فکر و نظر

رویش کا بلاگ: جو چینل ملک کی حکومت سے سوال نہیں پوچھ سکتے وہ پاکستان سے پوچھ رہے ہیں

نیوز چینلوں کی حب الوطنی سے ہوشیار رہیے۔ اپنی حب الوطنی پر بھروسہ کیجئے۔ جو چینل ملک کی حکومت سے سوال نہیں پوچھ سکتے وہ پاکستان سے پوچھ رہے ہیں۔ فوج اپنے جوانوں سے کہے کہ نیوز چینل نہ دیکھیں ورنہ گولی چلانے کی جگہ ہنسی آنے لگے‌گی۔

جنوبی کوریا میں ایوارڈ پروگرام میں  وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

جنوبی کوریا میں ایوارڈ پروگرام میں  وزیر اعظم نریندر مودی (فوٹو بشکریہ : پی آئی بی)

نیوز چینلوں میں جنگ کا مورچہ سجا ہے۔ ہیرو کو بکتر بند کئے جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ تبھی خبر آتی ہے کہ ہیرو جنوبی کوریا میں عالمی امن انعام لینے نکل پڑے ہیں۔منموہن سنگھ نے ایسا کیا ہوتا تو بی جے پی صدر دفتر میں پریس کانفرنس ہو رہی  ہوتی کہ جب ہمارے جوان مارے جا رہے ہیں تو ہمارے وزیر اعظم امن ایوارڈلے رہے ہیں۔چینل جنگ کا ماحول بناکر شاعروں  سے دربار سجا رہے ہیں اور وزیر اعظم ہیں کہ امن ایوارڈ لےکرگھر آ رہے ہیں۔ کہاں تو جیوتی بنے جوالا کی بات تھی، ماں قسم بدلہ لوں‌گا کا طوفان تھا لیکن آخر میں کہانی رام لکھن کی ہو گئی ہے۔ ون ٹو کا فور والی۔

مودی کو پتہ ہے۔ گودی میڈیا ان کے استعمال کے لئے ہے نہ کہ وہ گودی میڈیا کے استعمال کے لئے۔ ایک چینل نے تو اپنے پروگرام میں یہاں تک لکھ دیا کہ الیکشن ضروری ہے یا ایکشن۔جو بات افواہ سے شروع ہوئی تھی وہ اب گودی میڈیا میں سرکاری ہوتی جا رہی ہے۔ مودی کے لئے ماحول بنانے اور ان کو اس ماحول میں دھکیل دینے والے چینل ڈر کے مارے پوچھ نہیں پا رہے ہیں کہ مودی ہیں کہاں۔ وہ ریلیاں کیوں کر رہے ہیں، جھانسی کیوں جا رہے ہیں، وہاں سے آکر جنوبی کوریا کیوں جا رہے ہیں، جنوبی کوریا سے آکرگورکھپور کیوں جا رہے ہیں؟

جنگ کی دکان سجی ہے، للکار ہے مگر جنگ نہ کرنے کے لئے پھٹکار نہیں ہے! وزیر اعظم کو پتہ ہے کہ گودی میڈیا کے پالتو صحافیوں کی اوقات۔ جو اینکر ان سے دو سوال پوچھنے کی ہمت نہ رکھتا ہو، اس کی للکار پر مورچے پر جانے سے اچھا ہے وہ جنوبی کوریا کی راجدھانی سی اول چلے گئے۔چینلوں میں ہمت ہوتی تو یہی پوچھ لیتے کہ یہاں ہم چلاچلا کر گلے سے گولا داغے جا رہے ہیں اور آپ ہیں کہ امن ایوارڈلے رہے ہیں۔ آپ کہیں رویش کمار کا پرائم ٹائم تو نہیں دیکھنے لگے۔

اسکرال ویب سائٹ پر روہن وینکٹ راماکرشنن کی رپورٹ سبھی کو پڑھنی چاہیے۔ قاری اور صحافی دونوں کو۔ روہن نے اس مسئلے پر سرکاری ذرائع کے حوالے سے الگ الگ اخباروں میں چھپی صفائی کی خبروں کو لےکر چارٹ بنایا ہے، جس سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس کس بات کے الگ الگ ورژن ہیں، کون-کون سی بات تمام رپورٹ میں ایک ہے۔یہ طے ہے کہ وزیر اعظم نے پلواما حملے کے دو گھنٹے بعد رودر پور کی ریلی کو فون سے خطاب کیا تھا اور اس میں پلواما حملے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ اپنی حکومت کی کئی اسکیموں کو گنایا۔ اس بات پر میڈیا میں چھپی تمام رپورٹ میں اتفاق ہے۔

روہن نے دوردرشن کی کلپنگ کا سہارا لیتے ہوئے بتایا ہے کہ وزیراعظم نے پانچ بج کر دس منٹ پر فون سے ریلی کو خطاب کیا تھا اتنا بڑا حملہ ہونے پر وزیراعظم ہی ریلی کر سکتے تھے۔ اس خطاب میں موسم کے سبب نہ آ پانے کا دکھ تو ہے مگر پلواما میں مارے گئے جوانوں کے لیے دُکھ نہیں ہے۔اسکرال نے لکھا ہے کہ اس ایک بات کے علاوہ تمام میڈیا میں ہر بات کے الگ الگ دعوے ہیں۔ مقامی اخباروں میں چھپی رپورٹ کی بنیاد پر کانگریس نے الزام لگائے ہیں۔

ٹیلی گراف اخبار سے اتراکھنڈ کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے اور دہلی میں کئی صحافیوں کو سرکاری ذرائع نے بریف کیا ہے۔ ان کی خبروں کی تفصیل ہے۔چوتھا اکانومکس ٹائمس میں جمعہ کو چھپی ایک خبر ہے۔ تو چار طرح کے ورژن ہیں۔ کانگریس کا الزام ہے کہ حملہ ہونے کے بعد مودی 6 بج‌کر 45 منٹ تک ڈسکوری چینل اور اپنی تشہیر کے لئے شوٹنگ کرتے رہے۔ موٹربوٹ پر سیر کرتے رہے۔

اتراکھنڈ کے بےنام افسر نے کہا ہے کہ مودی نے حملے سے پہلے بوٹ کی سواری کی، لیکن حملے کے گھنٹے بھر بعد وہ جنگل سفاری پر گئے۔ اپنے فون سے کالے ہرن کی تصویر لی۔ وہاں سے وہ کھنولی گیسٹ ہاؤس گئے جہاں 4 بج‌کر30 منٹ تک شوٹنگ ہوتی رہی۔ حملے کا وقت 3:10 بتایا جاتا ہے۔نامعلوم سرکاری ذرائع نے بتایا کہ رودر پور ریلی ردکر دی۔ وہاں نہیں گئے اور فون سے خطاب کیا۔ اس کے بعد انہوں نے قومی سلامتی صلاح کار، وزیر داخلہ، جموں و کشمیر کے گورنر سے بات کی۔ کچھ نہیں کھایا۔

ایک سینئر افسرکے  حوالے سے خبر چھپی ہے کہ مودی نے رودر پر کی ریلی ردکر دی کیونکہ وہ فون پر جانکاری لےکر تجزیہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد ریلی کو فون سے خطاب کیا۔اسکرال نے لکھا ہے کہ الگ الگ ورژن ہیں۔ کون سا بالکل صحیح ہے بتانا مشکل ہے۔ سوال کا جواب نہیں ملتا ہے کہ وزیر اعظم حملے کے بعد تک ڈسکوری چینل کی شوٹنگ کرتے رہے یا نہیں۔ جانکاری ملنے کے بعد بھی شوٹنگ کی یا حملے سے پہلے شوٹنگ ہو چکی تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ سرکاری ذرائع نے کہا کہ خراب موسم کی وجہ سے وزیر اعظم تک صحیح وقت پر اطلاع نہیں پہنچی۔ یہ بات نہ پچتی ہے اور نہ جچتی ہے۔ریلی کرنے لائق فون کا سگنل تھا تو اسی سگنل سے ان تک بات پہنچ سکتی ہے۔ سمندر کے اوپر اڑ رہے بیچ آسمان میں ان کے جہاز پر اطلاع پہنچ سکتی ہے تو دہلی کے پاس رودر پور میں اطلاع نہیں پہنچے‌گی یہ بات بچوں جیسی لگتی ہے۔وزیر اعظم کا پروگرام طے ہوتا ہے اس لئے ان کے پروگرام کے اتنے ورژن نہیں ہونے چاہیے۔ لیپا-پوتی کی کوشش ہو رہی ہے۔

دوسری بی جے پی نے ہی ماحول رچا ہے کہ غم کا وقت ہے۔ سب کو اپنا راشٹرواد زور زور سے بول‌کر ظاہر کرنا ہوگا۔ تب اس تناظر میں سوال اٹھنے لگے‌گا کہ حملے کے واقعہ کے بعد تک شوٹنگ کیسے ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم ریلی کیسے کر سکتے ہیں۔آگے کے لئے آپ اسکرال سائٹ پر روہن کی پوری رپورٹ پڑھ سکتے ہیں۔ گودی میڈیا کے لئے پی ایم کی شوٹنگ کرنا کوئی سوال نہیں۔ اب اس نے نتن گڈکری کا بیان تھام لیا ہے۔ وہی پاکستان کو پانی روکنے کا بیان۔

انہوں نے بھی حکمت عملی کے تحت پرانی خبر ٹوئٹ کر دی۔ 2016 کے فیصلے کو ٹوئٹ کیا تو یہی بتا دیتے کہ کتنا پانی روکا۔ لیکن حقیقت سے کسی کو کیا مطلب۔ پاکستان پر آبی یلغار، پانی-پانی کو ترسے‌گا پاکستان جیسےنعروں سے چینلوں پر ویر رس‌کے نغمے بجنے لگے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان پانی نہیں روکے‌گا۔ اپنے حصے کا پانی پاکستان جانے سے روکنے کے لئے اس کو کئی ڈیم بنانے ہیں۔ ایک کی تعمیر شروع ہوئی ہے۔ دو کے بننے پر فیصلہ لینا ہے۔ جب بنے‌گا تبھی پانی روک پائے‌گا۔ تو پاکستان پر آبی یلغار نہیں ہوا ہے۔

ہندوستان اپنے حصے کا ہی پانی روک رہا ہے نہ کہ پاکستان کو پانی روک رہا ہے۔ چینلوں نے پاکستان کے نام پر ہندوستان کے ناظرین پر ہی جھوٹ کے گولے داغ رکھے ہیں۔ حملے میں ناظر زخمی ہے۔ اچھا کیا وزیر اعظم نے عالمی امن انعام عوام کے نام کر دیا۔ اس عوام میں وہ عوام بھی ہے جو دن رات پلواما کے بعد راشٹروادکی آڑ میں سیاسی ماحول بنا رہی ہے۔

امن انعام لےکر عوام کنفیوز ہے۔ ماحول بنانے والے کارکنان کو رات میں بلوایا گیا کہ چلو، آؤ اور ایئر پورٹ پر وزیر اعظم کا استقبال کرو۔ وہ امن ایوارڈجیت‌کر آ رہے ہیں۔ ایئر پورٹ کے راستے پوسٹر بھی لگا دئے گئے۔24 فروری کو گورکھپور میں وزیر اعظم کسان سمان اسکیم کا افتتاح کرنے والے ہیں۔ اتراکھنڈ حکومت نے تمام ضلعوں میں حکم جاری کیا ہے کہ ضلع اور بلاک سطح پر کسانوں کو جلسہ گاہ میں بٹھا کر سیدھا ٹیلی کاسٹ دکھانا ہے۔ عوامی نمائندہ بھی شامل ہوں‌گے۔

اس کے لئے ضلعی سطح پر 25000 روپے اور بلاک لیول پر 10000 روپے خرچ کی منظوری دی گئی ہے۔ آپ حساب لگائے کہ اکیلے اتراکھنڈ میں عوام کا 10سے12 لاکھ روپیہ پانی میں بہہ جائے‌گا۔ہندوستان میں 6400اضلاع ہیں اور 5500 کے قریب بلاک ہیں۔ صرف اسی پر 7 کروڑ سے زیادہ کی رقم خرچ ہو جائے‌گی۔ ہم نہیں جانتے کہ گورکھپور کے جلسہ کے لئے کتنا پیسہ خرچ کیا گیا ہے۔ اسی گورکھپور کے او بی سی اورایس سی  کے طالب علم روز میسیج کرتے ہیں کہ ان کو وظیفہ نہیں مل رہا ہے۔ غریب طالب علموں کو پڑھنے میں دقتیں آ رہی ہیں۔

نیوز چینلوں کی حب الوطنی سے ہوشیار۔ اپنی حب الوطنی پر بھروسہ کیجئے۔ جو چینل ملک کی حکومت سے سوال نہیں پوچھ سکتے وہ پاکستان سے پوچھ رہے ہیں۔ فوج کے اچھے بھلے افسر بھی ان پروگراموں میں جاکر پروپیگنڈہ کا شکار ہو رہے ہیں۔مجھے امید ہے کہ فوج اپنی حکمت عملی اور اپنے وقت سے کارروائی کا فیصلہ لے‌گی۔ فوج اپنے جوانوں سے کہے کہ نیوز چینل نہ دیکھیں۔ ورنہ گولی چلانے کی جگہ ہنسی آنے لگے‌گی۔ چینلوں کے جوکروں کو دیکھ‌کر مورچے پر نہیں نکلنا چاہیے۔ جئے ہند۔

(یہ مضمون  رویش  کمار کےفیس بک پیج پر  شائع ہوا ہے۔)