خبریں

جموں و کشمیر: سپریم کورٹ میں دفعہ 35-اے پر شنوائی سے پہلے یٰسین ملک حراست میں

سپریم کورٹ میں دفعہ 35 اے پر 25 فروری کو شنوائی  کا امکان۔ مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر میں پیرا ملٹری فورسز کی 100 اضافی کمپنیاں تعینات کرنے کا حکم دیا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(جے کے ایل ایف ) کے چیف یٰسین ملک کو جمعہ کی رات کو حراست میں لے لیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی (جے ای ایل) کے کچھ کارکنوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس دوران پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے ۔ حالاں کہ ابھی کسی اور کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق نہیں  کی گئی ہے۔

مرکزی حکومت نے جمعہ کو جموں وکشمیر کے پیرا ملٹری فورسز کی 100 اضافی کمپنیوں کو تعینات کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ ملک کو جمعہ کی شام سرینگر واقع ان کے گھر سے حراست میں لیا گیا ۔ جموں و کشمیر پولیس نے اس کی تصدیق  کی ہے کہ ملک کو کوٹھی باتھ پولیس اسٹیشن میں حراست میں رکھا گیا ہے ۔ وہ سید علی شاہ گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سمیت جوائنٹ ریسسٹنس لیڈر شپ کا حصہ بھی ہیں۔

بتایا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ میں دفعہ 35 –اے پر شنوائی شروع ہونے سے پہلے ان کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ اس پر شنوائی شروع ہو سکتی ہے۔پلواما ضلع میں سی آر پی ایف کے قافلے پر دہشت  گردانہ حملے کے آٹھ دن بعد یہ کارروائی ہوئی ہے۔ اس حملے میں سی آر پی ایف کے کم سے کم 40 جوان ہلاک ہوئے تھے ۔

جے ای ایل کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ پارٹی چیف حامد فیاض سمیت جے ای ایل کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے۔انہوں نے کہا 22 اور 23 فروری کی درمیانی شب کو پولیس اور سی آر پی ایف نے ایک بڑے آپریشن کے تحت گھاٹی میں کئی گھروں میں چھاپہ مارکر درجن بھر رہنماؤں کو حراست میں لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حلقے میں غیر یقینی ماحول کو بڑھانے کے لیے یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انہوں نے کہا ، فی الحال کچھ گڑبڑ لگ رہا ہے  ،ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ میں ریاست کو اسپیشل درجہ دیے جانے کا معاملہ لسٹیڈ ہے ، ایسے وقت میں فی الحال کچھ گڑبڑ لگ رہا ہے ۔ دفعہ 35-اے کے تحت جموں و کشمیر کو خاص درجہ حاصل ہے اور اس پر کچھ دنوں میں شنوائی ہونے والی ہے۔

ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹوئٹ کر کے کہا ، گزشتہ 24 گھنٹوں میں حریت رہنماؤن اور جماعت کے کارکنان کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ اس طرح کے من مانے اقدام کو سمجھ نہیں پا رہی ہوں ،کیوں کہ اس سے ریاست میں فساد برپا ہوگا ۔ کیا قانونی بنیاد پر ان کی گرفتاری انصاف پر مبنی ہے ۔ آپ کسی کو قید کر سکتے ہو ، اس کے خیالات کو نہیں ۔

ہوم ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان علیحدگی پسند رہنماؤں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کے وسائل کی بربادی ہے ،جن کا کہیں اور بہتر استعمال  ہوسکتا ہے۔اس سے پہلے جموں و کشمیر حکومت نے پلواما حملے کے بعد سخت قدم اٹھاتے ہوئے  کو 18 علیحدگی پسند رہنماؤں اور 155 رہنماؤں کا سکیورٹی کور ہٹا دیا تھا۔

ان میں سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے قریبی اور پی ڈی پی رہنما واحد پرا اور سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل بھی شامل ہیں۔ گیلانی، ملک، اسلام اور خان کے علاوہ اآغا سید موسوی، مولوی عباس انصاری اور ان کے بیٹے مسرور، سلیم گیلانی، ظفر اکبر بھٹ، مختار احمد وجا، فاروق احمد کچلو، آغا سید عبدالحسین، عبدالغنی شاہ اور محمد مصدق بھٹ کا بھی نام فہرست میں شامل ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)