خبریں

آدیواسیوں کو زمین سے بےدخل کرنے کے اپنے حکم پر سپریم کورٹ نے لگائی روک

سپریم کورٹ میں داخل اپنے حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے کہا کہ قانون کے تحت اصل میں دعووں کا خارج ہونا آدیواسیوں کو بےدخل کرنے کی بنیاد نہیں ہے۔ قانون میں ایسا کوئی اہتمام نہیں ہے جس کی بنیاد پر دعویٰ کے خارج ہونے کے بعد کسی کو بےدخل کیا جائے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو 13 فروری کے اپنے اس حکم پر روک لگا دی جس میں اس نے ملک کے قریب 21 ریاستوں کے 11.8 لاکھ سے زیادہ آدیواسیوں اور جنگل میں رہنے والے دیگر لوگوں کو جنگل کی زمین سے بےدخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ دراصل، یہ لوگ ایس ٹی اور دیگر روایتی ونواسی (جنگل حقوق کی پہچان)قانون، 2006 کے تحت ونواسی کے طور پر اپنے دعویٰ کو ثابت نہیں کر پائے تھے۔

لائیو لا ءکے مطابق، جسٹس ارون مشرا کی صدارت والی بنچ نے ریاستوں کو ہدایت دی کہ وہ جنگل حق قانون کے تحت خارج کئے گئے دعووں کے لئے اپنایا گیا لائحہ عمل اور احکام کو پاس کرنے والے افسروں کی جانکاری دیں۔ اس کے ساتھ ہی بنچ نے یہ جانکاری بھی مانگی کہ کیا قانون کے تحت ریاستی سطح نگرانی کمیٹی نے لائحہ عمل کی نگرانی کی۔بنچ نے ریاستوں کو یہ جانکاریاں جمع کرنے کے لئے چار مہینے کا وقت دیا۔ اس کے ساتھ تب تک کے لئے 13 فروری کے اپنے حکم پر روک لگا دی۔ بنچ اس معاملے میں اب 30 جولائی کو آگے غور کرے‌گی۔

عدالت بدھ کو 13 فروری کے اپنے حکم پر روک لگانے کے لئے مرکز ی حکومت کی عرضی  پر غور کے لئے متفق ہو گئی تھی۔ عدالت نے اس حکم کے تحت 21 ریاستوں سے کہا تھا کہ قریب 11.8 لاکھ ان آدیواسیوں کو بےدخل کیا جائے جن کے دعوے خارج کر دئے گئے ہیں۔بنچ نے مختصر سماعت کے بعد کہا، ہم اپنے 13 فروری کے حکم پر روک لگا رہے ہیں۔ بنچ نے کہا کہ آدیواسیوں کو بےدخل کرنے کے لئے اٹھائے گئے تمام اقدامات کی تفصیل کے ساتھ ریاستوں کے اہم سکریٹریوں کو حلف نامہ داخل کرنے ہوں‌گے۔

مرکز نے 13 فروری کے حکم میں اصلاح کی گزارش کرتے ہوئے عدالت سے کہا، ‘ایس ٹی اور دیگر روایتی ونواسی (جنگل حقوق کی پہچان) قانون، 2006 فائدہ دینے سے متعلق قانون ہے اور بےحد غریب اور ناخواندہ لوگوں، جن کو اپنے حقوق اور قانونی عمل کی جانکاری نہیں ہے، کی مدد کے لئے اس میں فیاضی اپنائی جانی چاہیے۔ ‘مرکز نے اپنے حلف نامہ میں کہا، ‘وہ وقت وقت پر ریاستی حکومتوں کے ذریعے قانون کی تکمیل کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس نے دیکھا کہ قانون کو غلط طریقے سے تشریح کرنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں دعووں کو خارج کر دیا گیا۔

گرام سبھاؤں میں دعوے داخل کرنے کے عمل کو لےکر بیداری کی کمی ہے۔ کئی معاملوں میں دعویٰ کرنے والوں کو ان کے دعوے خارج کئے جانے کی وجہ نہیں بتایا گیا اور وہ اس کے خلاف اپیل نہیں کر پائے۔ ‘مرکزی حکومت نے بڑی تعداد میں دعووں کو خارج کئے جانے کی اپنی تشویش کو لےکر پچھلے کچھ سالوں میں ریاستوں کو بھیجے گئے اپنے خطوط کا ذکر بھی کیا۔ اس نے ان واقعات کا بھی ذکر کیا جہاں  افسر اپیل کا موقع دئے بنا ہی آدیواسیوں کو بےدخل کرنے کا حکم دے دیتے تھے۔

حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے کہا،قانون کے تحت اصل میں دعووں کا خارج ہونا آدیواسیوں کو بےدخل کرنے کی بنیاد نہیں ہے۔ قانون میں ایسا کوئی اہتمام نہیں ہے جس کی بنیاد پر دعویٰ کے خارج ہونے کے بعد کسی کو بےدخل کیا جائے۔ ‘اس سے پہلے 13 فروری کے اپنے حکم میں بیچ نے ریاستوں کو وارننگ دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ان سبھی کو 24 جولائی یا اس سے پہلے جنگل کی زمینوں سے بےدخل کیا جائے جن کے دعوے خارج ہو گئے ہیں۔ عدالت نے کہا تھا کہ اگر ان کو بےدخل کئے جانے کا کام شروع نہیں کیا جاتا ہے تو وہ اس کو سنجیدگی سے لے‌گی۔

عدالت نے آندھر پردیش، آسام، بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، کرناٹک، کیرل، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اڑیسہ، راجستھان، تمل ناڈو، تلنگانہ، تریپورہ، اتراکھنڈ، اتر پردیش اور مغربی بنگال کے چیف سکریٹریوں کو یہ بتانے کے لئے بھی کہا تھا کہ جن کے دعوے خارج ہو گئے ہیں ان کو ان کی زمین سے بےدخل کیوں نہیں کیا گیا۔

آدیواسی معاملات کے وزیر کو اس مہینے کی شروعات میں بھیجے گئے ایک خط میں، حزب مخالف جماعتوں اور زمینی حقوق کے کارکنان کے گروہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ہند نے قانون کا بچاؤ نہیں کیا ہے۔خط میں کہا گیا تھا، پچھلی تین سماعت میں-مارچ، مئی اور دسمبر 2018 میں-مرکزی حکومت نے کچھ نہیں کہا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ13 فروری کو ہوئی آخری سماعت کے دوران کورٹ میں سرکاری وکیل موجود ہی نہیں تھے۔

واضح ہو کہ اس سے پہلے دی وائر نے قبائلی معاملوں کی وزارت کے ذریعے جمع اعداد و شمار کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کورٹ کے حکم کی وجہ سے 10 کی جگہ تقریباً 20 لاکھ آدیواسی اورجنگل میں رہنے والی  فیملی متاثر ہو سکتے ہیں۔وہیں وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے خط میں، سابق راجیہ سبھا رکن پارلیامان اور  برندا کرات نے بھی کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے متاثر لوگوں کی کل تعداد بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ چونکہ 42.19 لاکھ دعووں میں سے صرف 18.89 لاکھ دعووں کو منظور کیا گیا ہے، باقی 23.30 لاکھ دعوے دار کو حکم کی وجہ سے بےدخل کیا جائے‌گا۔ انہوں نے مودی سے آدیواسیوں اور ونواسیوں کی حفاظت کے لئے فرمان منظور کرنے کی گزارش کی تھی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)