خبریں

سپریم کورٹ نے 16سال سے جیل میں بند 6 لوگوں کو 10سال بعد بے گناہ قرار دیا

سپریم کورٹ نے ایک ہی فیملی کے 5 لوگوں کے قتل اور خاتون اور اس کی بیٹی سے ریپ  کے معاملے میں اپنے دس سال پرانے فیصلے کو بدلتے ہوئے  کہا کہ جیل میں بند لوگ خانہ بدوش کمیونٹی سے تھے اور ان کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک ہی فیملی کے 5 لوگوں کا قتل اور خاتون اور اس کی بیٹی سے ریپ کے معاملے میں موت کی سزا پاچکے 6 مجرموں  کو منگل کو بری کر دیا۔عدالت نے اس معاملے میں اپنے دس سال پرانے فیصلے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں بند لوگوں کو غلط طریقے سے پھنسایا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں پولیس کی جانچ‌کے طریقے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مہاراشٹر حکومت کو ان افسروں کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے کی ہدایت دی، جن کی کمیوں کی وجہ سے اصلی گناہ گار آزاد گھوم رہے ہیں۔

جسٹس اے کے سیکری کی صدارت والی بنچ نے منگل کو اپنے فیصلے میں ریاستی حکومت کو چھے ملزمین میں سے ہرایک کو پانچ لاکھ روپے دینے کی ہدایت دی۔ ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنانے  کو کہا کہ یہ رقم ان کی بازآبادکاری میں استعمال کی جائے۔ یہ تمام ملزمین 2003 سے جیل میں بند ہیں۔سال 2009 میں سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے مہاراشٹر کی اپیل پر سماعت کی اور تین ملزمین کو موت کی سزا سنائی، جن کی سزا کو پہلے بامبے  ہائی کورٹ نے عمر قید میں بدل دیا تھا۔

نچلی عدالت نے چھے ملزمین کو سزائے موت دی تھی، جس کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے چھے ملزمین میں سے تین کو موت کی سزا سنائی تھی۔ دیگر تین ملزمین کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا گیا تھا۔

غور طلب ہے کہ جون 2003 میں مہاراشٹر کے جلنا ضلع کے بوکاردن میں ایک فیملی کے پانچ ممبروں کا قتل اور ریپ کے الزام میں انکش ماروتی شندے، راجیہ اپا شندے، امباداس لکشمن شندے، راجو مہاسو شندے، باپو اپا شندے اور سوریا شندے کی گرفتاری کے 16 سال بعد ان کو بری کیا گیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس اے کے سیکری، ایس عبدالنذیر اور ایم آر شاہ کی بنچ نے معاملے کی دوبارہ جانچ  کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تفتیش غیر جانبدارانہ طریقے سے نہیں کی گئی تھی۔

 ملزمین خانہ بدوش کمیونٹی سے تھے اور ان کو جھوٹے الزام میں پھنسایا گیا تھا۔ ان چھے میں سے ایک واقعہ کے وقت بچہ تھا۔ ان سبھی نے جیل میں 16 سال گزارے۔حکم میں کہا گیا، ‘ موجودہ حکم کو رد کرنے سے پہلے ہم جانچ  ایجنسی کی تفتیش کو سرے سے خارج کرتے ہیں۔ ‘

حکم میں ریاستی حکومت کو تین مہینے کے اندر اس معاملے پر غور کرنے اور اس لاپروائی کے لئے ان افسروں کی پہچان کرنے کو کہا ہے، جو اس کے لئے ذمہ دار ہیں اور اگر وہ ابھی بھی سروس  میں بنے ہوئے ہیں تو ان کے خلاف شعبہ جاتی کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس معاملے میں ایسے افسروں کی پہچان کرنے کو کہا ہے، جو اس کے لئے ذمہ دار ہیں۔

غور طلب ہے کہ پولیس نے ترامبک سٹوٹے، ان کی بیٹی، دو بیٹوں اور ایک بھتیجے کے قتل سے متعلق  چھے لوگوں کو گرفتار کیا تھا، جو امرود کے ایک باغان میں ایک جھوپڑی میں رہتے تھے۔پراسیکیوشن  کے مطابق، ‘ فیملی رات کے کھانے کے بعد رات تقریباً 10.30 بجے بات کر رہی تھی کہ سات سے آٹھ نامعلوم لوگوں نے لوٹ‌کے ارادے سے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ مجرم سبھی کو مردہ سمجھ‌کر چلے گئے لیکن اس حملے میں سٹوٹے کا بیٹا منوج اور سٹوٹے کی بیوی زندہ بچ گئے۔ پولیس کا مقدمہ سٹوٹے کی بیوی کی گواہی پر منحصر تھا لیکن عدالت نے ان کے ثبوتوں میں کئی غلطیاں پائیں۔ ‘

سپریم کورٹ نے پایا کہ متاثرہ خاتون نے شاطر مجرموں کی تصویروں میں سے چار کی پہچان کی تھی لیکن اس پہلو کی پولیس نے تفتیش ہی نہیں کی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اصلی مجرم قانون کے چنگل سے بچ‌کر بھاگ گئے۔فیصلے میں کہا گیا کہ یہ چار لوگ ان چھے لوگوں سے الگ تھے، جن کو جیل بھیجا گیا اور بعد میں مجرم  قرار دیا گیا۔عدالت نے کہا، اس لئے ہماری رائے ہے کہ اس معاملے کی آئی پی سی  کی دفعہ 173 (8) کے تحت ان چار لوگوں کی جانچ ہونی چاہیے، جن کی شناخت سٹوٹے کی بیوی نے کی تھی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)