئیر شہر شولا پور ،جو بہ حُسنِ اِتفاق شہر شولاپور سے میٹرِک پاس کرنے والی پہلی خاتُون بنیں۔

فوٹو بہ شکریہ، اسماء انجم خان

فوٹو بہ شکریہ، اسماء انجم خان

ہم اس قدر بڑی امی کے عادی ہو گئے تھے کہ بظاہر یوں لگتا تھا جیسے وہ تا حیات ہمارے ساتھ رہیں گی۔ وہ ایک وسیع ساحل سا انسان جو آپ کوسست روی سے  کِناروں پر چلتے ہوئے طوفانوں کا دلیری سے مقابلے کی ترغیب دیتا ہو،وہ جو آپ کی بے ترتیبی کو فہم عطا کرتا ہو، ایک چٹّان جو غیروں کے سامنے خم ہونے کی بجائے آپ کو اپنے زورِبازو اور کندھوں پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتا ہو، ایک مثالی دوست ، دانِشور اور رہبر جو آپ کو پُرخار راہوں سے پُر تبسُّم گزرنے میں رہنُمائی کرتا ہو…

آئیے مِلتے ہیں محترمہ فاطمہ انیس صاحبہ سے۔ ماہِر تعلیم، کالم نِگار ، سابِق پِرنسپل انجمن خیرالاسلام گرلز ہائی اِسکول، مدن پورہ ،ممبئی اور سابق نائب مئیر شہر شولا پور ،جو بہ حُسنِ اِتفاق شہر شولاپور سے میٹرِک پاس کرنے والی پہلی خاتُون بنیں۔بڑی امّی ، میری والِدہ قمر کی ہمشیرہ تھیں ۔ جو حال ہی میں85 سال کی عُمر میں اِس سرائے فانی سے کُوچ کر گئیں۔

وہ ایک منفرد قِسم کی اِنسان تھیں۔ میں نہیں جانتی آپ ایسے کتنے لوگوں سے واقف ہوں گے جو آپ کے ایک گمراہ کُن بیان کی صاف گوئی سے آپ کے سامنے نفی کرسکے ؟ جو تلخ ترین حقیقت کو بلا تردّد بیان کر سکے ؟ جو ناانصافی کو دیکھ کر کراہ اُٹھے ؟محترمہ انیس صاحبہ میں یہ ساری خوبیاں تھیں۔

سنِ 1934ء میں پیدا ہونے والی ، وہ اپنے والدین کی پہلی اولاد تھیں۔ اُن کے والدِ محترم جناب حُسین صاحب “جوش” اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ ہمیشہ  اپنے چھوٹے سے سر پر ایک خمیدہ ٹوپی سجائے رکھتے تھے اور اپنے  قریبی حلقوں میں بطور “کانگریسی جناب” جانے جاتے تھے۔جنہوں نے حُبّ الوطنی کے ترانے اور امام حُسین کی محبّت میں قصائد بھی لکھے – سن 1940ء کے اوائل میں اُنھوں نے اپنی چار بیٹیوں کو  اسکول بھیجا ۔

30 کی دہائی کے اِختتام تک لڑکیوں کو اسکول بھیجنا بغاوت تصّور کیا جاتا تھا۔اور اس جرم کی پاداش میں جناب حُسین صاحب جوش اور ان کے اہلِ خانہ سے لوگوں نے تعلقات تک ترک کیے اور اِن “باغیوں” سے روابط بھی منقطع کر لیے ۔کوئی انھیں شادی میں بھی مدعو نہیں کرتا تھا۔لیکن، جناب حسین صاحب ایک مضبوط انسان تھے۔اس وقت اُنھوں نے علی الاعلان کہا تھا “ میرے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور میں اِن سبھی کو اسکول بھیجوں گا آپ کا کیا مسئلہ ہے ؟” اُن کا اشارہ دراصل اپنی چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کی طرف تھا۔ وہ ایک “ Gandhism” کے نشے میں چُور مجاہِد آزادی تھے جو کھادی پہنتے ۔ “گاندھی ٹوپی” تو اُن کا طُرّہ اِمتیاز بن گئی تھی۔اُن میں سادگی قدرتی طور پر تھی۔ویسے بھی کہنے کے لیے اُن کے پاس جمع پُونجی بھی کم ہی تھی ۔

FamitaAnees

فوٹو بہ شکریہ، اسماء انجم خان

لیکن، ننّھی فاطمہ اسکول جاتے ہوئے عموماً خوفزدہ رہتی تھی۔ سرِ راہ طعنہ زنی سے بچنے کے لیے وہ اپنے اساتذہ کے ہمراہ ہی اسکول کے کمرے میں  آتی جاتی تھیں۔لیکن ، جلد ہی ایک دن ایسا آیا جب وہ میٹرک پاس کرنے والی پہلی طالبہ بنی۔ آج ان کا نام بڑے فخر سے لیا جاتا ہے۔ اب، میں جب کبھی بھی  نیلے و رنگ بِرنگے یونیفارم پہنے اور دو چوٹیاں ڈالے  طالبات کے گروہ کو شام کے وقت اسکول سے نکلتے دیکھتی ہوں، ایک ہلکی سی مسکراہٹ میرے چہرے پر آجاتی ہے اور دِل سے بے اِختیار بڑی امّی کے لیے ایک دُعا نکل جاتی ہے۔

میں یہ سمجھتی ہوں وہ واحد خاتون ہوں گی جنہوں نے کبھی اپنے سسرال والوں کی یا دیگر رشتہ داروں کی شاید ہی شکایت کی ہو ۔  کم عمری میں ہی طلاق اور بیوگی کے باوجود بھی اُنھوں نےکبھی مشکل دور نہیں دیکھا۔ باوجود اس کے، کیا میں نے کبھی اُنھیں اپنی قسمت کو کوستے دیکھا ؟  قطعی نہیں ، کسی نے بھی اُنھیں شکایت کرتے ہوئے نہیں سنا۔

اور ہاں۔ لیکن، وہ متواتر سڑکوں پر گڑھوں کی موجودگی، عوام الناس میں انصاف کا فقدان، سماجی ترقّی و اِرتقاء پر شکوہ بہ لب رکھتی تھیں۔اگر کوئی کبھی احمقانہ بات کہتا تو اُس کی سرزنِش بھی کرتیں۔

وہ کافی مشقّت کی عادی تھیں۔ اُن کے روز مرّہ کے معمولات قدرے مفصّل تھے۔ علی الصباح4 بجے اُٹھ کر کپڑوں کی دُھلائی کرتیں۔بیٹِیاں نہ کرنے کی اِلتجا  کرتی ہی رہ جاتیں، لیکن وہ فاطمہ انیس اُنھیں راہِ راست سے ہٹانا مشکل تھا، جسے انھوں نے  خود ہی اِختیار کیا تھا۔ ان کے صبح چار بجے کے معمولات کا سلسلہ اِمسال مارچ مہینے تک اُن کے صاحبِ فراش ہونے تک جاری رہا۔

وہ ایک دلچسپ خاتون تھیں۔عام انسان سے ہٹ کر اُن کی کئی خوبیوں میں سے ایک اِمتیازی خوبی اُن کی جرأت مندانہ اور کھلّم کھلا حق گوئی بھی تھی۔انھوں نے کبھی کوئی عذر نہ چھوڑا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ کیا ضروری تھا، کہا جا سکتا ہے ہم میں سے اکثر حق بات کہتے ہوئے شرما جاتے ہیں۔ایک بار ذکر ہے ، اُنہیں ریلوے اِسٹیشن پر ہمارے خاندان کی نئی بہو کا خیر مقدم اور نصیحت کے لیے کہا گیا۔ وہ فوری طور پر بڑبڑانے لگیں، ایسا کیوں ہے کہ صرف خواتین کو ہی نصیحت کی ضرورت ہے ؟ یہ کہہ کر اُنھوں نے پیچھے گھوم کر اپنے بھتیجے،  دولہے سے کہا “ اپنی منکوحہ سے روّیے میں بہتر رہو “ اور نبِی اکرم کے قول کو دوہراتے ہوئے کہا ، “ آپ میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو  اپنی بیوی سے بہتر ہے۔ “اور اُس وقت وہاں موجود لوگوں کے تاثّرات آج بھی مجھے مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ دلہن کی والدہ تو ایک منٹ کےلیے گم صم ہو گئیں تھیں۔

جب میں نے اپنی کمسِن بیٹی ثناء کو کھویا تھا اُس کے ایک ماہ بعد اُنھوں نے مجھے فون کیا۔ میری اُداسی بھری آواز سُن کر، میری خوب سرزنِش کی اور کہا،“ کیا تم نہیں جانتیں عراق میں کتنے معصوموں کا قتلِ عام ہو رہا ہے ؟ کیا تم اُن کے لیے غمزدہ نہیں ہو ؟ اُن ماؤں کا کیا جو اپنے دُکھ بھی نہیں بانٹ سکتیں ؟ “

ایسی تھیں میری بڑی امّی ، اُن کی شخصیت ہمیشہ سیاسی رہی۔ خود غرضی اُنھیں چُھو کر بھی نہیں گذری تھی۔ اُن کا درد سبھی کو احاطہ کیے ہوا تھا۔

آخری دِنوں میں، وقت کا بیشتر حصّہ گھر پر گزرتا تھا۔ بنیادی طور پر وقت کی پابند ہونے کی وجہ سے وہ “ شادیوں “ میں بھی قبل از  وقت پہونچ جایا کرتی تھیں ! پچھلے سال اُنھوں نے ایک شادی میں شرکت کا فیصلہ کیا اور وہ وقت پر پہونچیں بھی۔خالی ہال میں پہونچنے والی پہلی مہمان۔ جب نوشہ میاں تشریف لائے تو اُن کے والدِ بزرگوار کو تاخیر سے پہونچنے پر خوب کھری کھری سنائی۔دونوں بہت شرمندہ تو ہوئے پر بُرا نہیں منایا۔ ہر ایک جانتا کہ فاطمہ آپا ایک پُر معنی ذہن والی خاتون ہیں اور اُنہوں نے کبھی کوئی بات دل میں نہیں رکھی۔وہ ہمیشہ سے اسی طرح تھیں اور ہم لوگوں نے بھی اُن کی ملامت کا کبھی بُرا نہیں مانا۔در حقیقت ہم سب اس تجربے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ہمارے گھریلو قصّے کہانیوں میں اُن کی “سچّائی کی عکّاسی “ ایک اہم حصّہ ہیں، اور  ہم جب بھی ملتے ہیں یاد کر کے آج بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اور ہمارے پاس اِن کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔

ہمارے سارے خاندان میں تقریباً ہر شخص اُن کی اعانت کا مقروض ہے۔ پہ در پہ مُشکلات ، اپنے تین بیٹیوں کی واحد سرپرست ہونے کے علاوہ  ذاتی خسارے کے باوجود اُنہوں نے اُن کی بھر پور پرورش و تربیت کی۔(اُن کے شوہر جو کہ ٹائمس آف انڈیا میں کام کیا کرتے تھے ،اُن کا انتقال بچّوں کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا) اُنھوں نے کبھی اپنے اکیلے پن کی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کبھی چڑچڑاھٹ کا اظہار کیا۔ بس، سرگرمی سے کام کرنے میں اپنی زندگی وقف کردی۔ اُن کو میں نے اسکول سے واپسی کے بعد بھی “ کالم “ لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ صوفے پر براجمان اور اطراف میں بکھری ہوئی کتابیں اور اوراق ۔نوکری ، گھریلو کام کاج ، تن تنہا بچّوں کی پرورش کے علاوہ ہر ہفتے کالم نگاری۔کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں ؟

کیا پہیلی تھیں ! غیر یقینی طور پر اور بغیر کسی افسوس کے اُنھوں یہ سب کیا، بناکچھ کہے وہ بہت کچھ کہہ جاتیں تھیں۔بغیر کسی نتیجے کی پرواہ کئے، اُ نھوں نے تعلیم ، شفقت، کار خیر اور حق گوئی کی ایک بھاری میراث چھوڑی ہے۔ در حقیقت اُنھیں اپنی اس معصومانہ روش کا خود بھی اندازہ نہیں تھا۔

(انگریزی سے ترجمہ: بشیر بغدادی)