فکر و نظر

ناسک بھساول کیس: بے گناہوں کو انصاف ملنے میں 25 سال کیوں لگے؟

یہ مقدمہ کسی فلمی کہانی سے کم نہیں کیوں کہ اس مقدمہ کی تفتیش قانون کے مطابق کیے جانے کے بجائے ، انتہائی من مانے طریقہ سے کی گئی جیسے سب ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 153, 120Bکا اطلاق کیا گیا اور پھر اس کے بعد اچانک ٹاڈا قانون کی دفعات 3(3), (4), (5) 4(1), 4 لگا دی گئیں۔

فوٹو :

فوٹو : جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی گروپ )

6 دسمبر 1992 کا دن سیکولرہندوستان کے ماتھے پر ایک کلنک ہے ، اسی دن عدالت عظمیٰ کے تمام احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شرپسندوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد پورے ملک میں مسلم کش فسادات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا جو برسوں جاری رہا اور اس دوران ہزاروں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا اور خواتین ولڑکیوں کی عزتوں کو تار تار کیا گیا بچوں کو یتیم کیا گیا۔

مسلمانان ہند فسادات سے اپنے آپ کو محفوظ کرپاتے کہ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات اور بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں جو برسوں جاری رہیں ، گرفتاریوں کے بعد مسلم نواجوں کے خلاف ٹاڈا، پوٹا، مکوکا، یو اے پی اے جیسے کالے قوانین کا اطلاق کرکے ان کی اور ان کے اہل خانہ کی زندگی اجیرن بنائی گئی۔

ایسے ہی ایک دہشت گردانہ معاملات میں گرفتار11 مسلم نوجوانوں کو جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی گروپ )نے قانونی امداد فراہم جس کی بدولت انہیں 25سالوں کے طویل انتظار کے بعد انصاف حاصل ہو ا حالانکہ انہیں اس انصاف کی مہنگی قیمت چکانی پڑی،25 سال ان کی زندگی کے کورٹ کے چکر لگاتے ہوئے کٹے۔اس مقد مہ میں بطور معاون وکیل دفاعی وکلاء کی ٹیم میں راقم الحروف بھی شامل ہے جس نے مقدمہ کی سماعتوں پر ممبئی سے ناسک جاکر ملزمین کا دفاع کیا۔

جس وقت 25 مئی1995 کو11 ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اس وقت بندہ کی عمر محض 8 سال تھی جبکہ اس مقدمہ میں بطور ریسرچر(Researcher)اپنی خدمات انجام دینے والی ایڈوکیٹ ہیتالی سیٹھ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔ اسی طرح سینئر کریمنل وکیل شریف شیخ ، ایڈوکیٹ انصار تنبولی، ایڈوکیٹ متین شیخ، ایڈوکیٹ رازق شیخ، ایڈوکیٹ محمد ارشد نے اپنی ابتدائی تعلیم کے مراحل میں تھے ۔

یہ مقدمہ کسی فلمی کہانی سے کم نہیں ہے کیوں کہ اس مقدمہ کی تفتیش قانون کے مطابق کیے جانے کے بجائے ، انتہائی من مانے طریقہ سے کی گئی جیسے سب ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 153, 120Bکا اطلاق کیا گیا اور پھر اس کے بعد اچانک ٹاڈا قانون کی دفعات 3(3), (4), (5) 4(1), 4 لگا دی گئیں۔ حالانکہ ہڑبڑاہٹ میں تحقیقاتی ایجنسی نے ملزمین کے خلاف ٹاڈا قانون کا اطلاق کردیا لیکن اسے ملزمین کے خلاف پانچ سالوں تک کوئی ثبوت نہیں ملا جس کی وجہ سے اس نے ٹاڈا عدالت میں چارج شیٹ داخل نہیں کی ۔

پانچ سالوں تک چارج شیٹ کا انتظار کرنے کے بعد جب استغاثہ عدالت میں چارج شیٹ داخل نہیں کرسکا تو ملزمین نے ہائی کورٹ سے رجوع کیااور ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ آیا اگر استغاثہ کو ان کے خلاف کوئی ثبوت ہاتھ لگا ہے تو چارج شیٹ داخل کی جائے یا پھر ان کے خلاف قائم مقدمہ کو ختم کردیا جائے۔بالآخر 5 فروری1999 کو استغاثہ نے جیسے تیسے ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کردی۔

اسی درمیان ٹاڈا قانون کے تحت گرفتار یوں پر روک لگانے اور ٹاڈا قانون ختم کرنے کی آواز پور ے ملک سے بلند ہونے لگی جس کے بعد حکومت ہند نے فیصلہ کیا کہ ٹاڈا قانون لگانے سے قبل ‘ریویو کمیٹی’ جائزہ لے گی اور ریویو کمیٹی کی سفارشات اور مشوروں کے مدنظر فیصلہ کیا جائے گا۔ریویو کمیٹی نے اس مقدمہ کا باریک بینی سے جائزہ لیااور مقدمہ کا تفصیل سے مطالعہ کرنے کے بعد حکومت سے سفارش کی کہ انہیں ملزمین کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہیں ملا ہے لہذا انہیں ڈسچارج کردینا چاہئے ۔

ریویو کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ریاستی حکومت نے نچلی عدالت سے درخواست کی کہ ملزمین کو مقدمہ سے ڈسچارج کردیا جائے لیکن نچلی عدالت نے حکومت کی درخواست 23 مئی 2003 کومسترد کردیا جس سے ملزمین کو شدید ذہنی چوٹ پہنچی کیونکہ ریویو کمیٹی کی سفارشات کی وجہ سے ملزمین کو اطمینان ہوچکا تھا کہ ان کے اوپر سے دہشت گردی کا الزام صاف ہوجائے گا لیکن نچلی عدالت کے فیصلہ نے انہیں چونکا دیا۔

نچلی عدالت کے فیصلہ کے بعد مقدمہ کئی سال تک التواء کا شکار رہا اور بالآخر17 مارچ 2012 کو عدالت نے ملزمین کے خلاف ٹاڈا قانون اور تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت چار ج فریم کیے  جانے کا حکم جاری کیا ، نچلی عدالت کے چارج فریم کیے جانے والے فیصلہ کے خلاف ملزمین نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی جس کی سماعت چار سالوں تک چلتی رہی ہے اس درمیان مقدمہ پر اسٹے لگا رہا ۔9 نومبر2016 کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے نچلی عدالت کے چارج فریم کیے جانے والے فیصلے کوجائز قرار دیتے ہوئے ناسک ایڈیشنل سیشن عدالت جسے ٹاڈا قانون کے تحت قائم مقدموں کی سماعت کاا ضافی اختیار دیا گیا تھا کو حکم دیا کہ وہ ایک سال کے اندر ٹرائل کوختم کرے اور ملزمین کو حکم دیا کہ نچلی عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کریں ۔

عدالت عظمیٰ کے حکم کے مطابق ٹرائل شروع ہوئی اور استغاثہ نے ملزمین کے خلاف گواہی دینے کے لیے7 سرکاری گواہان کو عدالت میں پیش کیا جس میں سے تین گواہ منحرف ہوگئے اور بقیہ چار گواہوں کی گواہیاں نا قابل قبول قرار پائیں کیونکہ ان کی گواہیوں میں اتنا تضاد تھاکہ عدالت نے انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس معاملے میں پانچ ملزمین سے تحقیقاتی افسران نے جبراً اقبالیہ بیان حاصل کیا تھا لیکن ملزمین کے اقبالیہ بیان کا اندراج کرنے والے پولیس افسر کا انتقال ہوجانے کی وجہ سے استغاثہ عدالت میں یہ ثابت نہیں کرسکا کہ ملزمین کا اقبالیہ بیان رضا کارانہ تھا ۔

ایک دیگر سرکار ی گواہ جو پہلے اس معاملے میں ملزم تھا (اسے پولیس نے لالچ اور اس پر دباؤ بناکر اسے ملزمین کے خلاف گواہی دینے کے لیے راضی کیا تھا )نے دوران چیف ایکزامینشن عدالت کو بتایا کہ ملزمین نے بھساول میں واقع گھوڑے پیر بابا کی درگاہ کے احاطہ میں ایک خفیہ میٹنگ کی تھی جس کے دوران بابری مسجد کی شہادت کا ہندوؤں سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا گیا تھالیکن جب اس سے دفاعی وکیل شریف شیخ نے جرح کی تو اس نے اعتراف کیا کہ اس پر پولیس نے ملزمین کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کا دباؤ بنایا تھا اور اس سے جھوٹے بیانات حاصل کیے تھے ۔

یہ سرکاری گواہ اس معاملے کا اہم یعنی کے اسٹار گواہ تھا لیکن اس کی گواہی کو بھی عدالت نے قبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ وہ خود اس معاملے میں ملزم تھا اوراس نے اسی شرط پر ملزمین کے خلاف گواہی دی تھی کہ پولیس اسے رہا کردےگی۔اسی طرح ٹاڈا قانون کے اطلاق کے لیے ضروری خصوصی اجازت نامہSanction دینے والے افسر کی گواہی سے بھی یہ ثابت ہوا کہ اس نے بجائے اپنی ذہانت کا استعمال کرنے کے پولیس کی سفارشات پر ملزمین کے خلاف ٹاڈا قانون لگانے کی اجازت دےدی جو غیر آئینی ہے۔

اس معاملے میں گواہی دینے والے آخری سرکاری گواہ (جس نے اعلیٰ پولیس افسر ایس پی سوریہ کانت جوگ کی ہدایتوں کے مطابق اقبالیہ بیان ٹائپ کیا تھا) کی گواہی عمل میں آئی لیکن اس کی گواہی سے یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ اقبالیہ بیان رضاکارانہ تھا ۔ حالانکہ ٹاڈا قانون کی دفعہ15 کے مطابق پولیس افسر کے سامنے دیا گیا اقبالیہ بیان قابل قبول قرارد یا گیا ہے لیکن سپریم کورٹ نے کرتار سنگھ فیصلہ میں اقبالیہ بیان کے تعلق سے رہنمایانہ اصول مرتب کیے تھے جس کی خلاف ورزی پر اقبالیہ بیان کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔حالانکہ اس معاملے میں اقبالیہ بیان دینے والے پانچوں ملزمین اپنے بیانات سے منحرف ہوچکے تھے اور انہیں اقبالیہ بیان کا غیر ارادی پولیس کے دباؤ میں دیا گیا اقبالیہ بیان قرارد یا تھا جسے نچلی عدالت نے قبول بھی کیا۔

اس مقدمہ کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں اے پی آئی رینک کے ایک آفیسر نے تحقیقات کی تھی حالانکہ اس کو تحقیقات کرنے کا حق ہی نہیں تھا اس کے باوجود قانون کو بالائے طاق رکھ کر ملزمین کو پھنسایا گیا ۔اس معاملے میں تحقیقاتی دستوں کی جانب سے ملزمین سے حاصل کیا گیا اقبالیہ بیان کبھی عدالت کے ریکارڈپر لایا ہی نہیں گیا بلکہ دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمین نے اقبالیہ بیان دیا تھا۔

دوران تعلیم ہم نے پڑھا اور سنا تھا Mockery of Justice (انصاف کا مذاق) یہ مقدمہ اس کا واضح ثبوت ہے کیونکہ 11ملزمین 25سالوں تک انصاف کا انتظار کرتے رہے ۔اسی طرح Justice Delayed is Justice Denied (تاخیر سے ملنے والا انصاف، انصاف نہ ملنے کے مترادف ہے) نیز Abuse of Law (قانون کا بے جا استعمال) بھی اس مقدمہ میں دیکھنے کو ملا کیوں کہ اس مقدمہ پر ٹاڈا قانون کا اطلاق ہوتا ہی نہیں تھا نیز ملزمین کو جس تنظیم کا رکن بتایا گیا تھاوہ تنظیم حکومت ہند کی جانب سے ڈ کلئیر کردہ ممنوع تنظیموں کی فہرست میں تھی ہی نہیں بلکہ ایک خیالی نام پولیس نے تخلیق کیا تھااور ملزمین کو اس کا ممبر بتایا تھا تاکہ ان پر ٹاڈا قانون کا اطلاق کیا جاسکے۔

حالانکہ ملزمین جمیل احمد عبداللہ خان، محمد یونس محمد اسحاق، فاروق خان نذیر خان، یوسف خان گلاب خان، ایوب خان اسماعیل خان، وسیم الدین شمش الدین، شیخ شفیع شیخ عزیز، اشفاق سید مرتضیٰ میر، ممتاز سید مرتضی ٰمیر، محمد ہارون محمد بفاتی اور مولانا عبدالقدیر حبیبی کو گرفتاری کے چار ماہ بعد ضمانت حاصل ہوگئی تھی لیکن ملزمین کو جس تنظیم(بھساول الجہاد ) کا رکن بتایا گیا تھا وہ تنظیم حکومت ہند کے مطابق ممنو ع نہیں تھی اور آج تک اس تنظیم کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

اس کے باوجود ملزمین پر مقدمہ قائم کیا گیا جو پچیس سالوں تک چلتا رہا اور ملزمین کو ملک کے مختلف حصوں سے ناسک پہنچ کر عدالت کی کارروائی میں حصہ لینا پڑا، عدالت نے دوران سماعت ملزمین کو کسی بھی طرح کی راحت نہیں دی، اگر ملزمین کسی دن تاخیر سے عدالت پہنچتے یا نہیں پہنچ پاتے تو ان کے خلاف عدالت وارنٹ جاری کردیتی تھی اور پھر بعد میں اس وارنٹ کوکینسل کرانا پڑتا تھا ، دوران سماعت عدالت سےغیر حاضر رہنے والے ملزمین کو عدالت نے وارننگ دی تھی کہ اگر وہ عدالت میں تاریخوں پر حاضر نہیں ہوئے تو ان کی ضمانتیں کینسل کردی جائیں گی اور انہیں دوبارہ جیل میں جانا پڑسکتا ہے۔

انگریزوں نے ڈیڑ ھ صدی تک ہندوستان پر حکومت کی اور ان کی نظروں میں مجاہدین آزادی کسی دہشت گرد سے کم نہیں تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی ٹاڈا،پوٹا، مکوکا، یو اے پی اے جیسا سخت قانون نہیں بنایا لیکن اسی کے دہائی سے ہندوستان میں خصوصی قوانین کے عمل میں آنے کا سلسلہ شروع ہواجو بدستور جاری ہے ، ایک جانب جہاں عوام کے احتجاج اور حقوق انسانی کے لیے سرگرم تنظیموں کے اعتراضات کے بعد ٹاڈا، پوٹا جیسے قوانین کو ختم کیا گیا تو اس سے سخت مکوکا، یو اے پی اے قوانین کو نافذ کیا گیا ۔

اب وقت آگیا ہےکہ خصوصی قوانین اور ان قوانین کے ذریعہ دیئے گئے پولیس کو خصوصی اختیارات سلب کیے جائیں جس کا وہ غلط استعمال کرکے بے گناہوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ اور یہ بھی انصاف کا تقاضہ  ہےکہ مقدمات وقت پر فیصل ہوں تاکہ بے گناہوں کو وقت پر انصاف مل سکے اور جو حقیقی مجرم ہیں انہیں وقت پر سزا دی جاسکے۔ دنیا بھر میں ڈیجیٹل انقلا ب آیا لیکن ہندوستانی عدالتی نظام آج تک اس انقلاب سے مستفید نہیں ہوسکا جس طرح یورپین ممالک اور امریکہ نے اس کا فائدہ اٹھایا اور اپنے عدالتی نظام کو اپ ڈیٹ کیا۔

سالوں تک چلنے والی مقدمات کی سماعت میں ججوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا بلکہ جو پوراعدالتی نظام ہے وہی مفلوج ہے ۔ حکومت ہند کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ، حالانکہ گزشتہ ایک دہائی سے عدالتی نظام میں سدھار آیا ہے لیکن جس تناسب میں مقدمات رجسٹر ڈ ہوتے ہیں اور زیر سماعت مقدمات کے فیصل ہونے کی رفتار میں زمین آسمان کا فرق ہے ، یہ وجہ ہےکہ ایک مقدمہ کو اختتام پذیر ہونے میں 25 سال لگ گئے۔

(شاہد ندیم حقوق انسانی کے وکیل اور جمعیت علماہند،مہاراشٹر لیگل ایڈ کمیٹی کے قانونی معاون ہیں۔ )