فکر و نظر

پلواما خود کش حملہ اور جنگی جنون

 ایک سیاسی اور انسانی مسئلے کو صرف فوجی ذرائع اور طاقت کے بل پر دبانے کی پالیسی نے کشمیر میں ایک خطرناک صورتحال کو جنم دیا ہے ۔ اگر موت اور تباہی کے اس رقص کو روکنا ہے ،اتو انسانیت اور انصاف کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

جنوبی کشمیر کے پلواما ضلع کے لیتہ پورہ-اونتی پورہ علاقہ میں عسکریت پسندوں کے خود کش حملے میں 40سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے ایک دن بعد دارلحکومت دہلی کے وومین پریس کلب میں ایک ساتھی کی الوداعی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد باہر نکلا، تو دیکھا کہ اسکولوں کے نو خیز بچے ہاتھوں میں پرچم لئے پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگاتے ہوئے انڈیا گیٹ کی طرف رواں تھے۔میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے، جس میں الکٹرانک میڈیا پیش پیش ہے، کشمیر کی تاریخ، جغرافیہ ،سیاسی تاریخ اور سیاست کے حوالے سے متواتر زہر افشانی کرکے کچے اذہان کو آلودہ کرکے کشمیر دشمنی پر کس قدر آمادہ کر دیا گیا ہے، اس کا اندازہ ہوا۔

 انڈیا گیٹ کے پاس حکمراں  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین پارلیامنٹ کے معیت میں ایک جم غفیر پر جنگی جنون سوار تھا۔ وہ لاہور اور مظفر آباد پر بھارتی پرچم لہرانے کے لیے بے تاب ہو رہے تھے اور کشمیری مسلمانوں کو سبق سکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔چونکہ ایسے وقت میں بھارتی مسلمانوں کے رہنماؤں کو بھی حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے، ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک باریش مولوی صاحب پاکستانی سفیر کو ملک بدر کرنے اور پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔

 لکھنؤ میں کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری اور انتخابات کے لیے ترپ کا پتہ -پرینکا گاندھی فرانسیسی رافیل جنگی جہازوں کی خرید میں ہوئی بد عنوانی پر پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والی تھی، جس کو کینسل کر دیاگیا۔آفس پہنچ کر معلوم ہوا کہ پٹنہ، چھتیس گڑ ھ، دہرا دون اور ملک کے دیگر علاقوں سے کشمیری تاجروں اور طالب علموں پر حملوں اور ان کو بے عزت کرنے کی خبریں متواتر موصول ہو رہی ہیں۔

دیر رات گھر واپس پہنچ کر دیکھا کالونی کے دیگر بلاکوں میں رہنے والے چند کشمیری خاندان ہمارے یہاں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا کہ شام ہوتے ہی علاقہ میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے مکینوں کو باہر نکالا اور ہاتھوں میں موم بتیاں لئے مارچ کرتے ہوئے کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے خوب ہڑ بونگ مچائی تھی۔اتوار کی رات جس وقت میں یہ کالم لکھ رہا تھا، کہ باہر سے کالونی میں ہمارے بلاک کا گارڈ دوڑتا ہو ا آیا اور ہمیں گھر کے اندر رہنے ، دروازے اور کھڑکیاں بند کرنے کی ہدایت دے کر چلا گیا۔


یہ بھی پڑھیں: ایسا کیا ہے جس نے کشمیر کو’جنازوں کا شہر‘ بنا دیا ہے؟


 معلوم ہوا کہ باہری گیٹ کے پاس ایک ہجوم  ہے اور پر جوش نعرے لگا رہا ہے۔ ان کی آوازیں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ میں نے دہلی پولیس اور وزارت داخلہ میں جہاں تک ممکن ہوسکتا تھا، رابطہ کر نے کی کوشش کی۔ ان لمحوں میں مجھے 2002کے گجرات فسادات میں ہلاک ہوئے کانگریس کے سابق ممبر پارلیامنٹ احسان جعفری یاد آرہے تھے، کم و بیش وہ اسی طرح کے حالات کا شکار ہوگئے۔ آدھے گھنٹے کے بعد دہلی پولیس کی ایک ٹیم آئی اور انہوں نے ہجوم کو پارک میں جلسہ کرنے کی صلاح دی۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہجوم پھر واپس آیا۔ اور گیٹ کے پاس اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ آدھی رات کو میں نے فیملی کو ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ایک رشتہ دار کی ہاں شفٹ کروایا اور خود کالم مکمل کرنے کے بعد دفتر میں جاکر پناہ لی۔دہلی میں اپنے صحافتی کیریئر کے دوران میں نے کئی اتار  چڑھاؤ دیکھے ہیں۔بد نام زمانہ تہاڑ جیل میں بھی آٹھ ماہ گزار چکا ہوں۔ جنگ کرگل ،پارلیامنٹ پر حملہ کے بعد آپریشن پراکرم یا 2008 میں ممبئی حملوں کی رپورٹنگ بھی کی ہے ، مگر یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس قدر جنگی جنون جو پچھلے پانچ سال میں عوام پر طاری کرایا گیا، اس سے قبل کبھی نہیں تھا۔

 نہ حالات اس قدر دگرگوں تھے۔ ایک اعلیٰ افسر نے ایس ایم ایس کے ذریعے مجھے بتانے کی کوشش کی آر یا پار کا وقت آچکا ہے ۔ کانگریس کے ایک سینئرجنرل سکریٹری ہیں کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ایسے وقت میں  ہوا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اس کا فائدہ اٹھانے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے اپنے وزیروں اور پارٹی لیڈروں کو پہلے ہی حکم نامہ جاری کیا ہے کہ وہ مہلوکین کے گاؤں اور محلوں میں جاکر ان کی آخری رسومات میں شرکت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں ڈیرا ڈالیں۔

 مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد چونکہ معیشت کی بحالی اور دیگر وعدے ہوا ہوگئے ہیں،رام مندر کی تعمیر کے نام پر کوئی تحریک برپا نہیں ہو پا رہی ہے۔ حالیہ صوبائی انتخابات میں کسانوں ، دلتوں، دوسرے پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں نے مل کر ان کو شکست دی۔ اس تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ دو ماہ میں عام انتخابات کے پیش نظر ہندو قوم پرست آخری ترپ کا پتا یعنی نیشنلزم پر بحث کروا کے اور ہندوؤں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: پلواما حملے سے حکومت ہند کو کیا سبق لینا چاہیے؟


تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کے لیے یہ ایک سنگین صورت حال ہوتی ہے جب معاشرے کے کچھ طبقوں کو ‘محب وطن‘ اور کچھ کو ‘ملک دشمن‘ قرار دیا جانے لگے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس یورش میں برسراقتدار پارٹی کے قائدین ، مرکزی وزرائے اور اعلیٰ سیکورٹی افسران کی جانب سے بار بار کی بیان بازیوں سے اس پروپگنڈہ مہم کو دست و بازو فراہم ہو رہے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان بھر میں اس وقت جو سیاسی صف آرائیاں ہو رہی ہیں اس میں کشمیر اور کشمیریوں کو ایک ایشو بنا کر سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

 کشمیر میں حالات کی مسلسل خرابی کے ساتھ کئی حلقوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہو رہے ہیں۔حالیہ عرصے میں حتیٰ کہ جنوبی صوبوں کرناٹک اور آندھرا میں بھی کشمیریوں کی ہراسانی کے واقعات پیش آئے ہیں، جبکہ مہاراشٹر کے شہر پْنے میں بھی کشمیری تاجروں، طلبا اور کامگاروں کو پولیس سے رابطہ قائم کرکے ہراسانی سے حفاظت کے لیے امداد و اعانت طلب کرنا پڑی۔ ایک طرف حکومت اور مختلف سیکورٹی ایجنسیاں آپریشن سدبھاونا وغیرہ کے نام پر کھیل کود، ادب و ثقافت اور تفریح کی غرض سے کشمیر ی طلبا او رنوجوانوں کو ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں لے جاکر وہاں کے تمدن اور سوچ سے ہم آہنگ کرنے کے پروگراموں پر کروڑوں روپے خرچ کرتی ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔

خیر جو واقع پلواما میں پیش آیا، میں ایک عرصہ سے اپنے کالمز میں ایسی صورت حال کے برپا ہونے کے بارے میں خبردار کرتا آیا ہوں۔ہر قیمتی انسانی جان کے تلف ہونے پر انتہائی دکھ اور افسوس ہوتا ہے۔ جو لوگ روز اپنے عزیزوں اور جوانوں کے جنازے اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں، اِس دکھ اور درد کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔2014میں ایک نجی تقریب کے دوران قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال نے کہا تھا کہ یہ پہلا اور آخری موقع ہے کہ پاکستان اور کشمیریوں کو بتایا جائے کہ ان کی منزل ناقابل حصول ہے۔

اس پالیسی کے تحت نہ صرف حریت بلکہ ہند نواز سیاسی قیادت کو بھی نئی دہلی نے بے وقعت اور بے وزن کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ شاید آخری قیادت ہے ، جو ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کے مفہوم سے واقف ہے۔ جموں وکشمیر کی عوام کی امنگوں اور خواہشات کو سمجھنے کے بجائے ایک سیاسی اور انسانی مسئلے کو صرف فوجی ذرائع اور طاقت کے بل پر دبانے کی پالیسی نے کشمیر میں ایک خطرناک صورتحال کو جنم دیا ہے ۔ اگر موت اور تباہی کے اس رقص کو روکنا ہے ،اتو انسانیت اور انصاف کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔مگر اس حملے کے بعد ٹی وی اور دوسرے ذرائع میں ہونے والے بحث و مباحثے کے گمراہ کن رویے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ہم ابھی بھی مسائل کی طرف صحیح طریقے سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔


یہ بھی پڑھیں: پلواما حملے کے بعد کشمیر کے اصلی مدعے کو پھر سے نظرانداز کیا جا رہا ہے


انڈین آرمی کے ایک سابق آفسر کرنل (ریٹائرڈ) آلوک استھانا کے بقول حملہ آور پاس کے ہی گاؤں کا عادل احمد تھا۔ وہ پاکستانی علاقہ سے نہیں آیا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ حملہ جنوبی کشمیر میں ہوا، جو شمالی کشمیر کے برعکس لائن آف کنٹرول سے کوسو ں دور ہے۔ اس علاقے تک پہنچنے کے لیے سرینگر شہر سمیت کئی سخت سیکورٹی والے علاقوں سے گزر نا پڑتا ہے۔ کرنل کے مطابق عادل کے خودکش دھماکہ سے ہوئے خون خرابے سے ایک اہم سوال جو سامنے آیا ، وہ یہ کہ آخر مقامی کشمیری، جن میں سے کئی پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں سے ہیں ، اس طرح سے اپنی جان دینے کے لئے کیوں تیار ہیں؟

اگر اس سوال کا تھوڑا ہی صحیح، جواب دے دیا جاتا ہے، تو باقی ساری چیزوں کا بھی حل نکل جائیگا۔ مگر اس جنگی جنوں میں کس کو ہوش ہے کہ اس اصل مسئلے پربات کرے۔ علاوہ ازیں پچھلی تین دہائیوں کے دوران جو نسل کشمیر میں تیار ہوئی ہے اس کے زخموں پر مرہم لگانے کے بجائے ان کو مزید کچوکے دئے جا رہے ہیں۔ میں نے چند سال قبل اپنے ایک کالم میں خبردار کیا تھا گوکہ کشمیر میں عسکریت وہ دم نہیں جو 90 کے اوائل میں ہوتا تھا۔ مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے خود کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔

 مسئلہ کشمیرکو حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ اس کے لئے جمہوریت، رحم دلی اور مفاہمت پر مبنی ایک ماحول تیار کرنا ہوگا۔ علاقے یعنی رئیل اسٹیٹ کے بجائے عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ کشمیر میں ایک ایک دل زخمی ہے ، اور یہ زخم مندمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ جب تک ہندوستان  اور پاکستان دشمنی کی راہ ترک کرکے خطے میں پائیدار امن و خوشحالی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اقدامات نہیں گریں گے تب تک پلواما جیسے واقعات کر روکنا ممکن نہیں ہے ۔

 زخم ہرے ہوتے رہیں گے۔ ان تمام المیوں کا ماخذ کشمیرکا حل طلب مسئلہ ہے۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کے بجائے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔کوئی ایسا حل جو تمام فریقوں کے لئے قابل قبول ہو، تاکہ برصغیر میں امن و خوشحالی کے دن لوٹ سکیں۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)