فکر و نظر

نفرت کا ماحول بنانے میں مصروف ہیں نیوزچینل

صحافیوں کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن رپورٹنگ کرتے وقت ان کو اس سے دور رہنا ہوتا ہے-کیونکہ رپورٹنگ ان کی حب الوطنی کا آئینہ نہیں ہے، بلکہ اپنے قارئین کے ساتھ پیشہ ورانہ ڈیل کا حصہ ہے۔

انڈین ایئر فورس  کی ایئر اسٹرائک کے بارے میں بتاتے ہوئے تیلگو چینل ٹی وی 9 پر فوجی لباس میں، ہاتھ میں ایک ٹوائی گن لئے اینکر(فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب اسکرین شاٹ)

انڈین ایئر فورس  کی ایئر اسٹرائک کے بارے میں بتاتے ہوئے تیلگو چینل ٹی وی 9 پر فوجی لباس میں، ہاتھ میں ایک ٹوائی گن لئے اینکر(فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب اسکرین شاٹ)

پاکستان کے پروپیگنڈہ کا پردہ فاش -پاکستانی فوج کے ذریعےانڈین ایئر فورس کے ایک جنگی طیارہ  کو مار گرائے جانے کے بعد  جہاں ٹی وی اینکر ایک ریٹائرڈ ایئر چیف مارشل سے اس بارے میں انٹرویو کر رہا تھا، وہیں دوسری طرف ٹی وی اسکرین پر یہ لکھا ہوا تھا۔ہندوستانی میڈیا جس طرح کا ہے، مجھے شک ہے کہ اینکر یا نیوز ٹیم کو شاید ہی یہ احساس رہا ہو کہ ان کے اپنے کوریج کے لہجے نے ان کے اپنے ہی الفاظ کو ایک مذاق میں تبدیل کر دیا تھا، جو سرکاری کہانی کی ہی توسیع محض تھی۔

لیکن اگر ان کو اس کا احساس ہوتا، تو کیا ان کو ایسا کرنے سے روک پاتا؟ بمشکل ہی، کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ وہ قومی فریضہ نبھا رہے ہیں اس لئے صحافت کے اصولوں کو طاق پر رکھا جا سکتا ہے۔ اور اگر ساتھ میں بونس کے طور پر ٹی آر پی میں اچھال آئے، تو پھر کس کو پرواہ ہے؟جدید ہندوستانی نیوز ٹیلی ویژن کے سرپرست ارنب گوسوامی نے کہا تھا، وطن پرست ہونا، صحافی ہونے کی اولین شرط ہے۔

 ان کی طرح  باقیوں نے پوری عقیدت کے ساتھ اس قول کی تقلید کی ہے۔ ہم ہر رات اس طرح کے وطن پرست ڈرامے کا مظاہرہ دیکھتے ہیں، جس میں سنجیدہ نوجوانوں کی قیادت میں کی جانے والی پرجوش بحث شامل ہیں۔آج تک کے انڈیا گیٹ والے سیٹ پر، پانچ مردحضرات-حال کے دنوں میں کوئی خاتون پینلسٹ دکھائی نہیں دی ہے-کو پاکستان کو گھٹنوں پر لانے اور اس کینسر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکال پھینکنے کے راستے دکھاتے دیکھا جا سکتا تھا۔

سامنے بیٹھے ناظرین میں سے ایک ناظر ایک بڑے ترنگے کو لہرا رہا تھا۔ ایک دوسرے اینکر نے چلاکر پوچھا’دیش دروہی کہاں ہیں’۔اس کا اشارہ انہی پرانے مشتبہ ‘دیش دروہیوں’-طالبعلموں، لبرل اور امن پسندوں کی طرف تھا۔ایک تیلگو چینل پر ایک اینکر فوج کے کپڑے پہنے، ہاتھ میں ایک ٹوائی گن  لئے نمودار ہوا۔ ولیم رینڈولف ہرسٹ سے جب ان کے نامہ نگاروں نے کہا کہ ‘ کیوبا میں سب کچھ سکون میں ہے اور وہاں کوئی جنگ نہیں چل رہی ہے ‘ تب انہوں نے کہا کہ ‘ آپ مجھے تصویریں دیجئے، جنگ میں دوں‌گا۔ ‘

ہندوستانی ٹیلی ویژن چینلوں نے اس کو توڑمروڑ‌کر دوسری شکل دے دی ہے اور وہ جنگ تیار کرنا چاہتے ہیں۔ میرے ایک ڈاکٹر دوست کا کہنا ہے کہ میڈیا کی  اشتعال انگیزی، ایک ایسی حالت ہے جو جھوٹی مرادنگی کے فہم  کو اور بڑھاتا ہے۔چینلوں سے باہر کے حالات اس سے بہتر نہیں تھے۔ سوشل میڈیا پر کئی سینئر صحافی، جن سے ماحول میں تھوڑی سمجھداری گھولنے کی امید کی جا سکتی تھی، بھی پاکستان کی سرحد کے اندر ہوائی حملے کرنے پر بڑھ چڑھ‌کر ہندوستانی فضائیہ کو مبارکباد دے رہے تھے۔

Air-Strike-India-Today-Tv

یہ اپنےاپنے نظریہ کا معاملہ ہے اور اس کے لئے کسی سے جھگڑا نہیں کیاجا سکتا ہے، لیکن اس نوع کی خطرناک قوم پرستی کی ایسی کھلی حمایت جنگ ہیزٹریا عناصر کو ایک سطح پر جواز دینے کا کام تو کرتی ہی ہے۔صحافت کا بنیادی اصول حقائق  کی تفتیش، حکومت سے ثبوت کی مانگ کرنے اور خبر سے ایک طےشدہ سطح سے پیچھے اور فاصلے کی مانگ کرتا ہے، نہ کہ اس کی کہ اپنی وطن پرستی کو ثابت کرنے کے لئے جنون  کا حصہ بنا جائے۔

ممکن ہے کہ یہ’ملک کا جذبہ'(موڈ آف دی نیشن)ہو-حالانکہ یہ اپنے آپ میں ہی ایک مشتبہ خیال ہے-لیکن اگر ایسا ہے بھی تو کیا صحافی کو اس میں بہنا چاہیے؟مجھے پہلے ایسا لگتا تھا کہ ہر رات، ملک، وطن پرستی اور پاکستان پر گلا پھاڑ‌کر کی جانے والی بحث اور گڑھے گئے ‘دیش دروہی’کے خلاف نفرت کو اکسانے کا کام ٹی آر پی کو نظر میں رکھ‌کر کیا جاتا ہے۔ ایک مشکل ماحول میں، جہاں چینلوں کے لئے پیسہ کمانا مشکل ہے، ہر ہتھکنڈے کو جائز ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

ناظرین جو چاہتے ہیں، چینلوں کے ذریعے ان کو وہی دیا جاتا ہے، تاکہ ان کے ناظرین ان سے جڑ ےرہیں-کاروباری لحاظ سے یہ منطقی ہے۔لیکن اب میں، اس کو لےکر بےفکر نہیں ہوں۔ ‘ ملک کے خیالی دشمنوں ‘ کے خلاف جارحانہ مہم، اس حکومت اور سنگھ پریوار کے ایجنڈے کے ساتھ بہت قریب سے جڑی ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کے ٹیلی ویژن چینل-ان میں سے کچھ تو ضرور-حکومت کے حق میں ایک خاص ماحول اور بیانیہ  گڑھنے کے لئے منصوبہ بند طریقے سے کام کر رہے ہیں۔

وہ صرف نریندر مودی حکومت اور ان کی حکومت کے ترجمان یا حامی بھر نہیں ہیں-وہ میڈیا کی وہ طاقت ور شاخ ہیں، جن کا کام صرف خیالات کی تشہیر کرنا نہیں، بلکہ دوسری آوازوں کو دبانا بھی ہے۔ جنگ کی للکار صرف ایک دکھاوا بھر نہیں ہے، بلکہ ان کے اسلحہ خانہ کا اہم ہتھیار ہے، جو دشمن کو کچلنے کےلئے تیار ہے۔

وطن پرستی کے نام پرجنون  کا ماحول تیار کرنا صرف ایک سنکی کاروباری ہتھکنڈا نہ ہوکر، ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس میں نہ صرف ٹیلی ویژن چینل، بلکہ سوشل میڈیا، ٹرولس کی فوج اور فرضی اخباروں کا کارخانہ شامل ہے۔ اسی بیچ وطن پرستی کے گانے کے ویڈیو شیئرکئے گئے۔وہاٹس ایپ فوج کی بہادری  کی کہانیوں اور نعروں سے گونج اٹھا۔ راجستھان میں ایک سیاسی ریلی میں نریندر مودی نے یہ اعلان کیا،’قسم مجھے اس مٹی کی، میں ملک نہیں جھکنے دوں‌گا۔ ‘


یہ بھی پڑھیں: رویش کا بلاگ: نیوزچینل صرف مودی کے لیے راستہ بنا رہے ہیں،ڈھائی مہینے کے لیے چینل دیکھنا بند کر دیجیے


فلم انڈسٹری کا ایک طبقہ بھی اس میں شامل ہونے کے لئے تیار ہے۔ یہاں انتخاب سے ٹھیک پہلے، حب الوطنی والی فلموں کی تعداد میں آئے اچھال کی طرف دھیان دیا جا سکتا ہے۔پچھلے کچھ مہینوں میں جس طرح سے فوج-یہاں تک کہ خود مودی-کا گوروگان کرنے والی فلمیں آئی ہیں، اس کو محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا ہے۔ -‘ ہاؤ از دی جوش ‘جیسے محاورے بڑی صفائی سے روزانہ کی بول چال کی زبان میں شامل ہو گئے ہیں اور اس کا استعمال وزراء کے ذریعے کیا گیا ہے، جنہوں نے کھل کر اڑی اور منی کرنیکا جیسی فلموں کی تعریف کی ہے۔

ایک جرمن لفظGleischaltungاس حالت پر بالکل بالکل ٹھیک بیٹھتا ہے، جس کا عام انگریزی میں معنی ہوتا ہے-کوآرڈنیشن یعنی تال میل۔ اس لفظ کا استعمال 1933 میں ہٹلر کے چانسلر بننے کے بعد بڑی سمجھ بوجھ کے ساتھ کئے گئے جرمنی کی نازیت کے اظہار  کے لئے کیا جاتا ہے۔تب کچھ مہینوں کے اندر قانون بناکر جرمنی کو ون پارٹی  گورننس بنا دیا گیا۔ مخالفین اور مزاحمین کو جیل میں ٹھونس دیا گیا یا ان کا قتل کر دیا گیا اور دیگر جماعتوں کو ممنوع کر دیا گیا۔ مزدور تنظیموں کو ایک جھنڈے کے تلے ملا دیا گیا اور جلدہی حکومت اور سماج کے تقریباً تمام اوزار نازی کے ہاتھوں میں چلے گئے۔

اس پوری قواعد کی تشکیل میں پروپیگنڈہ کا اہم کردار تھا۔ جوزف گوئیبلس کی قیادت میں،’منسٹری آف پبلک انلائٹنمینٹ اینڈ پروپیگنڈہ’نے اخباروں، رسالوں، تھیٹر اور موسیقی،ادب  اور یہاں تک کہ نیو میڈیا-جو کہ اس وقت ریڈیو اور فلم تھی-جیسے میڈیا کے تمام ذرائع کو اپنے قابو میں لے لیا۔جن لوگوں نے مخالفت کی، ان کو یا تو بھاگ جانا پڑا یا ان کو جیل میں ڈال دیا گیا، یا اس سے بھی برے کا مقابلہ کرنا پڑا۔ پورے میڈیا کو ملک یا پارٹی نہیں بلکہ خود ہٹلر کی خدمت میں لگا دیا گیا-کیونکہ نوکرشاہ اور فوجی تک کو ملک اور رہنما کی وفاداری کا ‘ہٹلراوتھ’لینا پڑتا تھا۔ ان حالات میں نازی پارٹی کی رکنیت میں ڈرامائی طورپراچھال آیا۔

Air-Strike-Republic-Tv

ممکن ہے کہ ہم ابھی تک سرکاری تال میل کی اس سطح تک نہ پہنچے ہوں۔ ہمارے یہاں کوئی پروپیگنڈہ وزیر نہیں ہے، نہ ہی وزیر اعظم کی وفاداری کے اعلان کرنے والا کوئی قانون ہے۔ لیکن اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جس طرح کا تال میل بنا کسی سرکاری حکم کے دکھ رہا ہے، وہ سب سے زیادہ متاثر کن ہے۔عام شہری عام طور پر اپنی رائےکا اظہار کرنے کے لئے آزاد ہے۔ پاکستان کے ساتھ امن کی حمایت کرنے والوں کو دوسرے لوگوں کا جنگ ہیزٹریا قابل اعتراض لگ سکتا ہے اور اسی طرح دوسرے فریق  کو پہلےفریق  سے اعتراض ہو سکتا ہے۔

سوشل میڈیا یا وہاٹس ایپ گروپس پر لئے جانے والے انتہا پسندانہ جانبداری  فحاشی کی سرحد پر کھڑی دکھائی دے سکتی ہیں۔ لیکن اظہار کی آزادی کا مطلب یہی تو ہے۔لیکن میڈیا کے پاس ایسی سہولت نہیں ہے۔ با مقصد اور متوازن ہوکر حقائق  کو سامنے لانا اور حکمرانوں سے سوال پوچھنا صحافیوں کا پیشہ ورانہ فریضہ ہے۔ وہ حکومت یا اس کی پروپیگنڈہ شاخ کا حصہ نہیں ہیں۔

صحافیوں کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن رپورٹنگ کرتے وقت ان کو اس سے دور رہنا ہوتا ہے-کیونکہ رپورٹنگ ان کی حب الوطنی کا آئینہ نہیں ہے، بلکہ اپنے قارئین کے ساتھ پیشہ ورانہ ڈیل کا حصہ ہے۔ہندوستانی میڈیا نے کافی عرصہ پہلے سے پیشہ ورانہ رویے کا ایسا کوئی دکھاوا کرنا بھی بند کر دیا ہے اور قومی(پڑھیں سرکاری)کوششوں کا حصہ بننے میں وہ فخرمحسوس کرتا ہے۔ وہ اپنی قوم پرستی ہتھیلی پر لےکرچلنا چاہتے ہیں۔

وہ حکمراں جماعت کے مقاصد اور ایجنڈے کے ساتھ قدم تال ملانے میں خوش ہیں۔ ایسے میں ان سے تبدیلی کی امید کرنا، بھولا پن ہوگا۔ لیکن اس بار انہوں نے ساری حدود پار‌کر دی ہیں۔ اس بار داؤ بہت اونچا ہے اور چیزوں کے کافی آگے بڑھ جانے اور ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ حقیقی ہے۔دوسرے وقتوں میں پاکستان کی مسلسل تنقید ایک اور بات ہے اور’عام ‘وقتوں میں یہ تھوڑی بھٹکانے والی ہے، لیکن یہ عام وقت نہیں ہے۔ ایک ایسی حکومت، جس کی قیادت پاکستان کے متعلق گہری ناپسندیدگی سے بھرے ہوئے لوگوں کے ہاتھ میں ہے، جس پر پاکستان کے خلاف سخت قدم اٹھاتے دکھنے کا دباؤ ہے، ہمیں کافی خطرناک حالت کی طرف لےکر جا سکتی ہے۔

میڈیا کے ذریعے کئے جانے والے اجتماعی تعریفات کو رائےعامہ کا نام دیا جا سکتا ہے اور اس کو حکومت بڑھاوے کے طور پر دیکھ سکتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے اقدام  کے انتخابی فائدے کا بھی حساب لگا سکتے ہیں۔ یہ حالت قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔پھر بھی میڈیا کے ایک بڑے اور متاثر کن طبقے نے ذمہ داری کے کسی فہم  کا مظاہرہ نہیں کیا ہے ؛ دیگر کے متعلق سب سے خراب قسم کی نفرت کو بڑھاوا دینے کا ان کا ریکارڈ بےحد شرمناک ہے۔لمبے وقت میں ملک کی مذہبی رواداری اور تانےبانے پر اس کا سنگین اثر پڑے‌گا۔ جب اس دور کی تاریخ لکھی جائے‌گی، نفرت کا ماحول بنانے میں میڈیا کے کردار کاتذکرہ خاص طور پر ہوگا۔