فکر و نظر

13 پوائنٹ روسٹر آئین میں درج سماجی اور اقتصادی حقوق کے خلاف ہے

13 پوائنٹ روسٹرکے  نفاذ  کا فیصلہ ملک میں اب تک کی تمام سماجی حصولیابی کو ختم کر دے‌گا۔ اس سے یونیورسٹی کے اسٹاف روم یکساں  سماجی اکائی میں بدل جائیں‌گے کیونکہ اس میں ہندوستانی  سماج کے تنوع اور  تکثیریت  کو عزت دینے کا کوئی تصور نہیں ہے۔

31 جنوری 2019 کو نئی دہلی میں13 پوائنٹ روسٹر کے خلاف  مظاہرہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

31 جنوری 2019 کو نئی دہلی میں13 پوائنٹ روسٹر کے خلاف  مظاہرہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

5 مارچ 2019 کو بھارت  بند کا اعلان کیا گیا۔ یہ اپیل  جے این یو ٹیچر ایسوسی ایشن، ڈی یو ٹیچر ایسوسی ایشن اور ملک کی کئی یونیورسٹیوں کے اساتذہ یونین، طلبا یونین، اور’کچھ سیاسی جماعتوں’نے کی۔ اس بند کے اعلان میں رکن پارلیامان، صحافی، سول سوسائٹی کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ شامل تھا۔یہ سبھی لوگ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری میں 13 پوائنٹ روسٹر کے نفاذ کے خلاف  مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسی کے لئے اس بند کا اعلان کیا گیا۔

سال2006 سے ہی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری میں روسٹر سسٹم  سے ریزرویشن نافذ ہے۔ اس میں یونیورسٹی کو ایک اکائی مان‌کر ایس سی –ایس ٹی  اور دیگر پسماندہ طبقوں کے امیدواروں کو ریزرویشن دیا جاتا ہے جو بالترتیب،7.5 فیصد، 15 فیصد اور 27فیصد ہے۔ اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کے عہدوں پر تقرری کے وقت یہ دھیان رکھا جاتا ہے کہ اس اصول کی خلاف ورزی نہ ہو۔ چونکہ عہدے کافی کم ہوتے ہیں اس لئے روسٹر نافذ کیا جاتا ہے۔

یہاں سوال یہ ہے کہ یونیورسٹی کو اکائی مانا جائے یا شعبہ کو۔ اگر یونیورسٹی کو اکائی مانا جائے‌گا تو نمائندگی زیادہ سے زیادہ ہوگی۔اس کے لئے 200 پوائنٹ روسٹر کا مشورہ دیا گیا۔ اور اگر یونیورسٹی کے ہرایک شعبہ کو اکائی مانا جائے‌گا تو 13 پوائنٹ روسٹر کی تعمیل ہوگی۔سپریم کورٹ نے اسی13 پوائنٹ روسٹر کے حق  میں فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت  کا کہنا ہے کہ ایک شعبہ کے اساتذہ کا موازنہ دوسرے شعبہ کے اساتذہ سے نہیں کیا جا سکتا۔

الگ الگ شعبہ کے پروفیسر کی ادلابدلی بھی نہیں کی جا سکتی، اسی وجہ سے ریزرویشن کے لئے شعبہ کو بنیاد بنایا جا رہا ہے نہ کہ یونیورسٹی کو۔اس فیصلے کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے، بالخصوص ایس سی –ایس ٹی اور دیگر پسماندہ طبقوں کے اساتذہ، ریسرچ اسکالر اور کچھ سیاسی جماعتوں کے ذریعے۔ان کےوفد رکن پارلیامان سے مل چکے ہیں اور خود پرکاش جاوڈیکر نے وعدہ کیا تھا کہ اگر عدالت حکومت کے  اجازت نامہ کی اسپیشل عرضی کو خارج کر دیتی ہے تو اس کے لئے وہ قانون بنائیں‌گے اور ان طبقوں کے مفادات کی حفاظت کریں‌گے۔

لیکن مرکزی حکومت نے ایسی کوئی پہل نہیں کی ہے۔دوسری طرف ملک کی مختلف یونیورسٹی اپنے یہاں رکی پڑی ہوئی بحالیوں کا اشتہار دے رہے ہیں۔ ان اشتہارات سے جو بات صاف ابھر‌کر آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب ایس سی –ایس ٹی اور دیگرپسماندہ  طبقوں کے لائق امیدواروں کے لئے اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر بننا مشکل ہو جائے‌گا۔اس میں بھی سب سے مشکل ایس ٹی کے امیدواروں کے لئے ہوگی کیونکہ ان کی باری جلدی نہیں آئے‌گی۔ پھر ایس ٹی کے امیدواروں کے لئے بھی امکان کم سےکم ہے۔

جب کسی شعبہ میں چار عہدے آئیں‌گے تب جاکر چوتھا عہدہ دیگر پسماندہ طبقہ کے امیدوار کو ملے‌گا۔اس کو آپ ابھی حال ہی میں قائم ایک ریاستی یونیورسٹی کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ 1 مارچ 2019 کو اتر پردیش کے جن نایک چندرشیکھر یونیورسٹی، بلیا میں اشتہار آیا۔ اس میں تین فیکلٹی کے دس شعبہ جات میں اسسٹنٹ پروفیسر کے 40، ایسوسی ایٹ پروفیسر کے 20 اور پروفیسر کے 10 عہدے کااعلان کیا گیا جن پر بحالی ہوگی۔

13 پوائنٹ روسٹر کے مطابق بنائے گئے اس اشتہار میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر کے کسی بھی عہدے پر ریزرو طبقے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے جبکہ اسسٹنٹ پروفیسر کے 40 عہدوں پر، الگ الگ شعبہ جات میں 10 عہدے دیگر پسماندہ طبقہ کے امیدواروں کو ملیں‌گے۔ ایس سی –ایس ٹی کو اسسٹنٹ پروفیسر کا کوئی عہدہ نہیں ملے‌گا۔ وہ صرف غیر محفوظ عہدے پر ہی درخواست کر سکتے ہیں۔ اب جب وہ اسسٹنٹ پروفیسر ہی نہیں بنیں‌گے تو آگے کے عہدوں پر کیسے جائیں‌گے۔

دھیان دینے والی بات ہے کہ یہ یونیورسٹی شروع ہونے جا رہی ہے اور اپنی شروعات میں ہی اس کی تاسیس میں ہندوستان کے وہ لوگ نہیں شامل ہو پائیں‌گے جو کمزور ہیں، صدیوں سے ستائے گئے ہیں اور مظلوم  ہیں۔آزادی کے 70سالوں میں ان طبقوں کی ایک چھوٹی سی پشت پی ایچ ڈی کر چکی ہے، نیٹ/جے آر ایف پاس ہے اور جب تقرری کا وقت آیا تو یہ اصول نافذ کردیا گیا ہے۔ اس کے خلاف ہی یہ بندتھااس بند کے خلاف ایک معصوم سی دلیل دی جا رہی ہے کہ جب ملک کی سب سے بڑی  عدالت نے طے کر دیا ہے کہ تقرری شعبہ کے حساب سےہوں‌گی تو پھر یہ بند کیوں؟

اس بند کی سب سے پہلے ایک آئینی بنیاد ہے۔ مؤرخ روہت ڈے نے اپنی کتاب ‘ا ے پیپلس کانسٹی ٹیوشن’میں لکھا ہے کہ جو بنیادی حقوق  آئین نے دیےہیں ، ان کو کوئی چھین نہیں سکتا، یہاں تک کہ ملک کی پارلیامنٹ بھی نہیں۔لیکن یہاں تو صورتحال بدلی ہیں۔ اس معاملے پر پارلیامنٹ خاموش ہے۔ صرف کچھ رکن پارلیامان اس پر بول رہے ہیں، بیشتر نے خاموشی اوڑھ لی ہے اور ذمہ دار وزیر اپنے وعدے سے مکر رہے ہیں۔اصل میں سب کو موقع دئے جانے کا وعدہ ہندوستان کی آزادی کی لڑائی کا وعدہ ہے، مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر امبیڈکر کا خواب ہے اور یہ آئین بنانے والی دستور ساز اسمبلی کی بحث  کا سب سے لائق اور انسانی حوالہ  ہے۔

جب ملک کا آئین بن رہا تھا تو 30 نومبر 1948 کو اس جلسہ میں موجود تقریباً تمام رہنماؤں نے سماجی اور تعلیمی طورپر پسماندہ طبقوں کے لئے ریزرویشن کی بات کی تھی۔ایچ جے کھانڈیکر نے کہا تھا، ان کی حالت قابل رحم ہے۔ ان کے امیدوار جب کسی نوکری کے لئے درخواست دیتے ہیں تو وہ چنے ہی نہیں جاتے کیونکہ امیدواروں کو جو لوگ چنتے ہیں، وہ ہریجن فرقے کے نہیں ہوتے ‘(تب ایس سی کے لئے ہریجن لفظ کا استعمال ہوتا تھا)۔

اسی جانبداری سے بچنے کے لئے تو ریزرویشن کا اہتمام کیا گیا تھا۔13 پوائنٹ روسٹر سے ہونے والی تقرری کے بعد ملک 19 صدی سے پہلے کے زمانے میں چلا جائے‌گا۔ اس لئے اس کو روکا جانا چاہیے۔ہندوستان کے آئین کی تمہید میں جس سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف کی بات کی گئی ہے، اس کا کوئی معنی نہیں رہ جائے‌گا اگر 13 پوائنٹ روسٹر سے تقرری ہوئی۔ اب اس فیصلے کا جو سماجی حوالہ  ہے، وہ کافی اہم ہے۔

1980 تک جب تک یونیورسٹیوں میں صرف اشرافیہ داخلہ پاتے رہے، وہی ریسرچ اسکالر اور پروفیسر ہوئے تب تک ذات پرستی نہیں تھی لیکن جیسے ہی ریزرو طبقوں نے اپنی دعوےداری پیش کی، تب سے’ذات پرستی’ کی شروعات مانی  جانے لگی۔ سماجی اور اقتصادی طور پر بےمیل ایک سماج میں اقتدار، شہرت، موقع، کمانے کے مواقع کچھ ہی طبقوں تک محدود رہے ہیں۔

ریزرویشن نے اس میں تھوڑی  سی توسیع کی۔ اب چاہے جواہرلال نہرو یونیورسٹی ہو یا الموڑا کا کوئی ڈگری کالج، ہرجگہ ریزرو طبقے کے لوگوں نے موقع پانا شروع ہی کیا تھا کہ ان کو روک دیا گیا ہے۔ اس سے سماجی عداوت میں اضافہ ہوگا۔تصور کیجئے کہ کسی بھی ریزرو طبقے کے ریسرچ اسکالر اور غیرریزرو طبقے کے ریسرچ اسکالر میں کیسے تعلقات ہوں‌گے جب ایک کو پتہ ہو کہ اس کے پاس ٹیچربننے کے مواقع نہ کے برابر ہیں۔

وہ یونیورسٹی کیسی یونیورسٹی ہوگی جس میں ایس ٹی  کی کسی خاتون امیدوار کو ریسرچ میں کسی طرح سے داخلہ مل جائے‌گا لیکن اس کو اسی یونیورسٹی یا کسی دیگر یونیورسٹی میں پروفیسر نہیں بنایا جائے‌گا۔ ایسی حالت میں کیا وہ اپنی ریسرچ جاری رکھنا چاہے‌گی؟یہ فیصلہ اب تک کی تمام سماجی حصولیابیوں کو ختم کر دے‌گا۔ اس فیصلے سے یونیورسٹی کے اسٹاف روم یکساں سماجی اکائی میں بدل جائیں‌گے کیونکہ اس میں ہندوستای  سماج کے  تنوع اور اس کی تکثیرت کو عزت دینے کا کوئی تصور نہیں ہے۔

ہندوستانی اعلی تعلیمی ادارہ، شملہ میں فیلو ڈاکٹر اجئے کمار کہتے ہیں کہ ریزرویشن ایک عزم ہے جس کو ہندوستان کی پارلیامنٹ نے لیا ہے کہ ہم سماج کی سب سے کمزور کڑی کو اس نمائندگی کے ذریعے سماج کے مین اسٹریم سے جوڑیں‌گے۔ اسی عمل کے تحت اگر ہم آج یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی تقرری کے معاملہ یعنی روسٹر والے معاملے کو دیکھیں تو آزادی کے بعد سے ہی ان طبقوں کے گنے-چنے ٹیچر ہی پروفیسر رہے ہیں۔

وہ آگے کہتے ہیں کہ ریزرویشن کے ذریعے جب سماج کے کمزور طبقوں سے لوگ آتے ہیں یا آئے ہیں تو یونیورسٹیوں کا Inclusion ہوا ہے۔ ہمارے نصاب بھی شامل ہوئے ہیں۔ یہ سب ریزرویشن کی وجہ سے ہوا تھا۔ ہماری یونیورسٹی جمہوری‎ ہو رہی تھی۔ 13 پوائنٹ روسٹر سے ہوئی بحالیاں  ان سب کو ختم کر دیں‌گی۔ہندوستانی سیاست اور سماج کے سامنے یہ لمحہ ایک ایسے موقع کے طور پر موجود ہے جب وہ اپنی کئی غلطیوں کی اصلاح ‌کرکے ایک بہتر اور منصفانہ ہندوستان کی تعمیر کر سکتا ہے۔ اسی کے ساتھ 13 پوائنٹ روسٹر ایک دردناک اور تعصب پسند ماضی کی طرف دوڑ بھی ہے۔ ملک کو اس طرف نہیں جانا چاہیے۔