فکر و نظر

بی ایس پی  کے ساتھ کم سیٹوں پر سمجھوتہ انتخاب سے پہلے ہی ایس پی کی ہار ہے

2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ایس پی اپنے قیام کے بعد سے سب سے کم سیٹوں پر لڑے‌گی۔ ایک طرح سے وہ بنا لڑے تقریباً 60 فیصد سیٹیں ہار گئی ہے۔ ایس پی کا بی ایس پی  سے کم سیٹوں پر انتخاب لڑنے کے لئے تیار ہو جانا حیران کرتا ہے۔

اکھلیش یادو، ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی (فوٹو : پی ٹی آئی)

اکھلیش یادو، ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی (فوٹو : پی ٹی آئی)

سماجوادی پارٹی (ایس پی) اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) نے اتحاد کے تحت 2019 کے لوک سبھا انتخاب کے لئے اپنی-اپنی سیٹوں کا اعلان کر دیا۔ سماجوادی پارٹی 37 سیٹوں پر تو بہوجن سماج پارٹی 38 سیٹوں پر انتخاب لڑے‌گی۔اجیت سنگھ کی پارٹی راشٹریہ لوک دل کے لئے 3 سیٹ اور کانگریس کے لئے 2 سیٹیں چھوڑی گئی ہیں۔

 سیٹوں کے اعلان کے فوراً بعد ایس پی کے رہنما  ملائم سنگھ یادو لکھنؤ واقع پارٹی دفتر پہنچے اور بیان دیا کہ ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان سیٹ بٹوارے کے فارمولے کو وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر حیرانی ظاہر کی کہ آخر ان کے بیٹے اور ایس پی صدر اکھلیش یادو اتنی کم سیٹوں پر کیسے مان گئے؟2014 کے لوک سبھا انتخابی نتیجوں کو دیکھیں تو اتر پردیش کی کل 80 میں سے 5 سیٹیں ایس پی نے جیتی تھی۔ بعد میں 2 سیٹیں گورکھپور اور پھول پور پر ہوئے ضمنی انتخاب میں بھی ایس پی نے جیت درج کر لوک سبھا میں اپنی سیٹوں کی تعداد 7 کر لی تھی۔

اس کے علاوہ وہ 31 سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہی تھی۔ دوسری طرف بی  ایس پی ایک بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی تھی لیکن 34 سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہی تھی۔ ایسے میں ایک بھی سیٹ پر جیت نہ درج کرنے والی  بی ایس پی کو 7 سیٹوں والی ایس پی سے اتحاد کے تحت زیادہ سیٹیں ملنا مایاوتی کے لئے انتخاب سے پہلے جیت کی طرح ہے۔

لگاتار کئی انتخابات میں بی ایس پی  کا مظاہرہ  کافی خراب رہا ہے ایسے میں اس کے لئے یہ اعداد و شمار آب حیات کی طرح ہے۔ دوسری طرف اکھلیش کے کم سیٹوں پر مان جانے سے ملائم  سنگھ کو جو حیرانی ہوئی ہے وہی حیرانی عام سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی ہو رہی ہے۔2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ایس پی اپنے قیام کے بعد سے سب سے کم سیٹوں پر لڑے‌گی۔ ایک طرح سے وہ بنا لڑے تقریباً 60 فیصد سیٹیں ہار گئی ہے۔

سماجوادی پارٹی کا قیام ملائم سنگھ یادو نے 4 اکتوبر 1992 کو کیا تھا اور 1996 میں پارٹی نے اپنے انتخابی نشان ‘ سائیکل ‘ پر پہلا لوک سبھا انتخاب لڑا تھا۔1996 سے 2014 تک کے لوک سبھا انتخابات میں اگر ایس پی اور بی ایس پی کے مظاہرہ کا موازنہ کریں تو تمام انتخابات میں ایس پی کا مظاہرہ بی ایس  پی سے بہتر رہا ہے۔1996 کے لوک سبھا انتخاب میں ایس پی نے 17 سیٹیں جیتی تھیں تو بی ایس پی کے کھاتے میں 11 سیٹیں آئی تھیں۔

 1998 میں ایس پی نے 20، بی ایس پی نے 5، 1999 میں ایس پی نے 26، بی ایس پی نے 14، 2004 میں ایس پی نے 35، بی ایس پی نے 19، 2009 میں ایس پی نے 23، بی ایس پی نے 20 اور 2014 میں ایس پی نے 5 سیٹیں جیتی تو بی ایس پی کو ایک بھی سیٹ نہیں مل سکی۔اس کے باوجود 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ایس پی کا بی ایس پی سے کم سیٹوں پر انتخاب لڑنے کے لئے تیار ہو جانا حیران کرتا ہے۔ ایس پی کے لئے یہ فیصلہ انتخاب سے پہلے ہی ہار ماننے جیسا ہے۔

اب راشٹریہ لوک دل کے صدر اجیت سنگھ کی بات کرتے ہیں۔ اجیت سنگھ سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے بیٹے بھی ہیں  اور وارث بھی۔چودھری چرن سنگھ اتر پردیش کے قد آور رہنما رہے ہیں اور قومی سطح پر کسانوں کے درمیان سب سے مقبول عام رہنما کے طور پر ان کا نام لیا جاتا ہے۔ چودھری چرن سنگھ نے بھارتیہ کرانتی دل نامی  سیاسی پارٹی بنائی تھی۔ اس پارٹی کے بینر تلے ہی چرن سنگھ انتخاب لڑے اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔

بعد میں چرن سنگھ کی پارٹی بھارتیہ کرانتی دل اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی سنیکت سوشلسٹ پارٹی کا انضمام ہوا اور نئی پارٹی بھارتیہ لوک دل بنی۔ ملائم  سنگھ اس پارٹی سے جڑے ہوئے تھے۔1977 میں جب بھارتیہ لوک دل کا جنتا پارٹی میں انضمام ہوا تو چرن سنگھ اس پارٹی کے صف اول کے رہنما میں تھے۔ چرن سنگھ کی سیاسی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنتا پارٹی نے بھارتیہ لوک دل کے انتخابی نشان ‘ ہل دھر کسان ‘ پر ہی لوک سبھا کا انتخاب لڑا تھا۔

چرن سنگھ کے انتقال کے بعد ملائم  سنگھ نے اپنی الگ پارٹی بنا لی اور اجیت سنگھ نے ان کی پارٹی کو سنبھال لیا۔ اپنے پورے سیاسی کیریئر میں اجیت سنگھ نے اتر پردیش کی تقریباً تمام پارٹیوں سے اتحاد کیا لیکن کسی بھی پارٹی نے ان کو 6 سے زیادہ سیٹیں نہیں دی۔اجیت سنگھ کی قیادت میں چرن سنگھ کی پارٹی کا مینڈیٹ لگاتار سمٹتا گیا۔ اب اجیت سنگھ باغپت اور متھرا کے جاٹوں کے رہنما رہ گئے ہیں۔

اکھلیش یادو اور مایاوتی نے بھی مہاگٹھ بندھن بناتے وقت ان کو زیادہ ترجیح نہیں دی اور صرف 3 سیٹیں ان کے لئے چھوڑی ہیں۔جس طرح اجیت سنگھ نے چرن سنگھ کی پارٹی راشٹریہ لوک دل کی بنیاد کو لگاتار کمزور کیا، ٹھیک اسی طرح اکھلیش نے بھی ملائم  سنگھ کی سماجوادی پارٹی کی بنیاد کو کمزور کیا ہے۔2012 کے اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں سماجوادی پارٹی نے 224 سیٹیں جیت‌کر مکمل اکثریت کی حکومت بنائی تھی۔

 اس انتخاب میں اکھلیش نے تشہیر کی کمان ضرور سنبھالی تھی لیکن پارٹی کی تمام حکمت عملی کے فیصلے ملائم  سنگھ اور ان کے بھائی شیوپال سنگھ نے لئے تھے۔ اس لئے اس جیت کا سہرا ملائم سنگھ کو ہی دینا ہوگا۔ایس پی نے 2014 کے لوک سبھا انتخاب اور 2017 کے اسمبلی انتخاب اکھلیش کی قیادت میں لڑا اور اب تک کی اپنی تاریخ میں سب سے برا مظاہرہ کیا۔ 2019 کا انتخاب بھی ایس پی اکھلیش کی ہی قیادت میں لڑنے جا رہی ہے اور پہلے ہی آدھی سے زیادہ سیٹیں ہار گئی۔

سیٹوں کے بٹوارے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ مایاوتی کے سامنے اکھلیش نے ایک طرح سے خود سپردگی کر دی ہے۔ اتحاد کی ضرورت مایاوتی کو زیادہ تھی اس لئے دباؤ میں ان کو ہی زیادہ ہونا چاہیے تھا۔سیٹوں کے انتخاب میں بھی مایاوتی  نے نسبتاً آسان سیٹیں لے لی ہیں۔ وارانسی، گورکھپور، کانپور، الٰہ آباد، فیض آباد، پیلی بھیت اور لکھنؤ جیسی   بی جے پی کا گڑھ مانی جانے والی سیٹیں ایس پی کو دے دی ہیں تو یوپی کی کل 17 ریزرو سیٹوں میں سے 10 سیٹیں اپنے پاس رکھ لی ہیں۔

 زیادہ تر شہری سیٹیں جن پر بی جے پی کی بنیاد مضبوط ہے ایس پی کے کھاتے میں گئی ہیں تو بی ایس پی نے اپنے لئے نسبتاً آسان دیہی سیٹیں چنی ہیں۔اگر 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ایس پی ہارتی ہے یا متوقع طورپر مظاہرہ نہیں کر پاتی ہے تو اگلے انتخاب میں اس کو اور بھی کم سیٹوں سے اطمینان کرنا پڑ سکتا ہے۔اس اتحاد میں ایس پی کو سب سے بڑا نقصان مسلم ووٹ کے تناظر میں ہو سکتا ہے۔

 اب تک مسلم ووٹ ایس پی کے ساتھ مستعدی سے کھڑے ہیں لیکن عام طور پر مسلم ووٹر اسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جو بی جے پی کو ہرانے کی حالت میں دکھتی ہے۔اب تک ایس پی ،بی جے پی کو ہرانے کی حالت میں دکھتی رہی ہے لیکن اگر مایاوتی مضبوط بن‌کر ابھریں تو مسلم ووٹر بہت آسانی سے بی ایس پی کی طرف کوچ‌کر جائیں‌گے۔

ایسے میں ایس پی کو صرف یادو ووٹ والی پارٹی مان لیا جائے‌گا اور اگلے اتحاد میں مین پوری، فیروز آباد، بدایوں، کنوج اور اعظم گڑھ سے زیادہ ایک بھی سیٹ کوئی نہیں دے‌گا جیسا کہ اجیت سنگھ کے ساتھ ہر اتحاد میں ہوتا ہے۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں ٹیچر ہیں۔)