فکر و نظر

رویش کا بلاگ: پلواما حملے پر گودی میڈیا آپ کو کھلونا سمجھ رہا ہے، اس کو کھیلنے مت دیجیے…

آپ گودی میڈیا کی حب الوطنی کو لےکر کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ جب کسان دہلی آتے ہیں تو یہ میڈیا سو جاتا ہے۔ جانتے ہوئے کہ انہی کسانوں کے بیٹے سرحد پر شہید ہوتے ہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

سی آر پی ایف ہمیشہ جنگ کی حالت میں رہتی ہے۔ ماؤوادی سے تو کبھی دہشت گردی سے۔ معمولی گھروں سے آئے اس کے جاں باز جوانوں نے کبھی پیچھے قدم نہیں کھینچا۔ یہ بےحد شاندار دستہ ہے۔ ان کا کام پورے فوج کا ہے۔ پھر بھی ہم اس کونیم فوجی دستہ کہتے ہیں۔ سرکاری زمروں کا اپنا نظام ہوتا ہے۔ پر ہم کبھی سوچتے نہیں کہ نیم فوجی کیا ہوتا ہے۔ فوجی ہوتا ہے یا فوجی نہیں ہوتا ہے۔ نیم فوجی؟

2010 میں ماؤوادیوں نے گھات لگاکر سی آر پی ایف کے 76 جوانوں کو مار دیا تھا۔ پھر یہ نیم فوجی دستہ مکمل فوجی کی طرح مورچوں پر جاتا رہا ہے۔ دل اداس ہے کہ 40 جوانوں کی جانیں گئی ہیں۔ ان کے گھر والوں پر بجلی گری ہے۔ ان پر کیا گزر رہی ہوگی،یہ خیال ہی کنپا دیتا ہے۔ غم کی اس گھڑی میں ہم ان کے بارے میں سوچیں۔

سوشل میڈیا اور گودی میڈیا میں حملے کو لےکر ہو رہا ہے، اس کی زبان کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کی للکار میں اس کی مایوسی ہے۔ جوانوں اور ملک کی فکر نہیں ہے۔ وہ اس وقت غم میں ڈوبے شہریوں کے غصے کو ہوا دے رہا ہے۔ استعمال کر رہا ہے۔ گودی میڈیا ہمیشہ ہی دیوانگی کی حالت میں رہا ہے۔ جوانوں کی شہادت گودی میڈیا کی دیوانگی کے ایک اور موقع کے طور پرکر رہا ہے۔

اس کی للکار‌کے نشانے پر کچھ خیالی لوگ ہیں۔ کسی نے کچھ کہا نہیں ہے پھر بھی دانشور اور کچھ صحافیوں پر اشارہ کیا جا رہا ہے۔ کیا اس واقعہ میں ان کا ہاتھ ہے؟ ذرا بتائیں یہ گودی میڈیا کہ کل کے حملے میں یہ خیالی لوگ کیسے ذمہ دار ہیں، جن کو کبھی لبرل کہا جا رہا ہے تو کبھی آزادی گینگ کہا جا رہا ہے۔ کیا ان کے لکھنے بولنے فوج اور نیم فوجی دستہ کو فیصلہ لینے میں دقتیں آ رہی تھیں؟ اور اسی وجہ سے حادثہ ہوا ہے؟

کل اس حادثہ کی خبر آنے کے بعد بھی منوج تیواری رات 9 بجے ایک پروگرام میں ڈانس کر رہے تھے۔ امت شاہ کرناٹک میں جلسہ کر رہے تھے۔ ان کے ٹوئٹ ہیں۔ کیا یہ گودی میڈیا امت شاہ سے پوچھ سکتا ہے کہ کیوں پروگرام رد نہیں کیا؟ کیا ان سے پوچھ سکتا ہے کہ کشمیر میں آپ کی کیا پالیسی ہے، کیوں دہشت گردی پیر پسار رہی ہے؟

جن کی ذمہ داری ہے ان کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان آقاؤں کو بچانے کے لئے گودی میڈیا خیالی بدمعاش کھڑے کر رہے ہیں۔ جس کو سوشل میڈیا میں ہوا دی جا رہی ہے۔ اس تکلیف دہ موقع پر ملک کے لوگوں کے درمیان ہم بنام وہ کا بٹوارا کیا جا رہا ہے۔ گورنر ستیہ پال ملک تو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ دہلی کی میڈیا نے کشمیر کو ویلن بناکر ماحول بگاڑا ہے۔

شہادت کے غم کے بہانے گودی میڈیا اپنا اور آپ کا دھیان اصل باتوں سے ہٹا رہا ہے۔ اس میں ہمت نہیں کہ سوال کر سکے۔ کل پرائم ٹائم میں جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے صاف صاف کہا کہ بھاری چوک ہوئی ہے۔ قافلہ گزر رہا تھا اور کوئی انتظام نہیں تھا۔

کیا یہ معمولی بات ہے؟ گورنر ملک نے کہا کہ یہی نہیں ڈھائی ہزار جوانوں کا قافلہ لےکر چلنا بھی غلط تھا۔ قافلہ چھوٹا ہونا چاہیے تاکہ اس کے گزرنے کی رفتار تیز رہے۔ گورنر نے یہاں تک کہا کہ قافلے کے گزرنے سے پہلے حفاظتی بندوبست کی  ایک اسٹینڈرڈ کارروائی ہے، اس پر عمل نہیں ہوا۔

آپ گودی میڈیا کی حب الوطنی کو لےکر کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ جب کسان دہلی آتے ہیں تو یہ میڈیا سو جاتا ہے۔ جانتے ہوئے کہ انہی کسانوں کے بیٹے سرحد پر شہید ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر غصہ نکال‌کر سیاسی ماحول بنانے والے مڈل کلاس کے بچّے جوان نہیں ہوتے ہیں۔ 13 دسمبر کو نیم فوجی دستہ کے ہزاروں سابق جوان اپنی مانگوں کو لےکر دہلی آئے۔ یہ مانگیں ان کے مستقبل کو بہتر اور فی الحال حوصلے کو بڑھانے کے لئے ضروری تھیں۔اس وقت  نوکری کررہےجوان مجھے لگاتار میسیج کر رہے تھے کہ ہماری باتوں کو اٹھائیے۔

ہم نے اٹھایا بھی اور وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ تب تو کسی نے نہیں کہا کہ واہ آپ ان کے لئے لگاتار لڑتے رہتے ہیں، ان کو سب کچھ ملنا چاہیے کیونکہ یہ ملک کے لئے جان دیتے ہیں۔ آپ خود ان سے پوچھیے کہ کسی نے بھی 13 دسمبر کے مظاہرہ کی فکر کی تھی؟ آپ سابق نیم فوجی دستہ کی تنظیم کے رہنماؤں سے پوچھ لیں یہ بات کہ 13 دسمبر کی رات ٹی وی پر کیا چلا تھا؟ اس دن نہیں چل پایا تو کیا کسی اور دن چلا تھا؟

حال ہی میں نیم فوجی دستہ کے افسر حال ہی میں ایک لڑائی ہار گئے۔ وہ اپنے دستہ میں پسینا بہاتے ہیں۔ جان دیتے ہیں مگر اپنے دستہ کی قیادت نہیں کر سکتے۔ یہ کہاں کا انصاف ہوا؟ کیا اس چوک کے لئے کوئی آئی پی ایس جوابدہی لے‌گا؟ کیوں ان نیم فوجی دستہ کی قیادت کسی آئی پی ایس کو کرنی چاہیے؟ نیم فوجی دستہ کے جوان اور افسر جان دے سکتے ہیں، اپنی قیادت نہیں کر سکتے؟ کیا آپ نے ان سوالوں کو لےکر نیم فوجی دستہ کے لئے کسی کو لڑتے دیکھا ہے؟

ہم اور آپ تو شہید کہتے ہیں لیکن حکومت سے پوچھیے کہ ان کو شہید کیوں نہیں کہتی ہے؟ مکمل فوجی کی طرح لڑ‌کر بھی یہ نیم فوجی ہیں اور جان دےکر بھی یہ شہید نہیں ہیں۔11 جولائی 2018 کو حکومت نے دہلی ہائی کورٹ میں حلف نامہ دیا تھا کہ نیم فوجی دستہ کو شہید کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔ آپ چینل کھول‌کر دیکھ لیں کہ کون اینکر ان کے حق کی بات کر رہا ہے۔ ان کو پنشن تک نہیں ہے۔ شہادت کے بعد بیوی اور اس کی فیملی کیسے چلے‌گی؟ اس پر بات ہوگی کہ نہیں ہوگی؟

سابق نیم فوجی دستہ کی تنظیم کے لیڈر رنویر سنگھ نے کہا ہے کہ گجرات میں نیم فوجی دستہ کے شہیدوں کی فیملی والوں کو 4 لاکھ کیوں ملتا ہے؟ کیوں دہلی میں ایک کروڑ، ہریانہ کی حکومت 50 لاکھ دیتی ہے؟ رنویر سنگھ نے کہا امدادی رقم کے لئے ایک نوٹیفکیشن ہونی چاہیے۔ ریاستوں کے اندر معاوضے (ایکس گریشیا) کو لےکر جانبداری کیوں ہونی چاہیے؟ کوئی کم کیوں دے اور کوئی کسی سے زیادہ ہی کیوں دیں؟

رنویر سنگھ نے کہا کہ سینما والے آئے تو ٹکٹ پر جی ایس ٹی کم ہو گئی، پارلیامنٹ میں تالیاں بجی اور نیم فوجی دستہ کب سے مانگ‌کر رہے ہیں کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے کینٹین کی شرحیں بازار کے برابر ہو گئی ہیں۔ اس کو کم کیا جائے۔ آج تک حکومت نے نہیں مانا۔ نیم فوجی دستہ اسی 3 مارچ کو جنتر منتر پھر آ رہے ہیں۔ اس دن دیکھ لیجئے‌گا کہ گودی میڈیا ان کے حق کی کتنی بات کرتا ہے۔

پرائیویٹ استپال میں کام کرنے والے ایک ہارٹ سرجن نے مجھے لکھا کہ حملہ ہونا چاہیے۔ ہم 80 فیصد ٹیکس دیں‌گے۔ بالکل ان کے اس جذبہ کی عزت کرتا ہوں مگر آئے دن انہی کے استپال میں یا کسی اور استپال میں مریضوں کو لوٹایا جا رہا ہے، بےوجہ اسٹینٹ لگا دیتے ہیں، آئی سی یو میں رکھتے ہیں، بل بناتے ہیں، اسی کی مخالفت کر لیں۔ اسی کو کم کروا دیں اور نہیں ہوتا ہے تو ملک کی خاطر استعفیٰ دے دیں۔ کیا دے سکتے ہیں؟

اس حملے سے پہلے بجٹ میں اگر حکومت نے واقعی 80 پرسینٹ ٹیکس لگا دیا ہوتا تو سب سے پہلے یہی ڈاکٹر صاحب حکومت کی مذمت کر رہے ہوتے۔ میں ڈاکٹر سے ناراض بھی نہیں ہوں۔ ایسی کمزوری ہم سبھی میں ہیں۔ ہم تمام اسی طرح سے سوچتے ہیں۔ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ ایسے ہی سوچیں۔

سب چاہتے ہیں کہ اجتماعیت سے جڑیں۔ کچھ ایسا ہو کہ اجتماعیت میں بنے رہے۔ مگر وہ دلیل اور حقیقت کی بنیاد پر کیوں نہیں ہو سکتا۔ کیوں ہمیشہ دیوانگی اور غصے والی اجتماعیت ہی ہونی چاہیے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر یا ایسی سوچ والے کسی کے پاس کئی طرح کی مایوسی ہوتی ہیں۔ کئی طرح کے غیراخلاقی سمجھوتے سے وہ ٹوٹ چکے ہوتے ہیں۔ خود سے نظر نہیں ملا پاتے ہوں‌گے۔ ایسے سبھی کو بھی اس وقت کا انتظار ہوتا ہے۔ وہ اس اجتماعیت کے بہانے خود کو آزاد کرنا چاہتے ہیں۔

ایک طرح سے ان کے اندر کا یہ جذبہ ہی میرے لئے امکان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ضمیر کی آواز سن رہے ہیں۔ بس اس آواز کو شور میں نہ بدلیں۔ خود کو بدلیں۔ ان کے بدلنے سے ملک اچھا ہوگا۔ جوانوں کے ماں باپ کو ایماندار ڈاکٹر اور انجینئر ملے‌گا۔ بالکل حفاظت سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی گستاخی کرے تو بلا تکلف جواب دیا جانا چاہیے۔ ہم کھلونہ نہیں ہیں کہ کوئی کھیل جائے۔ مگر میں یہی بتا رہا ہوں کہ گودی میڈیا آپ کو کھلونہ سمجھنے لگا ہے۔ آپ اس کو کھیلنے مت دو۔

(یہ مضمون  رویش  کمار کےفیس بک پیج پر  شائع ہوا ہے۔)