خبریں

ممتا بنر جی نے کہا؛ شہادت پر سیاست نہیں، لیکن ملک جاننا چاہتا ہے کہ بالا کوٹ میں کیا ہوا تھا

مغربی بنگا ل کی وزیر اعلیٰ نے کہا ، اس ملک میں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بالا کوٹ میں کتنے دہشت گرد مارے گئے ؟ حقیقت میں بم کہاں گرایا گیا؟ کیا وہ نشانے  پر گرا تھا ؟ ہمیں یہ جاننے کا حق ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بالا کوٹ میں انڈین ایئر فورس کی ایئر اسٹرائک پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ، جوانوں کی زندگی انتخابی سیاست سے زیادہ قیمتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ملک کو یہ جاننے کا حق ہے کہ پاکستان کے بالا کوٹ میں انڈین ایئر فورس کے ہوائی حملے کے بعد حقیقت میں کیا ہوا؟

ممتا بنرجی نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ، ہوائی حملے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ 300 سے 500 دہشت گرد مارے گئے ہیں ۔ حالاں کہ میں واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمس میں ایسی خبریں پڑھی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کوئی مارا نہیں گیا ۔ ایک اور غیر ملکی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں صرف ایک شخص کے زخمی ہونے کی بات کی ہے۔

مغربی بنگا ل کی وزیر اعلیٰ نے کہا ، اس ملک میں لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بالا کوٹ میں کتنے دہشت گرد مارے گئے ؟ حقیقت میں بم کہاں گرایا گیا؟ کیا وہ نشانے  پر گرا تھا ؟ ہمیں یہ جاننے کا حق ہے۔انہوں نے وزیر اعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایئر اسٹرائک کے بعد وزیر اعظم مودی نے ایک بھی آل پارٹی میٹنگ نہیں کی ، ہم اس آپریشن کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں ۔ یہ ہمارا حق ہے۔

قابل ذکر ہے کہ پاکسانی سرحد میں انڈین ایئر فورس  کی کارروائی  اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کیے جانے کے بعدہندوستانی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ایئر فورس کے جنگی طیاروں نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے اور اس حملےمیں 300 دہشت گرد مارے گئے ہیں ۔ میڈیا کے بر عکس حکومت ہند کے سکریٹری خارجہ نے اپنے بیان میں بالا کوٹ واقع دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی تصدیق توکی تھی لیکن یہ واضح نہیں کیا تھا کہ اس کارروائی کتنے دہشت گردوں کی جان گئی۔

اس حملے کے بعد سے ہی دہشت گردوں کی ہلاکتوں کی تعداد کو لے کر سوال اٹھائے جارہے تھے ،اور یہ پوچھا جارہا تھا کہ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے۔ بین الاقوامی خبررساں ایجنسی اے ایف پی  نے بالا کوٹ  کے مقامی لوگوں سے بات چیت کی ہے اور اس حملے کے بارے میں جانکاری حاصل کی ہے۔ خبررساں ایجنسی کے مطابق، لوگوں نے دیر رات کم سے کم 4 دھماکوں کی آوازیں سنی تھیں ، لیکن ان دھماکوں سے کافی کم نقصان ہوا۔ ایجنسی کے مطابق، بالا کوٹ میں رہنے والے 25 سالہ افضل کا کہنا ہے کہ ، پاس  میں ایک گھر ہے جس کی دیوار دھماکے سے گر گئی  اور ایک شخص کو معمولی چوٹیں آئیں۔

قابل ذکر ہے کہ پاکستانی فوج صحافیوں کو حملے والی جگہ پر لے کر گئی ۔ اے ایف پی کا کہنا ہے کہ اس کے رپورٹر نے وہاں دھماکے سے بنے تقریباً 6 فٹ گہرا اور اتنا ہی چوڑا گڑھا دیکھا ۔ اس کے علاوہ دو پیڑ دیکھے جو آدھے کٹے ہوئے تھے اور نزدیک ہی بنے مٹی کے تین گھروں میں ایک کی دیوار گر گئی تھی ۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں بڑی تعداد میں دہشت گردوں کی ہلاکت کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔


یہ بھی پڑھیں: بالا کوٹ حملہ: 300 دہشت گردوں کے مارے جانے کی حقیقت کیا ہے؟


غور طلب ہے کہ بی بی سی اردو نے اپنی ایک رپورٹ میں  متاثرہ علاقے کے ایک باشندے شفیق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دن ‘تین بجے انتہائی خوفناک دھماکہ ہوا۔ ایک نہیں بلکہ تقریباً پانچ دھماکے ہوئے اور اس سے سارا علاقہ لرز اٹھا، یہ انتہائی شدید دھماکہ تھا ہم سب لوگ اٹھ کر بیٹھ گئے تھے۔ وقتی طورپرتو پتہ نہیں چلا لیکن اب پتہ چلا ہے کہ کنگڑ نامی علاقے میں کچھ مکان وغیرہ گرے ہیں۔’

اس نے مزید بتایا کہ ،’پھر اس کے بعد ہمیں جہاز کی آواز آئی۔ پانچ دس منٹ بعد اس کی آواز بند ہو گئی۔ پھر اس کے بعد ہمیں اپنی طرف سے آوازیں آئیں۔ جب ہم صبح وہاں گئے جہاں بہت بڑا گڑھا پڑا ہوا تھا۔ درخت بھی تھے اور چار پانچ مکان بھی تباہ ہوئے۔ ایک بندہ بھی ہے جو زخمی ہوا ہے۔’بی بی سی نے اس باشندے کے ساتھ بات چیت کی ویڈیو بھی جاری کی ہے۔

اس کے علاوہ بین الاقوامی خبررساں ایجنسی رائٹرس نے اپنی گراؤنڈ رپورٹ میں صرف ایک شخص کے زخمی ہونے کی بات کہی ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ میڈیا اور حزب اقتدار کے سیاسی رہنماؤں کی طرف سے کیے  گئے دعووں کی  بنیاد اور اس کا مقصد کیا ہے۔ یہ سوال ایسے میں اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب پاکستان اس حملے میں کسی بھی طرح کے جانی اور مالی نقصان سے انکار کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے  کہ وہ حملے کی جگہ پر بین الاقوامی میڈیا کو لے جاکر دکھانا چاہتا ہے کہ وہاں کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)