فکر و نظر

اداریہ: اب ہندوپاک کو آپسی کشیدگی کم کرنے پر زور دینا چاہیے

پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زمین پر پنپ رہی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قدم اٹھائے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے ایسا نہ کرنے کی صورت میں بات چیت کی تجویز سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان (السٹریشن: دی وائر)

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان (السٹریشن: دی وائر)

پاکستان کے بالاکوٹ میں جیش محمد کے خلاف ہندوستان کی’نان ملٹری’ ملٹری کارروائی اور اس کے بدلے میں پاکستان کے راجوری میں بم گرانے کی’بنا بدلے کے جذبہ ‘ کی کارروائی نے دونوں ممالک کو آمنے سامنے لاکر کھڑا کر دیا ہے۔یہاں سے ایک غیرمتعینہ اور خطرناک راستہ ایسی منزل کی طرف جاتا ہے جہاں دونوں فریقوں  میں سے کوئی نہیں پہنچنا چاہے‌گا۔ دوسری طرف کشیدگی کو کم کرنے کا اختیار ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس  اختیار کا انتخاب کریں۔

ہندوستان اور پاکستان کا اپنےاپنے جنگی طیاروں کو کھونا اور ایک ہندوستانی پائلٹ کا پاکستان کی حراست میں پہنچنا کسی مسلح جدو جہد کی غیر متوقع صورت  کو دکھاتا ہے۔پائلٹ کو جلدہی رہا کرکے ہندوستان کو سونپ دیا گیا۔ ان کا لوٹنا ہندوستان کے لئے ایک موقع ہے کہ وہ اپنی بےوجہ کی بیان بازی میں تبدیلی لائے اور اس کے مطابق پچھلے تین دنوں کی دہشت گردی کے خلاف اس کی کارروائی کا جو بھی حاصل ہے، اس کو آگے بڑھانے کا ڈپلومیٹک راستہ  تلاش کریں۔

ملٹری آپریشن کےحکمت عملی کی سطح پر تو فائدے ہو سکتے ہیں لیکن یہ سوچنا بیوقوفی ہے کہ اکیلے اسی کی طاقت پر دہشت گردی کے مسئلہ سے نپٹا جا سکتا ہے۔ آزادی کے بعد سے ہندوستان نے پاکستان سے چار جنگ لڑی ہیں لیکن ملک کی سیاسی اورفوجی قیادت کے مقاصد ہمیشہ واضح تھے-ان لڑائیوں کے لئے بھی، جو انہوں نے شروع نہیں کیں۔

Urdu-Editorial1

مثال کے طور پر کارگل کے وقت مقصد پاکستانی دراندازوں کو ہندوستانی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) میں آنے والے علاقوں سے باہر نکالتے ہوئے ایل او سی کی تقدیس کویقینی بنانا تھا۔دہشت گردی کا خاتمہ ہندوستان کی پالیسی کا ایک جائز مقصد ہے، لیکن صرف ٹی وی پر آنے والے جنونی اور جنگ پسند اینکر اور گرم دماغ والے ریٹائر فوجی افسروں کو یہ لگتا ہے کہ ایسا کرنے کے لئے کشیدگی/دباؤ کوبڑھانا ہی ایک راستہ ہے، بالاکوٹ ایئراسٹرائک جس کا پہلا قدم تھا۔

نریندر مودی حکومت، جس نے حد سے زیادہ راشٹرواد کی چنگاری کو ہوا دی اور اس کا سیاسی فائدہ لینے کی کوشش کی، کو اس مسئلے پر بہتر سیاسی فیصلے کے لئے اس طرح کی  غیرذمہ دارانہ بیان بازیوں کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔سرکاری اسٹینڈ یہی ہے کہ’بات چیت اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ لیکن اس فارمولہ کے برعکس کچھ نہیں ہے-بات چیت نہیں لیکن دہشت پھر بھی بنی ہے، جیسا ہم گزشتہ کچھ سالوں میں دیکھ ہی چکے ہیں۔

اور چونکہ یہ مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ ڈر بھی بنا ہوا ہے کہ رہنما اس بات پر یقین کرنے لگیں‌گے کہ دہشت کو ختم کرنے کا واحد راستہ جنگ ہی ہے۔ جبکہ دہشت گردی سے لڑنے کے لئے بنیادی طور پر ملٹری ذرائع کے استعمال کی حدود اور خطروں کے بارے میں دنیا بھر میں کافی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں، ہندوپاک کے بارے میں بھی خطرہ واضح ہے۔

پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی زمین پر پنپ رہی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قدم اٹھائے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے جیش محمد اور دوسروں  کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھانے کی صورت میں ان کی بات چیت کی تجویز سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔