خبریں

خواتین کو ریزرویشن دینا ان کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرنا ہے: جسٹس اندرا بنرجی

عالمی یوم خواتین کے موقع پر ایک تقریب میں سپریم کورٹ کی جسٹس اندرا بنرجی نے کہا کہ وہ موجودہ ریزرویشن سسٹم  کو ٹھیک نہیں مانتیں، اس کی وجہ سے  ان کو کئی بار ناپسندیدہ تبصروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جسٹس اندرا بنرجی (فوٹو : یوٹیوب)

جسٹس اندرا بنرجی (فوٹو : یوٹیوب)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کی جسٹس اندرا بنرجی نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر ایک تقریب کو خطاب کرتے ہوئے جمعرات کو کہا کہ خواتین کو ریزرویشن دینے سے ان کی صلاحیتوں کی اندیکھی ہوتی ہے۔جسٹس بنرجی نے سٹیزنس رائٹس ٹرسٹ کے ذریعے منعقد ورکشاپ میں کہا کہ خواتین کو ہر میدان میں اہل  ہونا چاہیے اور وہ بار بار یہ ثابت کر چکی ہیں۔

انہوں نے کہا، اگر آپ مجھ سے پوچھیں‌گے تو میں کہوں‌گی کہ خواتین کو ریزرویشن دینے سے ان کی صلاحیتوں کی اندیکھی ہوتی ہے۔ ‘بنرجی نے کہا کہ موجودہ ریزرویشن سسٹم ، جس کو وہ توہین آمیز مانتی ہیں، کی وجہ سے ان کو خود کئی بار طرح-طرح کے تبصروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سپریم کورٹ کی جسٹس نے آگے کہا، جب  کلکتہ ہائی کورٹ میں میری بطور جج تقرری ہوئی، تب ساڑھے چار سال تک میں اکیلی خاتون جج تھی اور میرے ساتھ کام کرنے والے مرد ججوں کا ماننا تھا کہ مجھے یہ عہدہ محض خاتون ہونے کے ناطے ملا ہے۔ مجھے برابر کی تنخواہ چاہیے تھی اور زیادہ سے زیادہ فیصلے دئے تھے، میں نے ان تمام معیارات کو پورا کیا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ محض خاتون ہونے کے ناطے مجھ کو سپریم کورٹ میں بطور جج تقرر کیا گیا۔ ‘

اسی موقع پر دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ نے کہا کہ خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لئے قانون بنانے کے بجائے سوچ میں تبدیلی ضروری ہے۔خاتون وکیلوں کو پیش آنے والے چیلنج کے بارے میں بات کرتے ہوئے جسٹس سنگھ نے کہا کہ خواتین کا اس پیشے میں ہونا غلط سمجھتے ہیں، پھر بھی بڑی تعداد میں خواتین اس میدان میں آ رہی ہیں۔

سنگھ نے خاتون وکیلوں کو لےکر کہا، ‘ خواتین کے لئے یہ پیشہ بےحد چیلنج بھرا ہے۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے وکیل ہونا مشکل ہے، ماں ہونے کے ساتھ وکیل ہونا بھی مشکل ہے، بیوی ہونے کے ساتھ وکیل ہونا بھی مشکل ہے۔ حالانکہ بہت لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شادی کے بعد وہ اپنی بیٹی کی نوکری وکالت سے بدل‌کر کچھ اور کر دیں‌گے، لیکن پھر بھی بڑی تعداد میں خواتین اس پیشے سے جڑ رہی ہیں۔

انہوں نے آگے کہا کہ ضلع عدالتوں کی بات کریں یا دہلی  جیسی ریاست میں عدالتوں میں50 فیصد تعداد خواتین کی ہے اور یہ تبدیلی یوں ہی نہیں ہے بلکہ لوگوں کی ذہنیت بدل رہی ہے۔ یہ تبدیلی سماج میں اپنےآپ آنی چاہیے صرف لڑ‌کر قانون بنانے سے کوئی فائدہ نہیں۔سنگھ کہتی ہے کہ قانون میں دئے گئے اہتمام اچھے ہیں، لیکن کبھی کبھی میٹرنٹی سہولت کی وجہ سے کئی کمپنیاں خواتین کو نوکری نہیں دیتیں۔

انہوں نے آگے کہا، میٹرنٹی سہولت کی وجہ سے کئی بار یہ پایا جاتا ہے کہ برابر کی خاتون اور مرد میں اگر کمپنی کو چننا ہوتا ہے، تو وہ مرد کو چنتے ہیں۔ اسی لئے کئی ممالک میں میٹرنٹی سہولت کم رکھی گئی ہے، تاکہ خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ‘سینئر وکیل وجے ہنساریہ کا ماننا ہے کہ خواتین کے اندر زیادہ شفقت، فکر اور خیال رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے  وہ ملک کی قیادت کر سکتی ہیں۔

انہوں نے آگے کہا، اگر ہم کسی ایک خاتون کی مدد کرتے ہیں، جو جنسی عدم مساوات سے متاثر ہے، تو ہم ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ خواتین کمزور نہیں ہیں اور اس بحث کو جلد ختم کرنا چاہیے۔ ‘جسٹس بنرجی کہتی ہے کہ خواتین میں ملک کی قیادت کرنے کی قابلیت ہے، لیکن دنیا کی 50 فیصد آبادی ہونے کے باوجود وہ کم پڑھی-لکھی، اقتصادی طور پر کمزور، خوداعتمادی کی کمی ، گھریلو تشدد سے متاثر اور کام کی جگہ پر جنسی استحصال کی شکار ہیں۔

انہوں نے آگے کہا کہ خواتین کو اچھی حالت میں لانے کے لئے ان کو اچھی تعلیم دینی ہوگی اور ان آرگنائزڈ سیکٹرمیں ان کی شناخت کی جانی چاہیے۔بنرجی نے سائنس اور سائنسی ریسرچ کے میدان میں خواتین کے کردار پر بات کی اور کہا کہ شاید ہی کوئی پیٹینٹ خواتین کے نام پر درج ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)