خبریں

ہندی تنقید میں حاشیے کو مرکزیت عطا کرنے والے ادیب نامور سنگھ کا انتقال

ایسا مانا جاتا ہے کہ نامور سنگھ نے ہندی تنقید کو اس کے کتابی پن اور اکادمک پیچیدگیوں سے آزاد کیا اوراس کو عام قارئین تک پہنچانے میں بڑا رول ادا کیا۔

نامور سنگھ، فوٹو بہ شکریہ: راج کمل پرکاشن

نامور سنگھ، فوٹو بہ شکریہ: راج کمل پرکاشن

نئی دہلی: ہندی کے معروف ادیب اور نقاد نامور سنگھ کا گزشتہ شب انتقال ہوگیا ۔ انہوں نے دہلی کے ایمس میں منگل کی رات 11.50 بجے آخری سانس لی۔ وہ 92 سال کے تھے۔

غور طلب ہے کہ وہ اس سال جنوری میں اپنے گھر میں گر گئے تھے ، جس کے بعد ان کو ہاسپٹل میں بھرتی کرایا گیا تھا۔ ہندی کے سینئر صحافی اور قلمکار اوم تھانوی نے اپنے فیس بک پوسٹ کے ذریعے نامور سنگھ کے انتقال کی جانکاری دی۔

انہوں نے فیس بک پوسٹ میں لکھا، ہندی میں پھر سناٹے کی خبر۔ نایاب نقاد، ادب میں دوسری روایت کے موجد، ڈاکٹر نامور سنگھ نہیں رہے ۔ منگل کی آدھی رات ہوتے نہ ہوتے کوئی 11.50 پر انہوں نے آخری سانس لی ۔ وہ کچھ وقت سے ایمس میں زیر علاج تھے۔نامور سنگھ کی پیدائش 28 جولائی 1926 کو وارانسی کے جینا پور گاؤں میں ہوئی تھی ۔ انہوں نے بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو ) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بی ایچ یو میں  ہی پڑھانے لگے ۔ وہ کئی دوسری یونیورسٹی میں بھی ہندی ادب کے پروفیسر رہے۔

 انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہندوستانی زبانوں کے مرکز کی بنیاد ڈالی اور 1992 میں جے این یو سے ریٹائر ہوئے۔ان کو ہندی ادب کا لیونگ لیجنڈ کہا جاتا تھا ۔ ان کی اہم کتابوں میں ‘کویتا کے نئے پرتیمان’ ، ‘چھایا واد’ اور دوسری پرمپرا کی کھوج’ قابل ذکر ہیں ۔’ان کو’ کویتا کے نئے پرتیمان ‘کے لیے 1971 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ نامور سنگھ کو ہندی کے علاوہ اردو اور سنسکرت جیسی  زبانوں پر دسترس حاصل تھی ۔وہ ‘جن یگ’ اور’ آلوچنا ‘جیسے رسالوں کے مدیر رہے۔وہ آل انڈیا پروگریسیو رائٹرس ایسوسی ایشن (اے آئی پی ڈبلیو اے ) کے سابق صدر بھی تھے ۔

انہوں نے 1959 میں انڈین کمیونسٹ  پارٹی کے ٹکٹ پر اترپردیش کے چندولی سے لوک سبھا کا انتخاب بھی لڑا لیکن وہ ہار گئے۔ستیاگرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 1988 میں نامور سنگھ کے 60 سال مکمل ہونے پر وارانسی پروگریسیو رائٹرس ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں بابا ناگاارجن نے کہا تھا ، اپنے ملک میں عام شہریوں تک بات پہنچانے کے نظریے سے ، کتابوں سے دور کر دیے گئے لوگوں تک خیالات کو پہنچانے کے لیے لکھنا جتنا ضروری ہے ، اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے بولنا ۔ یونیورسٹیوں کے مقابلے میں یہ جنگم(چلتا پھرتا) ودیا پیٹھ زیادہ ضروری ہے ۔ نامور سنگھ اس جنگم ودیا پیٹھ کے وائس چانسلر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، نامور سنگھ صحیح معنوں میں  Oral Traditionsکے آچاریہ تھے ۔ وہ روایت جس کی لکیریں  نانک  اور دادو جیسے ناموں نے گڑھی ہے۔ اپنے ایک مضمون میں سینئر صحافی پریہ درشنی لکھتے ہیں کہ ، انہوں نے ہندی کے کھیتوں کو سینچا ہے ۔ انہوں نے دور دراز کے علاقوں میں سفر کیے ، عوام سے ملتے رہے ۔ تخلیق اور تنقید کی قدر و قیمت سمجھاتے رہے۔ گوشہ نشینی والی ریاضت جیسی کوئی شے ان کے اسلوب زیست یا اسلوب فکر کا حصہ نہیں تھی ۔ نامور سنگھ لگاتار مکالمہ کرنے والے نقاد تھے ،جنہوں نے لکھنے سے زیادہ بول کر نیکی کمائی ۔

ایسا مانا جاتا ہے کہ نامور سنگھ نے ہندی تنقید کو اس کے کتابی پن اور اکادمک الجھاووں سے آزاد کیا ۔ اس کو عام قارئین تک پہنچانے میں بڑا رول ادا کیا۔ اشوک واجپائی کے مطابق، نامور سنگھ کی وجہ سے بہت کچھ ہندی تنقید کے حاشیے میں نہ رہ کر مرکز میں آئی ۔

معروف ادیب منگریش ڈبرال کے خیال میں ، نامور سنگھ کے پڑھانے کا طریقہ خشک اور کتابی نہیں ،بلکہ اتنا مؤثر تھا کہ ان کی کلاس میں دوسری جماعتوں کے طلبا ان کو سننے آجاتے تھے ۔ادبی دنیا کے علاوہ ان کے سانحہ ارتحال پر وزیر اعظم نریندر مودی  اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی اظہار تعزیت کیا ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ، ہندی ادب کے ‘شکھر پرش’ نامور سنگھ جی کے انتقال سے گہرا دکھ ہوا ۔ انہوں نے تنقید کے ذریعے ہندی ادب کو ایک نئی جہت دی ۔ دوسری پرمپرا کی تلاش کرنے والے نامور جی کا جانا ادبی دنیا کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)