فکر و نظر

جموں و کشمیر: جماعت اسلامی پرپابندی کتنی صحیح ؟

اپنے ردعمل میں جماعت اسلامی کشمیر نے اس پابندی کو غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی قرار دے کر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

فوٹو : وسیم نبی

فوٹو : وسیم نبی

لیتہ پورہ پلواما میں 14فروری کو خودکش بم حملے کے ایک ہفتہ بعدجب سرکار نے کشمیر میں جماعت اسلامی پر کریک ڈاون کر کے تقریباََ چار سو جماعت کارکنوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھاتو اس بات کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ مرکزی سرکار الیکشن سے قبل ریاست میں سیاسی سطح پر کچھ بڑا کرنے کاارادہ رکھتی ہے۔ یہ ابہام 28 فروری کی شام کو ختم ہوا۔ مرکزی وزارت داخلہ نے انتہا پسندی اور ملٹنسی کو فروغ دینے اور ملک دُشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں جموں و کشمیر میں سب سے بڑی سماجی و مذہبی جمیعت جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی ہے۔اپنے ردعمل میں جماعت اسلامی کشمیر نے اس پابندی کو غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر اخلاقی قرار دے کر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مصر میں مسلم بردرہوڈ کی طرز پر 1941 میں اسلامی مفکر اور فلسفی مولانا ابوالاعلی مودودی کی طرف سے اسلامی سیاسی تحریک کے نظریے پر بنائی گئی یہ جماعت اسلامی تواریخ کی ایسی پہلی جدید جماعت ہے جو اس یقین پر بنائی گئی کہ سیاست کے لیے اسلامی شریعت ضروری ہے اور سیکولرزم اور قوم پرستی مغربیت کا اثر ہے۔

جماعت اسلامی اور کشمیر

سال 1947 میں ملک کی تقسیم کے بعداسلامی تحریک کی یہ جمیعت جماعت اسلامی پاکستان اور جماعت اسلامی ہندوستان، دو حصوں میں بٹ گئی۔ ہندوستان میں اپنا جمہوری نظام رائج ہونے کے بعد 1952 میں کشمیر میں جماعتِ اسلامی کی کشمیر ونگ کا قیام عمل میں لایاگیاجس کا آئین کشمیر میں اس کے بانی ارکان مولانہ اہرار اور غلام رسول عبداللہ نے تشکیل دیا ۔ سال 1953میں اس کا آئین مکمل ہونے کے بعد کشمیر میں صادالدین تارابلی اس کے پہلے امیر بنے جنہوں نے اِسے ریاست میں سب سے بڑی مذہبی اور سماجی جماعت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ریاست بھر میں جماعت کے اپنے فلاحی ادارے اورسکول قائم ہوئے۔

کشمیر کے سماجی اور مذہبی منظرنامے پر بڑے پیمانے پر اُبھرنے کے بعد جماعت نے اپنے نظریے کو آگے لانے پر پہلی بار سال 1970کی دہائی میں قومی انتخابات لڑے مگر جماعت کو کراری شکست ہوئی جس پرجماعت نے انتخابات میں دھاندلیوں کا الزام لگایا ۔ 1972کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں جماعت کو پانچ سیٹوں پر کامیابی تو ملی مگر جماعت لیڈران نے ایک بار پھر انتخابات میں دھاندلیوں کا الزام لگایا۔

سال 1975 میں جب شیح محمد عبداللہ اور اندراگاندھی کے درمیان دہلی ایکارڈ ہوا اور شیح عبداللہ کو ریاست کا وزیرِاعلیٰ بنایا گیا توجماعتِ اسلامی نے اپنا موقف بدل کر کشمیریوں کو حقِ خود اِرادیت دینے کی وکالت کی اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ نیشنل کانفرنس نے کشمیری عوام کے مفادات کو کُرسی کی خاطر ہندوستان کو بیچ دیا ہے۔ سال 1963 میں جب درگاہ حضرتبل سے موئے پاک  کا  پُر اسرار طور غائب ہوا، اس کی بازیابی کی لئے جماعت نے تحریک شروع کی۔

عوامی ساخت بنانے کے لیےاس نے جموں میں مسلمانوں کے قتلِ عام ، بربریت، انتخابات میں دھاندلیوں کے مدعوں کو سامنے لایا۔ ان مدعوں کے بیچ، ریاست میں اس کی مقبولیت کافی حد تک بڑھ گئی۔ 1975 میں ملک میں ایمرجنسی نافذ ہونے کے بعد ریاست میں جماعت پر پابندی لگائی گئی اور اس کے کارکُنوں کو جیلوں میں بند کیا گیا۔ ایمرجنسی کے  دو برس بعد 1977 کے عام انتخابات میں جماعت کو محض ایک نشست پر کامیابی ملی۔

ریاست میں اپنی ساخت بناچُکی جماعتِ اسلامی کی تحریک اُس وقت پہلی بار خونی ثابت ہوئی جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں تختہ پلٹ کر وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا۔ کشمیر میں یہ تاثر بنا کہ جنرل ضیاء الحق کو جماعتِ اسلامی کی پُشت پناہی حاصل تھی۔ کشمیر میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے جن میں جماعت کی کروڑوں روپے مالیت کی املاک اور ہزاروں کارکُنوں کے گھروں کو نذرِآتش کیا گیا۔ جماعت نے نیشنل کانفرنس اور دیگر حریف مذہبی تنظیموں پر ان فسادات کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔

فسادات سے اُبھرنے کے بعد جماعت نے ایک بار پھر 1983 کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا مگر اس بار بھی اِسے کراری شکست ہوئی۔ جماعت نے ایک بھی سیٹ پر کامیابی نہ ملنے پر انتخابات مین دھاندلیوں کا الزام لگایا۔ لگاتار 30 برس تک سیاسی میدان میں اکثر شکست کھانے کے بعد جماعت نے 1987کے اسمبلی انتخابات میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کو حمایت دے کر الیکشن لڑا جسے 43میں سے محض چار سیٹوں پر کامیابی ملی۔ اس الیکشن میں کشمیر میں آج کے سب سے  قد آور علحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے اپنی سیٹ پر کامیابی حاصل کی ،مگر جماعت نے اس بار بھی غیر متوقع نتائج پر الیکشن میں بھاری دھاندلیوں کا الزام لگا کر بالآخر انتخابات سے کنارہ کشی اختیارکر لی۔ یہ دھاندلیاں اسے ہضم نہیں ہوئیں۔

اس الیکشن میں سرینگر کے امیرا کدل حلقے سے جماعت کے سرینگر ضلع کے امیر محمد یوسف شاہ نے بھی الیکشن ہارا ۔ وہ سرحد پار کر کے پاکستان میں حزبُ المجاہدین میں شامل ہوا اور وہاں جنگی تربیت حاصل کی۔ یوسف شاہ کو آج دنیا حزبُ المجاہدین کے چیف سید صلاح الدین کے نام سے جانتی ہے ۔ حزبُ المجاہدین پُر امن عوامی تحریک کو بے سُود مگربندوق اور عسکریت کو ہی کشمیر مسئلے کا واحد حل مانتی ہے۔

سید صلاح الدین کے پاکستان سے ہندوستان کے خلاف مسلح آرائی کو کشمیر مسئلے کا واحد حل قرار دینے کے اعلان پر 1990میں سینکڑوں کشمیری نوجوان سرحد پار پاکستان جنگی تربیت کیلئے گئے اور یوں کشمیر میں باضابطہ مسلح آرائی شروع ہوئی جس نے اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد کی جان لی ہے۔ مسلح آرائی کے اس دور میں جماعت کے سینکڑوں کارکُن مارے گئے اور ملٹنسی کی حمایت پر جماعت پر ایک بار پھر پابندی لگی۔ 1990 کی دہائی میں مسلح اخوان کے ہاتھوں جماعت کے کئی نامور لیڈروں سمیت درجنوں کارکنوں کو جاں بحق کیا گیا۔

یہ جماعت کے لیےسب سے خونی دورثابت ہوا۔ اس قتل و غارت اور اخوانی دباؤکے بعد جماعت نے بالآخر 1996کے اسمبلی انتخابات کے دوران باضابطہ طور حزبُ المجاہدین سے لاتعلقی کا اعلان کیا مگر جماعت پر 2002اور2008 میں مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی کو درپردہ حمایت دینے کا الزام لگا۔ سال 2002 میں حریت کانفرنس کے مختلف دھڑوں میں بٹنے کے بعد جماعت قیادت نے گیلانی کی حریت کانفرنس کی حمایت کی مگر دونوں جماعتوں کے بیچ کئی بار اختلافِ رائے کی خبریں آتی رہیں۔ بالآخر 2015میں جماعت نے خود کو حریت سے الگ کرنے کا اعلان کیا۔

پابندی کیوں؟

اگرچہ جماعت نے خود کو مسلح آرائی اور شورش سے دُور قرار دیا ہے مگر سیکورٹی ایجنسیوں کو یہ خدشہ ہے کہ جماعت کشمیر میں ملی ٹنسی اور تخریبی کاروائیوں کی پُشت پناہی کر رہی ہے اور کشمیر میں ملک دشمن ذہنیت کو بھی بڑھاوا دے رہی ہے۔ سیکورٹی ذرائع کے مطابق سال2016 میں بُرہان وانی کے مارے جانے کے بعد کشمیر میں مہلوک ملی ٹنٹوں کے جنازوں میں عوام کی بھاری شرکت کے رُجحان کو بڑھتا دیکھ جماعت کے کارکنوں نے اپنی حکمتِ عملی کے تحت جنازوں سے خطاب کرنا شروع کیا۔

فوٹو : وسیم نبی

فوٹو : وسیم نبی

سیکورٹی ذرائع کے مطابق جماعت کے کارکنوں کے ان جنازوں پر شعلہ انگیز اور ملک دشمن بیانات سے ملی ٹنسی کو کافی ہوا لگی ہے اور ریاست میں علحدگی پسندی کے پھیلنے کا اندیشہ ہے، مگر جماعت قیادت کے مطابق وہ محض فلاحِ عامہ اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دے رہے ہیں ۔ جماعت کے تازہ بیان کے مطابق سرکار کا یہ قدم نہ صرف پُرامن تحریک کو دبانے کی کوشش اور انسانی حقوق اور جمہوری قدروں کی خلاف ورزی ہے بلکہ یاست کی اس سب سے بڑی سماجی و مذہبی جماعت سے محض انتقام گیری اور سرکار کی جابرانہ بوکھلاہٹ ہے۔

ریاست میں سیاسی ردعمل

 جماعتِ اسلامی پر پابندی پر ریاست میں سخت سیاسی ردعمل ظاہر ہورہا ہے ۔ ریاست کی بڑی سیاسی جماعتوں نے جماعتِ اسلامی پر پابندی کی سخت نُکتہ چینی کرتے ہوئے اسے آزادئی رائے پر قدغن بتایا ہے۔ عمر عبداللہ ، محبوبہ مفتی، سجاد لون اور دیگر کئی لیڈروں نے اس پابندی کو فوراََ واپس لینے کی مانگ کی ہے۔ محبوبہ مفتی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ فرقہ پرست ہندو گروپوں کو کھلے عام بدنظمی اور انتشار پھیلانے کی چھوٹ دی جا رہی ہے مگر جماعت جیسی پرامن تنظیم جس نے تعلیمی، سماجی اور مذہبی لحاظ سے کشمیریوں کے لیے بے مثال کام کیا ہے، اُس پر پابندی لگانا قابلِ مذمت ہے۔ سجاد لون نے کہا کہ جمہوریت مختلف نظریوں کو آگے لانے کا نام ہے نہ کی جماعت کی طرح آزادئی رائے پر قدغن لگانا ہے۔

ادھر ریاست کی کئی دیگر سماجی، مذہبی اور تجارتی انجمنوں نے بھی سرکار کے اس قدم کو بوکھلاہٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیامانی انتخابات سے قبل مرکز فرقہ پرست سیاست کو بل دے رہی ہے۔ کشمیر اکنامکس الائنس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جماعت نہ صرف ایک مذہبی تنظیم ہے بلکہ اس نے سیلاب اور دیگر آفات کے وقت قابلِ ستائش کام کیا ہے اس لیےسرکار کا یہ فیصلہ فرقہ پرست سیاست کے علاوہ کچھ نہیں۔

جماعت کے اثاثوں کا کیا ہوگا؟

مرکز کی طرف سے پابندی کے فوراَ بعد ریاست بھر میں جماعت کے دفاتر کو سربمہر کر دیا گیا اور جنوبی و شمالی کشمیر میں درجنوں مزید کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ۔ انتطامیہ نے جماعت کی غیر منقولہ جائیداد، املاک،دفاتر، عمارتوں سمیت منقولہ املاک بشمول گاڑیوں، سازوسامان اور بینک کھاتوں کو بھی سربمہر کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے کئی جماعت لیڈروں اور کارکنوں کی رہائش گاہوں کوبھی سیل کر دیا ہے جن کے افرادِخانہ سڑکوں پر آگئے ہیں ۔

مرکز نے ریاستی حکومت کو جماعتِ اسلامی کو جماعت کو اس کی عمارتوں اور دیگر ڈھانچے سمیت اس کی رقومات کو بھی استعمال سے روکنے کا اختیار دیا ہے ۔ مختلف ڈپٹی کمشنروں نے فوراََ مرکز کے اس حکم نامے پر عمل کرتے ہوئے جماعت کے اثاثوں اور بہنک کھاتوں کو سربمہر کر دیا ہے ۔ ریاست میں جماعت کےسینکڑوں سکول اور فلاحی ادارے قائم ہیں جن میں لاکھوں طلباء اور ہزاروں اساتذہ کام کر رہے ہیں ۔ان اداروں کو بند کرنے کے خدشے پر ریاست میں حالات سنگیں رُخ اختیار کر سکتے ہیں۔

جماعت کے بیان کے مطابق جماعتِ اسلامی آر ایس ایس کی طرح مذہب کے نام پر ہراسانی اور تشدد نہیں کرتی اور نہ ہی آر ایس ایس کی طرح کھلے میں ہتھیاروں کی نمائش اور مارچ کرتی ہے بلکہ پُرامن طریقے پر فلاحِ عامہ اور اسلامی تعلیمات کاپرچار کرتی ہے۔ بیان میں جماعت نے پابندی کو غیر جمہوری ، غیر آئینی اور غیر اخلاقی قرار دے کر کہا ہے کہ مذہبی آزادی پر قدغن ہے ۔ چھہ برس تک کشمیر میں جماعت کے صدر رہ چکے سابق امیر شیخ غلام حسن کے مطابق جماعت کے قیام سے اب تک اسے مختلف حلقوں کے دھونس دباؤ کا لگاتار سامنا کرنا پڑا ہے اور کئی بار اسے پا بندیوں کے ذریعے ریاست کے سماجی و مذہبی منظرنامے سے مٹانے کی کوشش کی گئی مگر جماعتِ اسلامی ہمیشہ نئے عزم لے کر اُبھری ہے اور آگے بھی اُبھرتی رہے گی ۔

(نصیر احمد سرینگر میں  مقیم ملٹی میڈیا صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔)