فکر و نظر

کوری جذباتیت نہیں، حوصلے اور حکمت سے جیتی تھی اندرا نے 71 کی جنگ

پاکستان کو اس طرح کراری شکست سے دو چار کر دینے پر تب حزبِ اختلاف میں صفِ اول کے قائد اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو ’ابھینو چنڈی دُرگا‘ کا لقب دیا۔ واجپائی کے ذریعہ دیے گئے اس لقب نے کانگریس کی وزیر اعظم کو ایک عظیم شخصیت کی شکل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

20 اگست 1975 کو این بی سی کے ' میٹ دی پریس پروگرام میں اندرا گاندھی (فوٹو : پی آئی بی)

20 اگست 1975 کو این بی سی کے ‘ میٹ دی پریس پروگرام میں اندرا گاندھی (فوٹو : پی آئی بی)

اب جبکہ کچھ ٹی وی چینل نے پاکستان کے خلاف مانو جنگ کا بگل بجا ہی دیا ہے تو یہ بہتر ہوگا کہ اپنے بالغ نظر قارئین کے لیے 1971 کی جنگ سے جڑی کچھ باتوں کا ذکر کر لیا جائے۔1971 کی ہند وپاک جنگ میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے صبر اور حوصلے سے کام لیا، جس کی بدولت انہوں نے نہ صرف یہ جنگ جیت لی، بلکہ بہت حکمت کے ساتھ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم بھی کر دیا۔ اس تقسیم سے جو نیا ملک بنگلہ دیش وجود میں آیا، وہ پاکستان کی 60 فیصدی سے زیادہ آبادی پر مشتمل تھا۔

مشرقی پاکستان سے آنے والے ایک کروڑ سے زیادہ پناہ گزینوں  کا بار جھیلتے ہوئے اندرا گاندھی نے کئی سطحوں پر منصوبہ بندی کی۔ انہوں نے ہندوستانی افواج کے سربراہان کو تیاریوں کے لیے پوری آزادی کے ساتھ معقول وقت دیا اورتمام  ضروری  وسائل مہیا کرائے۔ ان کی صرف ایک شرط تھی کہ یہ جنگ مختصر ہونی چاہیے تاکہ اسے لے کر بین الاقوامی سطح کی کوئی الجھن نہ کھڑی ہو اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کو اس میں دخل اندازی کا موقع مل سکے۔

اصلی جنگ 3 دسمبر 1971 کو شروع ہوئی، لیکن اس سے مہینوں پہلے 27 مارچ 1971 کو لوک سبھا میں انہوں نے کہہ دیا تھا کہ’اس طرح کے نازک موقعہ پر، سرکار کم ہی بولتی ہے۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ یہی بہتر طریقہ ہے۔’اُسی دن انہوں نے راجیہ سبھا میں کہا،’ایک غلط قدم، ایک غلط لفظ کا اثر پوری طرح اس سے مختلف ہو سکتا ہے، جیسا کہ سوچا گیا تھا۔’

مارچ سے اکتوبر 1971 تک چھ ماہ سے کچھ زیادہ اندرا گاندھی مسلسل سرگرم رہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی لیڈران کو خطوط بھیج کر ہندوستانی سرحدوں کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ ماسکو گئیں نیز جرمنی، فرانس، برٹین، بیلجیم اور امریکہ کا 21 روزہ دورہ کیا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان میں جنرل ٹِکّا خان کے ذریعے ڈھائے جا رہے ظلم و ستم کے خلاف دنیا بھر میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔

 انہوں نے عوامی لیگ کو کلکتہ کے قریب ایک جِلا وطن سرکار قائم کرنے کی اجازت تو دے دی، لیکن اسے کسی بھی طرح کا باضابطہ درجہ دینے سے منع کر دیا۔ جب بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی بات پر حزبِ اختلاف کی نشستوں سے زیادہ شور شرابہ ہونے لگا تو اندرا نے اگست 1971 میں کہا کہ، ‘ملک میں کچھ لوگ ہیں جو بنگلہ دیش کی راجدھانی کے معاملے میں جلدبازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں…یہ ایسے غیر ذمہ دارانہ قدم اٹھانے کا وقت نہیں ہے… سرکار (بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے متعلق) تمام پہلوؤں کا باریکی سے جائزہ لے کر اس بابت کوئی فیصلہ کرے گی۔’

1970 اور 1971 کے دوران پاکستان میں خانہ جنگی چلتی رہی، جس میں ملک کی کثیر آبادی والے مشرقی حصے کا نظام مغربی حصے کے سول و فوجی افسران چلاتے رہے، وہ افسران جو بنگلہ زبان و تہذیب نیز وہاں کے رسم و رواج سے سخت نفرت کرتے تھے۔ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمان جب پارلیامنٹ کی 313 سیٹوں میں سے 169 سیٹیں جیت گئے تو وزیر اعظم کے دفتر نے اس فتح کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کے فوجی تاناشاہ جنرل یحیٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کر کے ملک کے مشرقی حصے میں مارشل لاء لگا دیا۔ آزاد مبصرین کا اندازہ ہے کہ اس پوری ہنگامہ آرائی کے دوران تقریباً تین سے پانچ لاکھ لوگ مارے گئے۔ بنگلہ دیش سرکار کے مطابق یہ تعداد تیس لاکھ ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ریپ کو جنگی ہتھیار کے طور پر پہلی بار بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی کے دوران استعمال کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ بنگلہ خاتون اس دوران جنسی تشدد کا نشانہ بنائی گئیں۔

نوبت یہ آن پہنچی کہ مُکتی واہنی نے بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی کے لیے گوریلا جنگ چھیڑ دی۔ جگہ جگہ حملے ہوئے۔ ریلوے لائنس اور پُل خاص طور سے نشانہ بنائے جانے لگے۔ اس آندولن کو دبانے کے لیے پاکستان کی فوج نے وحشیانہ طریقے اپنائے۔ اندرا نے مناسب وقت کا انتظار کیا، یہاں تک کہ یحیٰ خان و ٹِکّا خان نے آپا کھو دیا۔ 3 دسمبر 1971 کو بھڑکانے والے اقدام کرتے ہوئے انہوں نے پہل کر دی اور سری نگر سے باڑمیر تک آٹھ فضائی فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

 پڑوسی ملک کے اس حملے نے اندرا کو جنگ میں پہل کرنے کے الزام سے بچا لیا۔ اُس دن وہ کلکتہ میں تھیں۔ حملوں کی خبر ملتے ہی وہ قوم سے خطاب کرنے کے لیے فوراً دہلی پہنچیں۔ اپنی متوازن و ٹھہری ہوئی آواز میں ملک کے باشندوں کو انہوں نے مطلع کیا،’جنگ ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔’ اس کے تین دن بعد ہی اندرا نے بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک کی بری، فضائی و بحری فوج نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔ وشاکھاپٹنم بندرگاہ کے نزدیک غازی نام کی آبدوز کو غرقاب کر دیا گیا۔ وہیں کراچی پر حملے جیسا حیرت انگیز قدم اٹھایا گیا۔

مدبرانہ حکمت عملی اور بلند حوصلگی کے ساتھ لڑی جا رہی اس جنگ میں ہندوستان کی فتح یقینی تھی کہ اس بیچ امریکہ نے دخل اندازی کی کوشش کی۔ اس نے اپنا ساتواں بحری بیڑہ بنگال کی کھاڑی کی طرف روانہ کر دیا۔ اندرا اعتماد و خاموشی کی تصویر بنی ہوئی تھیں۔ چین نے اس معاملے سے خود کو دور رکھا جبکہ روس (اس وقت سویت یونین) نے امریکی جنگی بیڑے کا مقابلہ کرنے کے لیے والڈی ووسٹوک سے اپنا بحری بیڑہ روانہ کر دیا۔


یہ بھی پڑھیں: جو چینل ملک کی حکومت سے سوال نہیں پوچھ سکتے وہ پاکستان سے پوچھ رہے ہیں


 تیرہ دن کی لڑائی کے بعد 16 دسمبر کو جنگ کا نتیجہ آ گیا۔ پاکستان کے کمانڈر جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے ڈھاکہ میں ہتھیار ڈال دیے اور اپنا سروس ریوالور انڈین لیفٹیننٹ جنرل جے ایس ارورہ کے سپرد کر دیا۔فتحیاب ہونے کے بعد اندرا نے فوراً ہی جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے دنیا کے سامنے اسے بخوبی واضح کیا کہ ہندوستان کی خواہش نہ علاقوں پر قبضہ کرنے کی ہے، نہ بدلہ لینے کی اور نہ ہی اپنی حکمرانی پھیلانے کی۔ 1971 کی پوری جنگ کے دوران انہوں نے اپنے فوجی کمانڈرس کو پوری اہمیت و توجہ دی اور کسی بھی طرح کا قدم جلدبازی میں یا جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں اٹھایا گیا۔

پاکستان کو اس طرح کراری شکست سے دو چار کر دینے پر تب حزبِ اختلاف میں صفِ اول کے قائد اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو ‘ابھینو چنڈی دُرگا’ کا لقب دیا۔ واجپائی کے ذریعہ دیے گئے اس لقب نے کانگریس کی وزیر اعظم کو ایک عظیم شخصیت کی شکل دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اندرا گاندھی نے بعد میں اپنی دوست اور ان کی سوانح نگار پُپُل جیکر کے سامنے قبول کیا کہ ‘پوری جنگ کے دوران اور اس سے قبل بھی انہیں کسی روحانی طاقت کے ساتھ ہونے کا احساس ہوتا رہا ہے، جس کے تحت انہیں عجیب طرح کے تحربات بھی ہوتے رہے۔’

1971 کی یہ فتح کئی معنوں میں بہت اہم تھی۔ مشرقی پاکستان کی پوری آبادی پاکستانی افواج اور حکمرانوں کی سخت مخالف ہو گئی تھی، سو اس پوری آبادی نے مکتی واہنی کا کھلے دل سے استقبال کیا۔ اس وقت پورا ملک اندرا گاندھی کے ساتھ کھڑا تھا۔ مثال کے طور پر سید شہاب الدین، جنہیں مسلم دانشوران کے بیچ حکمراں طبقے کا ایک سخت ناقد سمجھا جاتا تھا، وہ بنگلہ دیش کی تعمیر کے اعلانیہ حمایتی ہو گئے۔ وہ اس وقت ہندوستان کے محکمہ خارجہ سے وابستہ تھے۔ اس وقت تو ٹھیک وہ بعد میں بھی یہ بات لکھتے رہے کہ 1971 کا سال ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بہت بارآور تھا۔

1971کے بعد پہلی بار ہندوستانی مسلمانوں کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ پاکستان سے انہیں کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ وہاں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، کیونکہ پاکستان کا خود کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس سے متفق تھے اور ہیں کہ انہیں اپنا تمام سفر، ان کے اپنے ملک ہندوستان میں ہی طے کرنا ہے۔

یہ الفاظ لکھتے ہوئے سید شہاب الدین نے یہ بھی لکھا کہ “اس حقیقت سے واقفیت ہندوستانی مسلمانوں کو نہ صرف راہِ راست پر گامزن رکھے گی بلکہ انہیں اس کا حوصلہ بھی دے گی کہ وہ اپنے مسائل خود حل کرنے کے لیے اپنی مدد آپ کے اصول پر اٹھ کھڑے ہوں۔” شہاب الدین کے مطابق بنگلہ دیش کی تعمیر نے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ حوصلہ بھی دیا کہ وہ ملک کی سیاست کے اہم حصے کی شکل میں خود کو پیش کر سکیں۔ 1971 سے پہلے وہ عموماً خاموشی اختیار کرنا پسند کرتے تھے۔ یہ 1971 کا ہی ثمرہ ہے کہ وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرنے لگے اور ہندوستان کی قومی سیاست کا حصہ ہو گئے۔

(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )