خبریں

ناگیشور راؤ کو سی بی آئی کا عبوری ڈائریکٹر بنانے کے معاملے میں دخل دینے سے سپریم کورٹ کا انکار

جسٹس ارون مشرا اور جسٹس نوین سنگھ کی بنچ نے کہا کہ نئے سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری ہو جانے کی وجہ سے وہ اس معاملے میں کوئی دخل نہیں دیں گے۔ اس کے علاوہ بنچ نے تقرری کے عمل  میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

ناگیشور راؤ/ فوٹو: پی ٹی آئی

ناگیشور راؤ/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: ایم ناگیشور راؤ کو سی بی آئی کا عبوری ڈائریکٹر بنائے جانے پر سوال اٹھانے والی عرضی کو سوموار کو سپریم کورٹ نے خارج کر دیا۔ یہ عرضی ایک غیر سرکاری تنظیم کامن کاز اور آر  ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج نے داخل کی تھی۔ لائیو لاء کے مطابق؛ جسٹس ارون مشرا اور جسٹس نوین سنہا کی بنچ نے کہا،’ مستقل طور پر سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری ہو جانے کی وجہ سے وہ اس معاملے میں دخل نہیں دیں گے۔ اس دوران بنچ نے عرضی گزار کی اس مانگ کو بھی خارج کر دیا کہ وہ تقرری کے عمل  میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ہدایات جاری کریں۔

جسٹس ارون مشرا کی صدارت والی بنچ کے سامنے اس معاملے کے آنے سے پہلے چیف جسٹس رنجن گگوئی سمیت 3 ججوں نے خود کو شنوائی سے الگ کر لیا تھا۔ چیف جسٹس نے بتایا  تھا کہ وہ نئے سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری کے لیے 24 جنوری 2019 کو اعلیٰ سطحی کمیٹی کی میٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں، اس لیے وہ اس معاملے میں شنوائی کے لیے بنچ کا حصہ نہیں ہو سکتے ہیں۔

اس کے بعد اس معاملے کو جسٹس سیکری کے پاس بھیجا گیا لیکن انھوں نے بھی اس کی شنوائی کرنے سے منع کر دیا۔درخواست گزار کی جانب سے پیش ہوئے وکیل دشینت دوے سے جسٹس اے کے سیکری نے کہا  تھا، برائے مہربانی میری حالت کو سمجھیں ۔ میں یہ معاملہ نہیں سن سکتا ہوں۔واضح ہوکہ اے سیکری  وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت والی اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کا حصہ تھے جس نے آلوک ورما کو سی بی آئی ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کو لے کر کافی تنقید ہوئی تھی اور جسٹس اے کے سیکری پر بھی سوال اٹھے تھے۔

اس کے بعد یہ معاملہ اگلے سینئر جج این وی رمنا کو سونپا گیا تھا لیکن 31 جنوری کو جسٹس رمنا نے یہ کہتے ہوئے شنوائی کرنے سے منع کر دیا کہ وہ راؤ کی بیٹی کی شادی میں گئے تھے۔ اس کے بعد 2 فروری کو ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی نے رشی کمار شکلا کوسی بی آئی ڈائریکٹر بنا دیا۔ وہیں اس معاملے کو جسٹس ارون مشرا کی صدارت والی بنچ کو سونپ دیا گیا تھا۔

اس معاملے میں آر ٹی آئی کارکن انجلی بھاردواج معاون عرضی گزار ہیں، جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری میں حکومت شفافیت پر عمل نہیں کر رہی ہے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ ناگیشور راؤ کی تقرری اعلیٰ سطحی سلیکشن کمیٹی  کی سفارشوں کی بنیاد پر نہیں کی گئی تھی، جیسا کہDelhi Special Police Establishment(ڈی ایس پی ای) کے تحت لازمی ہے۔

10 جنوری، 2019 کے حکم میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کی سلیکشن  کمیٹی نے ناگیشور راؤ کو ‘ پہلے کے انتظام کے مطابق ‘ مقرر کرنے کی منظوری دی ہے۔ حالانکہ پہلے کے انتظام یعنی 23 اکتوبر، 2018 کے حکم نے ان کو عبوری سی بی آئی ڈائریکٹر بنایا تھا اور 8 جنوری کو سپریم کورٹ نے آلوک ورما معاملے میں اس حکم کو رد کر دیا تھا۔

حالانکہ، حکومت نے خارج کئے گئے حکم پر سی بی آئی کے ناگیشور راؤ کو ایک بار پھر عبوری ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ حکومت اعلیٰ  اختیارات  والی  کمیٹی کی سفارشوں کے بغیر سی بی آئی ڈائریکٹر کی ذمہ داری نہیں دے سکتی۔ اس لئے، حکومت کے ذریعے ان کو سی بی آئی ڈائریکٹر کا چارج دینے کا حکم غیر قانونی ہے اور ڈی ایس پی ای کی دفعہ 4 اے کے تحت تقرری کے عمل کے خلاف ہے۔

عرضی میں راؤ کی تقرری کو رد کرنے کی مانگ کے علاوہ سی بی آئی کے ڈائریکٹر کی تقرری کے عمل میں شفافیت یقینی  بنانے  اور اسپیشل سسٹم  بنانے کے لئے بھی ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2018 میں، حکومت نے سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری کا پروسیس شروع کیا تھا کیونکہ آلوک ورما کی مدت  31 جنوری، 2019 کو ختم ہونے والی تھی۔

دسمبر 2018 میں، انجلی بھاردواج نے آر ٹی آئی قانون کے تحت مختلف درخواست دائر کی اور تقرری کے پروسیس  کی جانکاری مانگی۔ حالانکہ حکومت نے رازداری  برقرار رکھتے ہوئے کوئی بھی جانکاری دینے سے منع کر دیا۔عرضی میں کہا گیا،’ تقرری کے پروسیس کے بارے میں جانکاری روکنے کی کوشش میں، حکومت نے ان میں سے ہر ایک آر ٹی آئی درخواست کا ایک ہی طرح سے جواب دیا۔’

غور طلب ہے کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے سی بی آئی کے سابق عبوری ڈائریکٹر ایم ناگیشور راؤ کو بہار کے مظفر پور شیلٹر ہوم معاملے کی جانچ کرنے والے افسر اے کے شرما کا تبادلہ کرنے کے لیے عدالت کی ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا تھا۔ عدالت نے ان کو کورٹ کی کارروائی پوری ہونے تک کورٹ میں ایک کونے میں بیٹھے رہنے کی سزا سنائی ہے۔ اس کے علاوہ ان پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ بھی لگایا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)