خبریں

کیا سپریم کورٹ کے حالیہ حکم کی وجہ سے 10 لاکھ سے زیادہ آدیواسی اپنی زمین سے بےدخل ہو جائیں گے؟

سپریم کورٹ کے اس حکم سے 16 ریاستوں کے آدیواسی متاثر ہوں‌گے۔عدالت نے کہا، ریاستی حکومتیں یہ یقینی بنائیں ‌گی کہ جہاں دعوے خارج کرنے کے حکم پاس کر دئے گئے ہیں، وہاں سماعت کی اگلی تاریخ کو یا اس سے پہلے نکالا جانا شروع کر دیا جائے‌گا۔

)علامتی تصویر : رائٹرس(

علامتی تصویر : رائٹرس

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ملک کے تقریباً 16 ریاستوں کے 10 لاکھ سے زیادہ آدیواسیوں اور جنگل میں رہنے والے دیگر لوگوں کو جنگل کی زمین سے بےدخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ آدیواسیوں اور جنگل میں رہنے والے دیگر لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے بنے ایک قانون کا مرکزی حکومت بچاؤ نہیں کر سکی، جس کی وجہ سے سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا ہے۔بزنس اسٹینڈرڈ کی خبر کے مطابق، اب دیگر ریاستوں کو بھی عدالت کا حکم نافذ کرنے کے لئے مجبور ہونا ہوگا جس کی وجہ سے ملک بھر میں اپنی زمین سے زبردستی بےدخل کئے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو‌گا۔ عدالت کا یہ حکم ایک وائلڈ لائف گروپ کے ذریعے دائر کی گئی عرضی پرآیا ہے جس میں اس نے جنگل کے حقوق اور اس کے قانونی جواز پر سوال اٹھا تھا۔

درخواست گزار نے یہ بھی مانگ کی تھی کہ وہ تمام جن کے روایتی جنگل کی زمین پر دعوے قانون کے تحت خارج ہو جاتے ہیں، ان کو ریاستی حکومتوں کے ذریعے خارج کر دیا جانا چاہیے۔اس قانون کے بچاؤ کے لئے مرکزی حکومت نے جسٹس ارون مشرا، جسٹس نوین سنہا اور جسٹس اندرا کی بنچ کے سامنے 13 فروری کو اپنے وکیلوں کو ہی نہیں بھیجا۔ اسی وجہ سے بنچ نے ریاستوں کو حکم دے دیا کہ وہ 27 جولائی تک ان تمام آدیواسیوں کو بےدخل کر دیں جن کے دعوے خارج ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بنچ نے اس کی ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرنے کو بھی کہا۔ یہ تحریری حکم 20 جنوری کو جاری ہوا ہے۔

عدالت نے کہا، ریاستی حکومتیں یہ یقینی بنائیں ‌گی کہ جہاں دعوے خارج کرنے کے حکم پاس کر دئے گئے ہیں، وہاں سماعت کی اگلی تاریخ کو یا اس سے پہلے نکالا جانا شروع کر دیا جائے‌گا۔ اگر ان کا نکالا جانا شروع نہیں ہوتا ہے تو عدالت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے‌گی۔معاملے کی اگلی سماعت کی تاریخ 27 جولائی ہے۔ اس تاریخ تک ریاستی حکومتوں کو عدالت کے حکم سے آدیواسیوں کو ان کی زمین سے بےدخل کرنے کا کام شروع کر دینا ہوگا۔

فوٹو : بزنس اسٹینڈرڈ

فوٹو : بزنس اسٹینڈرڈ

عدالت کے حکم کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ عدالت کو اب تک غیرمنظوری کی شرح بتانے والے 16 ریاستوں سے خارج کئے گئے دعووں کی کل تعداد 1127446 ہے جس میں آدیواسی اور دیگر جنگلی رہائشی گھر شامل ہیں۔ وہیں جن ریاستوں نے عدالت کو ابھی تک ایسی جانکاری دستیاب نہیں کرائی ہے ان کو دستیاب کرانے کو کہا گیا ہے۔ ان کے ذریعے جانکاری دستیاب کرائے جانے کے بعد یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔

کانگریس قیادت والی یو پی اے حکومت کے پہلی مدت کار میں پاس ہونے والے قانون کے تحت حکومت کو طےشدہ معیاری اصول کے خلاف آدیواسیوں اور دیگر جنگل واسیوں کو روایتی جنگل کی زمین واپس سونپنا ہوتا ہے۔ سال 2006 میں پاس ہونے والے اس قانون کے فاریسٹ افسروں کے ساتھ وائلڈ لائف گروپوں اور نیچرلسٹوں نے مخالفت کی تھی۔

آدیواسی گروہ مانتے ہیں کہ ان کے دعووں کو کچھ ریاستوں میں منظم طور پر نامنظور کر دیا گیا ہے اور ان کا تجزیہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔ وہیں کئی ریاستوں سی ایسی رپورٹیں آئی ہیں جہاں کمیونٹی کے دعووں کو منظور کرنے کو لےکر بھی رفتار بہت دھیمی ہے۔درخواست گزار بنگلورو واقع وائلڈلائف فرسٹ جیسی کچھ غیرسرکاری تنظیموں کا ماننا ہے کہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے اور اس کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی میں تیزی آ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ قانون بچا بھی رہ جاتا ہے تب بھی دعووں کے خارج ہونے کی وجہ سے ریاستی حکومتیں اپنےآپ آدیواسیوں کو باہر کر دیں‌گی۔

آدیواسی گروہوں کا کہنا ہے کہ کئی معاملوں میں دعووں کو غلط طریقے سے خارج کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے نئے قانون کے تحت تجزیہ ہونا چاہیے جس کو آدیواسی معاملوں کی وزارت نے اصلاحی عمل کے طور پر لایا تھا۔ قانون کے تحت ان کو اپنےآپ باہر نہیں نکالا جا سکتا ہے اور کچھ معاملوں میں تو زمینیں ان کے نام پر نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کو آبائی جنگل جائیداد کے طور پر ملی ہیں۔

عدالت نے جب آخری بار اس معاملے کی سماعت کی تھی تب کانگریس صدر راہل گاندھی نے بی جے پی قیادت والی این ڈی اے حکومت پر اس معاملے میں تماش بین بنے رہنے کا الزام لگایا تھا۔انہوں نے کہا، بی جے پی سپریم کورٹ میں تماش بین بنی ہوئی ہے، جہاں جنگل حقوق قانون کو چیلنج دیا جا رہا ہے۔ وہ لاکھوں آدیواسیوں اور غریب کسانوں کو جنگلات سے باہر نکالنے کے اپنے ارادے کا اشارہ دے رہی ہے۔ کانگریس ہمارے محروم بھائی-بہنوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اس ناانصافی کے خلاف پورے دم سے لڑائی لڑے‌گی ‘

مرکزی حکومت نے ابھی تک اس حکم پر اپنا رد عمل نہیں دیا ہے۔ بتا دیں کہ ملک میں اس سے پہلے اتنے بڑے پیمانے پر آدیواسی کمیونٹی کو بےدخل کرنے کا معاملہ کبھی سامنے نہیں آیا تھا۔ریسرچر سی آربیجائی کی شائع تحقیق کے مطابق، سال 2002سے2004میں سپریم کورٹ کے حکم پر جب آخری بار ملک بھر میں آدیواسی کمیونٹی کو بےدخل کرنے کا کام ہوا تھا تو وسط ہندوستانی آدیواسی لوگ جنگلی علاقوں میں تشدد، قتل اور  مظاہرہ کے کئی واقعات سامنے آئے تھے اور تقریباً تین لاکھ باشندوں کو اپنی جگہ چھوڑنا پڑی تھی۔

دریں اثنا Down To Earth میگزین کے ایک تجزیہ کے مطابق سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے حتمی طور پر آدیواسی کمیونٹی کو بے دخل کرنے کا جواز نہیں بنتا۔