خبریں

سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت نے کہا-دہشت گردی کی وجہ سے عوام کےکمپیوٹر کی نگرانی ضروری

مرکزی حکومت نے کہا،یہ ضروری ہے کہ قانونی انٹرسیپشن(نگرانی)کی درخواست کا معاملہ مجلس عاملہ کےافسروں کے ذریعے دیکھا جانا چاہیے تاکہ فیصلہ لینے میں تیزی اور مستعدی برقرار رکھی جا سکے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکز نے جمعہ کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ شہریوں کےکمپیوٹر کی نگرانی کرنے اور ان کے ذاتی پیغامات تک رسائی  کے لئے ایجنسیوں کو حکومت کی طرف سے دیا گیا حکم ملک کے واجب مفاد اور دہشت گردی جیسے خطروں کو دیکھتے ہوئے دیا گیا ہے اور اس سےپرائیویسی کے حق  کی پامالی نہیں ہوتی۔سپریم کورٹ کی رجسٹری میں داخل اپنے حلف نامہ میں مرکزی وزارت داخلہ نے ان پی آئی ایل کو خارج کرنے کی مانگ کی جن میں مرکز کے 20 دسمبر 2018 کے ایک نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن میں 10 مرکزی ایجنسیوں کو حقوق دئے گئے تھے کہ وہ سبھی کے کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا پر نظر رکھ سکیں۔ حکومت نے کہا تھا کہ کمپیوٹر کی نگرانی کسی مستند ایجنسی کے ذریعے کی جائے‌گی۔

وزارت داخلہ نے اپنے حکم کے تحفظ میں کہا،’دہشت گردی، شدت پسندی، سرحد پار دہشت گردی، سائبر کرائم، منظم جرائم اور نشیلی اشیا سے متعلق  تنظیموں سے ملک کو درپیش  خطرات  کو کم کرکے نہیں دیکھاجا سکتا اور نہ ہی ان کو نظر اندازکیا جاسکتا ہے۔قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے مقابلے کے لئےسگنل انٹلی جنس سمیت کارروائی کئے جانے لائق پختہ خفیہ اطلاعات وقت پر جمع  کرنا بہت ضروری ہے۔ ‘حکومت نے کہا، اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ملک کا واجب مفاد ہے۔ لہذا، یہ ضروری ہے کہ قانونی انٹرسیپشن(نگرانی)کی درخواست کا معاملہ مجلس عاملہ کےافسروں کے ذریعے دیکھا جانا چاہیے تاکہ فیصلہ لینے میں تیزی  اور مستعدی کو برقرار رکھا جا سکے۔ ‘

عدالت نے اس معاملے میں 14 جنوری کو مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت جمعہ کو اس معاملے پر سماعت نہیں کر سکی کیونکہ چیف جسٹس رنجن گگوئی اپنے رشتہ دار اور دہلی  ہائی کورٹ کے جج جسٹس والمیکی مہتہ کی اچانک موت کی وجہ سے موجود نہیں تھے۔وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں 10 ایجنسیوں کو کمپیوٹر کی نگرانی کرنے، اس کی تفتیش، اس میں موجود ڈیٹا، اطلاعات اور دستاویز وغیرہ کو حاصل کرنے، فون یا دیگر کمپیوٹر ذرائع میں جمع کوئی بھی جانکاری حاصل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔

جن ایجنسیوں کو یہ حقوق دئے گئے، ان میں خفیہ بیورو، نارکوٹکس کنٹرول بیورو، ای ڈی، سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکس، مالیہ خفیہ ڈائریکٹوریٹ، سی بی آئی، این آئی اے، کابینہ سیکریٹریٹ اور سگنل خفیہ ڈائریکٹوریٹ اور دہلی پولیس کمشنر شامل ہیں۔اس سے پہلے مرکزی وزارت داخلہ نے 10 حفاظتی اور خفیہ ایجنسیوں کو اطلاعاتی ٹکنالوجی قانون، 2000 کے تحت کسی کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا کو حاصل کرنے کا حق دینے کی وجوہات کا انکشاف کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس اطلاع کو انتہائی خفیہ قرار دیا تھا۔

ایک آر ٹی آئی کے جواب میں وزارت نے کہا تھا کہ اس کو انتہائی خفیہ اطلاع کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور اس کا انکشاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کو آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8 (1) (اے)، 8 (1) (جی) اور 8 (1) (ایچ) کے تحت چھوٹ حاصل ہے۔وینکٹیش نایک نام کے ایک شخص نے آر ٹی آئی کے ذریعے ان تمام سرکاری ریکارڈوں کی کاپی مانگی تھی جن میں 10 حفاظتی اور خفیہ ایجنسیوں کو یہ حقوق دئے جانے کی وجوہات کا ذکر ہو۔ انہوں نے کہا تھا، ‘ میں نے کسی خاص کمپیوٹر کے بارے میں اطلاع نہیں مانگی تھی، جو دسمبر 2018 کے حکم میں درج فہرست 10 ایجنسیوں میں کسی کے ذریعے تفتیش کی جا رہی ہو۔ ‘

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)