فکر و نظر

بی جے پی گائے کے نام پر جنون کی سیاست کرتی ہے

مبینہ گئورکشا مہم سے صرف مسلمانوں کا ہی نقصان نہیں ہوا ہے، ہندوؤں کا بھی ہوا ہے۔مویشی کی قیمت آدھی رہ گئی ہے۔ اس سے پریشانی بڑھی ہے۔

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

جنون اورتجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دیوانگی اور جنون کے ماحول میں صنعت اور کاروبار کا پھلنا-پھولنا تو دور ان کا بچا رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ جیسےتقریباً تین دہائی پہلے ہوئے خوفناک بھاگل پور فسادات نے اس شہر کے مشہور ریشم کے کپڑوں کے  کاروبار کو اس قدر متاثر کیا کہ ریشم سٹی اب تک اس چوٹ سے ابر نہیں پایا ہے۔

 پلواما حملے کے بعد ہندوستان میں دکھ اور غصہ ہے تو ساتھ ساتھ یہ جنگ کے جنون کی چپیٹ میں بھی ہے جس میں مسلم-مخالف جذبہ بھی شامل ہے۔ یہ دیوانگی تو ایک بہت ہی تکلیف دہ واقعہ سے پیدا ہو رہی ہے یا کی جا رہی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ مرکز اور کئی صوبوں میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہمیشہ سے حکمت عملی رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے جنون  بنا رہے اور لوگ الگ الگ وجہوں سے اس  کی گرفت میں آکر سڑکوں پر آئیں۔

بی جے پی جنون  کی سیاست کرتی ہے۔تقریباً پانچ سالوں سے گائے کے نام پر بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔ مرکز کی موجودہ حکومت کی مدت کار کے دوران گئورکشا ایک جنون میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور یہ دیوانگی گزشتہ کچھ سالوں میں تقریباً پچاس لوگوں کی جان لے چکی ہے۔ دوسری طرف گئورکشکوں کے حملوں اور گئوکشی اور مویشیوں کے نقل وحمل پر سخت قوانین نے ہندوستان کے مویشیوں کے کاروبار اور دیہی زرعی معیشت کو بےترتیب کر دیا ہے۔ ساتھ ہی، زراعت اور ڈیری شعبے سے جڑے چمڑا اور گوشت  صنعت پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں یہ حقیقت ایک بار پھر سے تفصیل سے سامنے آئی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے ہندوستان میں جاری تشدد گئورکشا مہم کے سیاسی-اقتصادی پہلوؤں سمیت دیگر فریقوں کو تفصیل سے سمیٹتے ہوئے Violent Cow Protection in India : Vigilante Groups Attack Minorities کے عنوان سے رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں ان حملوں کے اثر اور حکومت کے ذریعے ان لوگوں کے لئے کئے گئے اقدامات کی بھی جانچ کی گئی ہے جن کا کاروبار مال مویشی سے جڑا ہوا ہے، ان میں کسان، چرواہے، مویشیوں کے ٹرانسپورٹر، گوشت کاروباری اور چمڑا صنعت کے مزدور شامل ہیں۔

رپورٹ کہتی ہے، مویشیوں سے متعلق صنعتوں کو نقصان پہنچانے والے قوانین، پالیسیوں اور غیر قانونی حملوں سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو، خاص کر دلت، بھی کافی متاثر ہوئے ہیں۔ بوچڑ خانہ اور گوشت کی دکانیں زیادہ تر مسلمان چلاتے ہیں۔ دلت روایتی طور پر مویشیوں کی لاشوں کا تصفیہ کرنے اور چمڑے اور چمڑے کے سامان جیسے تجارتی مقاصد کے لئے ان کی کھال اتارنے کا کام کرتے ہیں۔ لہذا، یہ پالیسیاں تمام طبقوں، بالخصوص کسانوں اور مزدوروں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ٹرانسپورٹرس بھی اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان حملوں نے خانہ بدوش چرواہوں کی روزی-روٹی کو قریب قریب برباد کر دیا ہے۔

گزشتہ  سال ارریہ لوک سبھا ضمنی انتخاب کے دوران ارریہ ضلع کے گھیواہا گاؤں کے محمد حسنین نے بتایا تھا،گئورکشا مہم سے صرف مسلمانوں کا ہی نقصان نہیں ہوا ہے، ہندوؤں کا بھی ہوا ہے۔مویشی کی قیمت آدھی رہ گئی ہے۔ اس سے پریشانی بڑھی ہے۔ دیہات میں غریب لوگ مویشی یہ سوچ‌کر پالتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر اس کو بیچ‌کر علاج کرائیں‌گے، بیٹی کی شادی کے لئے پیسے جٹائیں‌گے۔ لیکن ابھی جو حال ہے ضرورت پڑی تو صحیح وقت پر مویشی بک ہی نہیں پائیں گے۔

کسان اکثر مویشی پروری اور مویشیوں کے کاروبار اور ڈیری مصنوعات کو فروخت کرکے کچھ پیسےجٹا پاتے ہیں اور اشیائےخوردنی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً 19 کروڑ مویشی اور 10.8 کروڑ بھینسیں ہیں۔ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک بھی ہے۔ کسان آدمی بچھڑوں جیسے غیرپیداواری مویشیوں اور بوڑھے مویشیوں کو بیچتے رہے ہیں کیونکہ ان کو پالنا کسانوں کے لئے مہنگا سودا ہوتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ماضی میں’ہندو ‘ کسان کا کبھی بھی’مسلم ‘ قصائی کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں تھا۔ اس رپورٹ میں مویشی پروری کے ماہر ایم۔ ایل۔ پریہار کہتے ہیں،ہندو کسانوں نے بھی کبھی مویشیوں کو قصائی خانہ بھیجنے کی مخالفت نہیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مویشی گاؤں میں رہیں‌گے، تو فصلوں کو نقصان پہنچائیں‌گے۔ یہ معیشت کا حصہ تھا۔ کسان کو مویشیوں سے جذباتی لگاؤ ہو سکتا ہے، لیکن پھر بھی وہ اس کو بیچواتا تھا، جانتے ہوئے کہ یہ قصائی خانہ جا رہا ہے۔ کسان جانتا تھا کہ وہ اس کو کھلانے اور رکھنے کا خرچ نہیں اٹھا سکتا۔

مبینہ گئورکشا کے علمبرداوں کے تشدد کی وجہ سے حکومت کے ذریعے منعقد مویشیوں کے میلہ میں مویشیوں کی خریدوفروخت میں قابل ذکر کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ راجستھان حکومت ہر سال 10 مویشیوں کے میلہ کا انعقاد کرتی ہے۔ 2010-11 میں، ان میلوں میں 56 ہزار سے زیادہ گائے اور بیل آئے اور ان میں سے 31 ہزار کی فروخت ہوئی۔ 2016سے17 میں، ان کی تعداد 11 ہزار سے بھی کم رہ گئی، جن میں 3 ہزار سے بھی کم کی خریدوفروخت ہوئی۔

بہار کے سون پور میں ہرسال لگنے والا میلہ کبھی ایشیا کا سب سے بڑے مویشیوں کے میلہ کے طور پر بھی مشہور تھا۔ لیکن اب حالات دوسرے ہیں۔ ہندوستان ٹائمس کی گزشتہ سال نومبر کی ایک رپورٹ کے مطابق Prevention of Cruelty to Animals Act کے تحت مویشیوں کے بازاروں میں مویشی کے ذبیحہ کے لئے مویشیوں کی فروخت اور خرید پر مرکزی حکومت کی روک اور گئورکشا کے علمبرداروں کے بڑھتے حملوں نے اس مشہور میلہ میں آنے والے سینکڑوں مویشیوں کے کاروباریوں اور اس کاروبار کے ثالثوں کے ذریعہ معاش چھین لیا ہے۔ اخبار کے مطابق پچھلے چار سے پانچ سالوں میں سون پور میلہ میں مویشیوں کے کاروباریوں کی شراکت داری بہت تیزی سے گھٹی ہے۔ کئی ریاستوں، بنیادی طور پر پنجاب، ہریانہ اور آسام کے کاروباری، جو یہاں باقاعدہ تھے، نے آنا بند کر دیا ہے۔

ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا بیف ایکسپورٹ کرنے والا ملک ہے، جو ہر سال تقریباً 400 کروڑ امریکی ڈالر کا بھینس کاگوشت ایکسپورٹ کرتا ہے۔ حالانکہ، 2014 میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اس  میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے اور ملک کی سرفہرست گوشت پیداکرنے والی ریاست اتر پردیش میں بی جے پی کی رہنمائی والی حکومت کی کارروائی سے اس کاروبار کا مستقبل دھندلا ہو گیا ہے۔ مارچ 2017 میں، بی جے پی کے ذریعے اتر پردیش کا وزیراعلیٰ بنتے ہی آدتیہ ناتھ نے فوراً زیادہ تر مسلمانوں کے ذریعے چلائے جا رہے کئی بوچڑ خانوں اور گوشت کی دکانوں پر کارروائی کی۔

منسٹری آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی متعلقہ ترقیاتی اتھارٹی کے مطابق مالی سال 2014سے15کے بعد پچھلے مالی سال 2017سے18 کو چھوڑ کر ہرسال بھینس کے گوشت کے ایکسپورٹ میں کمی درج ہوئی ہے۔ جبکہ مالی سال 2010سے11 سے مالی سال 2014سے15 کے درمیان اس ایکسپورٹ میں ہرسال قابل ذکر اضافہ درج ہوا تھا۔ مالی سال 2010سے11 میں یہ ایکسپورٹ تقریباً188 کروڑ امریکی ڈالر کا تھا جو مالی سال 2014سے15 میں بڑھ‌کر 478 کروڑ امریکی ڈالر تک پہنچ گیا۔ لیکن مالی سال 2015سے16 سے یہ ایکسپورٹ گھٹنے لگی اور 2016سے17 میں گھٹ‌کر 391 کروڑ امریکی ڈالر کی رہ گئی۔ حالانکہ مالی سال 2017سے18 میں یہ تھوڑا بڑھ‌کر 403 کروڑ امریکی ڈالر تک پہنچی۔

ہندوستان دنیا کا تقریباً 13 فیصد چمڑا پیدا کرتا ہے اور چمڑا صنعت غیر ملکی کرنسی آمدنی کا ایک اہم ماخذ ہے۔ اس سے 1200 کروڑ امریکی ڈالر سے زیادہ کا سالانہ ریونیوحاصل ہوتا ہے (ایکسپورٹ 570 کروڑ امریکی ڈالر اور گھریلو بازار 630 کروڑ امریکی ڈالر کی ہے)اور یہ تقریباً 30 لاکھ لوگوں کو روزگار عطا کرتا ہے، جن میں سے 30 فیصد خواتین ہیں۔ 2017 میں، حکومت نے چمڑا صنعت کو روزگار پیدا کرنے اور ترقی کے لئے اہم صنعت کے طور پر نشان زد کیا۔ اسی وقت، ایک سرکاری سروے میں قبول کیا گیا کہ ،بڑے مویشیوں کی آبادی ہونے کے باوجود، مویشیوں کے چمڑے کے ایکسپورٹ میں ہندوستان کی حصےداری کم ہے اور مویشی ذبیحہ،محدود دستیابی کی وجہ سے گھٹ رہی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق چمڑا پیداکرنے والوں اور ایکسپورٹ کرنے والوں  کا کہنا ہے کہ گئورکشا کے علمبرداروں کے ڈر اور سینکڑوں بوچڑ خانوں کو بند کرنے سے چمڑے کی دستیابی گھٹی ہے۔ حکومت ہند کی وزارت تجارت اور صنعت کے 2017سے18 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق جہاں چمڑا اور چمڑا مصنوعات کا ایکسپورٹ2013سے14 میں 18 فیصد سے زیادہ اور 2014سے15 میں 9 فیصد بڑھا، وہیں 2015سے16 میں ان میں تقریباً 10 فیصد کی گراوٹ آئی۔ 2017سے18 میں، ان میں 1.4 فیصد کا معمولی اضافہ درج کیا گیا۔

مویشیوں کی آسان خریدوفروخت متاثر ہونے سے زیادہ سے زیادہ کسانوں کو اپنے مویشیوں کو آوارہ چھوڑنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے آوارہ مویشیوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ان کسانوں میں غصہ ہے جن کی فصلوں کو ان مویشیوں سے خطرہ ہے۔ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق کئی ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں نے گئوشالاؤں کا مختص بڑھایا ہے، یہاں تک کہ نئے ٹیکس لگائے ہیں۔اس کے علاوہ، ان ریاستوں کی جیلوں میں گئوشالا کھول‌کر قیدیوں کی صحت کے ساتھ سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔

یہ رپورٹ یہ مشورہ دیتی ہے کہ حکومت کے پاس مویشیوں کی خریدوفروخت پر روک لگانے والے قوانین اور پالیسیوں کو نافذ کرنے کا حق ہے، لیکن ایسا کرتے ہوئے اس کو اقلیتی طبقے کو ہونے والے متضاد نقصان سے بچانا ہوگا۔ ساتھ ہی حکومت کو یہ متعین کرنا ہوگا کہ ایسے تمام قانون یا پالیسیاں تمام ہندوستانیوں کے ذریعہ معاش کے حقوق کے مطابق ہوں۔