ادبستان

ورق در ورق: مجروح فہمی ایک بامعنی اور سنجیدہ کوشش

 آصف اعظمی کی مرتبہ کتاب پر، نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مجروح کی ادبی اورفلمی شاعری نے کس طرح اردو شاعری کو ثروت مند بنانے میں اساسی رول ادا کیا۔

Majrooh Fahmi

سال رواں میں اردو کے دو اہم ترقی پسند شاعروں کیفی اعظمی اور مجروح سلطان پوری کے سو برس مکمل ہوئے ہیں اور ان سے متعلق صدی تقریبات کا انعقاد ملک اور بیرون ملک کیا جا رہا ہے۔ مجروح سلطان پوری نے اپنی تخلیقی فطانت اور فنی بلوغت کا اظہار کلاسیکی رچاؤ اور زبان کے تخلیقی استعمال سے عبارت اپنی غزلوں اور عشق کی معروف نفسی کشکش کو محیط اپنے فلی نغموں کے توسط سے کیا اور قابل رشک ادبی اور عوامی مقبولیت حاصل کی۔

 گو کہ مجروح سلطان پوری ادبی سطح پر اپنی پذیرائی سے بالکل مطمئن نہیں تھے اور وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ ترقی پسند تحریک کے دور عروج میں جب ’’غزل‘‘ کو عام طور پر مطعون کیا جارہا تھا اور اسے ایک ایسی ازکار رفتہ صنف سمجھا جا رہا تھا، جو نئے زمانوں کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتی ہے، تب انہوں نے اپنی تخلیقی ہنر مندی سے ’’گردن زدنی‘‘ صنف کو ایک نئے حیات آفریں اسلوب سے آشنا کیا۔

 مجروح سلطان پوری کے نزدیک فیض کی تحسین کی لے اس قدر تیز تھی کہ اس میں دوسروں کی آواز کھو گئی۔ اس ضمن میں وہ اردو کے سربرآوردہ ادیبوں بشمول ترقی پسند نقادوں کومورد الزام ٹھہراتے تھے اور ان پر تنقیدی بد دیانتی کا الزام لگاتے تھے۔ اب جب مجروح سلطان پوری کی وفات کے بعد خاصہ وقت گذر چکا ہے اور ان کی صد سالہ تقریبات منائی جا رہی ہیں، یہ ضروری ہے کہ ان کے شعری سرمایے کی تعیین قدر معروضیت کے ساتھ کی جائے ۔

اور اگر ان کے ساتھ تنقیدی اور ادبی سطح پر ناانصافی روا رکھی گئی ہے تو اس کے ازالہ کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔ مقام مسرت ہے کہ یہ اہم تنقیدی فریضہ آصف اعظمی نے انجام دیا ہے اور ان کی مرتبہ ضخیم کتاب ’’مجروح فہمی‘‘حال ہی میں شائع ہوئی ہے جو فرض کفایہ کی ادائیگی کی ایک صورت ہے۔

مجروح سلطان پوری کا تخلیقی عرصہ حیات چھہ دہائیوں سے زائد مدت کو محیط ہے، مگر اس طویل عرصہ کا ثمرہ ۵۰ سے کم غزلیں ہیں۔ یہ غزلیں یقیناًایک نئے تخلیقی احساس اور معنوی امکانات کی آبیاری کو خاطر نشان کرتی ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ تعداد کے لحاظ سے محدود تر تخلیقی سرمایے کو اردو کے تقریباً ہر قابل ذکر نقاد بشمول احتشام حسین، سردار جعفری، خلیل الرحمان اعظمی، شمس الرحمان فاروقی، گوپی چند نارنگ، محمد حسن، قمر رئیس، ظ انصاری، وحید اختر، محمد علی صدیقی اور وہاب اشرفی وغیرہ نے موضوع بحث بنایا ہے اور مجروح کے شعری اور فنی امتیازات پر گفتگو کی ہے۔

 لہٰذا یہ کہنا علمی دیانت داری کے منافی ہے کہ اردو تنقید نے مجروح کے تئیں بے اعتنائی اور سردمہری کی روش اختیار کی ہے۔ اسی طرح مجروح کا یہ دعویٰ بھی محل نظر ہے کہ ان کی کاوشوں سے غزل کا احیا ہوا ہے۔ محض 44غزلیں کس طرح تجدید کا دشوار گذار عمل سر انجام دے سکتی ہیں، یہ ایک اہم سوال ہے۔ یوں بھی ہے کہ مجروح کے پیراےۂ اسلوب کی دلکشی کے باوجود ان کے یہاں موضوعاتی تنوع کے فقدان کا بھی بین طور پر احساس ہوتا ہے۔ صیاد، قفس، چمن، گلچیں، دارورسن، سزا، جوروجفا سے پرے وسیع تر کائنات کے بیشتر مناظر اور تجربے مجروح کے یہاں کم ہی بار پاتے ہیں۔ خلیل الرحمان اعظمی بھی مجروح کی موضوعاتی تنگ دامانی پر شکوہ سنج ہیں۔

اس طویل تنقیدی جملہ معترضہ سے قطع نظر اگر آصف اعظمی کی مرتبہ کتاب پر، جو 6 سو صفحات کو محیط ہے، نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مجروح کی ادبی اورفلمی شاعری نے کس طرح اردو شاعری کو ثروت مند بنانے میں اساسی رول ادا کیا۔ یہ کتاب ایک بین الاقوامی ادبی تنظیم مجلس فخر بحرین برائے فروغ اردو نے شائع کی ہے۔ یادگاری کتب عموماً بے محابا تعریف اور رسمی خراج تحسین کی زائیدہ ہوتی ہیں مگر مجروح فہمی کے مرتب آصف اعظمی نے اس ضمن میں تنقیدی معروضیت کا خاص لحاظ رکھا ہے اور ان تحریروں کو بھی شامل کیا ہے جو مدلل مدح سرائی کے ذیل میں نہیں آتی ہیں۔

کتاب 3 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب ’’وضع خرام‘‘ میں مجروح کے سوانحی کوائف، واقعات، یادداشتوں، تاثرات اور ان کے نظریات کوموضوع بحث بنایا گیا ہے۔ دوسرا باب ’’مطلع امکان‘‘ 36 تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے اور آخری باب ’’مضمون جاوداں‘‘مجروح سلطان پوری کی شاعری، نثر اور خطوط کے انتخاب کومحیط ہے۔آصف اعظمی کے نزدیک مجروح کو وہ مقام نہیں ملا ہے جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں؛

’یہ دو ہزار انیس کا سنہ ہے۔معاصر اردو غزل کے بڑے سپاہی مجروح سلطان پوری اگر آج زندہ ہوتے تو عمر کے سویں برس میں داخل ہو چکے ہوتے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جب تک مرحوم زندہ رہے انہیں اس بات کی شکایت ہی رہی کہ ادب میں ان کو وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ سزاوارتھے اور سو سال بعد بھی جب چہار جانب ان کے جشن صد سالہ کی تیاریاں دکھنی چاہئے تھیں، ادبی دنیا ان کا حق دینے میں بخل، بے نیازی یا پھر مصلحت سے کام لے رہی ہے۔

اس نقطہ نظر میں محض جزوی صداقت ہے تاہم مرتب کا یہ قول مبنی برحق ہے کہ ہندوستانی عوامی ادب کی تجسیم نو میں مجروح کا کردار نہ صرف بہت اہم ہے بلکہ بولی کی حیثیت سے اردو کو مقبول بنانے میں مجروح کے لکھے نغموں اور مشاعروں میں ان کی مترنم پیش کش کو اس کا حصہ جاتا ہے۔ یقیناً ہندوستانی ادبیات کی تشکیل اور ترویج میں مجروح کا رول اہم ہے۔ ان کی فلموں سے وابستگی سے متعلق متعدد مضامین شائع ہوئے ہیں، علاوہ بریں، ان کے فن سے متعلق وہاب اشرفی، قمر گونڈوی اور راشد انور راشد کی مستقل کتابیں اشاعت پذیر ہو چکی ہیں اور ان سے متعلق مضامین پر مشتمل کتابیں بھی چھپی ہیں۔

’’مجروح فہمی‘ میں محض اردو کے ناقدوں کی تحریروں کو شامل اشاعت نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہندی کے دو اہم نقادوں پروفیسر جتیندر سری واستو اور ڈاکٹر راکیش پانڈے کے دو مضامین بھی شریک اشاعت کیے گئے ہیں۔یہ مضامین اردو ہندی کی مشترکہ ثقافتی اور ادبی روایت کو خاطر نشان کرتے ہیں۔جتیندر سری واستو اپنے مضمون ’’مجروح سلطان پوری اور ان کے سمکالین‘‘ میں مجروح کے ایک شعر کا کبیر کے ایک مشہور دوہے سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتےہیں؛

مجروح صاحب اپنی ایک غزل میں کبیری ٹھاٹھ سے لکھتے ہیں؂

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے

جو گھر کو آگ لگائے وہ میرے ساتھ چلے

‘ورودھ کی مہان پرمپرا'(اختلاف کی عظیم روایت) میں مجروح کبیر سے اپنے کو جوڑ لیتے ہیں۔ ان لائنوں میں کسی پونجی پتی، ستا دھیش(صاحب اقتدار)نہیں، مظلوموں کا آہوان (اپیل)ہے ۔ یہاں یہ بھی یاد کرتے چلیں کہ الٹ وانیاں امید کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہیں۔

لتا منگیشکر نے مجروح سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں مضمون ’’رہیں نہ رہیں ہم‘‘ میں کیا ہے۔ لتا کی مجروح سلطان پوری سے پہلی ملاقات آرزو کے سیٹ پر ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں لتا لکھتی ہے ؛

اس فلم میں دلیپ کمار اور کامنی کوشل تھے۔ انل بسواس میوزک ڈائریکٹر تھے۔ ہم ایک گانے کی ریکارڈنگ میں مصروف تھے۔ مجروح صاحب بار بار آکر مجھے ایک خاص لفظ کی صحیح ادائیگی پر زور دے رہے تھے۔ گیت کی لائن تھی ’کب تک اٹھائیں غم‘، ان کا زیادہ زور اٹھائیں لفظ پر تھا۔ آخر میں جب وہ پوری طرح سے مطمئن ہو گئے کہ میں یہ لفظ صحیح طور پر ادا کر سکتی ہوں تب وہ آرام سے جاکر بیٹھ گئے۔ تب سے ہماری ایک اچھی دوستی کی شروعات ہوئی۔

 اس باب میں خلیق انجم، جگن ناتھ آزاد، رفعت سروش، مظہر امام، وارث کرمانی، کشمیریلال ذاکر، ضیاء الدین شکیب، علی احمد فاطمی، نعیم کوثر،شفیقہ فرحت اور خورشید ملک کے تاثراتی مضامین شامل ہیں۔کتاب کا دوسرا باب ’’مطلع امکان‘‘ مجروح شناسی کے ضمن میں بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اردو کے مشہور ناقدوں اور قلم کاروں نے مجروح سلطان پوری کے شعری امتیازات اور فنی اکتباسات کو تنقیدی محاکمہ کا محور و مرکز بنایا ہے۔

 فلسفہ کے استاد اور ممتاز ناقد پروفیسر وحید اختر کا مضمون ’’مجروح: غزل میں انحراف اور اجتہاد کی آواز‘‘ تنقیدی ژرف نگاہی کے نئے در وا کرتا ہے۔ میکدہ یا میخانہ مجروح کے یہاں ایک تنظیمی استعارے کے طو رپر ابھرتا ہے ۔ اس کے معنوی ابعاد کی نشان دہی کرتے ہوئے وحید اختر لکھتے ہیں؛

مجروح نے میکدے یا مئے خانہ کو کئی معانی میں برتا ہے۔ ایک تو یہ نامساوی تقسیم کا استعارہ ہے، دوسری طرف عشق، جنوں اور شوق شہادت کا استعارہ ہے۔ ساقی، پیر مغاں، مئے کدہ، ساغر، پیمانہ، مئے، حافظ سے لے کر آج تک تصوف اور معرفت کے علائم رہے ہیں۔ مجروح نے ان کی قلب ماہیت کر دی ہے اور انہیں موجودہ سیاسی، سماجی نظام کی ناانصافیوں کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ مئے کدہ، ساقی اور مستی، معشوق اور عشق کے بھی استعارے ہیں۔

 وحید اختر ایک زیرک نقاد تھے اور وہ مجروح کے پیراےۂ بیان کے تحفظات سے بھی واقف تھے، لہٰذا انہوں نے لکھا؛

اگرچہ یہاں مجروح نے غزل کی شعری روایت سے کوئی خاص انحراف نہیں کیا لیکن ان کے شعروں میں وہ کیفیت پھر بھی ملتی ہے جسے تغزل کا عطر کہا جاتا ہے۔

ظ انصاری کا مضمون ’’مجروح: دور و نزدیک سے‘‘ بھی مجروح کی تعیین قدر کی ایک با معنی کوشش ہے۔ محمد علی صدیقی، علی سردار جعفری اور محمد حسن کے مضامین ترقی پسند بوطیقا کے تناطر میں مجروح کی انفرادیت کو قائم کرتے ہیں۔ سید حامد کا مضمون مجروح سلطان پوری کی غزل پر فارسی اور کلاسیکی روایت کے اثرات پر روشنی ڈالتا ہے۔مجروح کی فلمی نغمہ نگاری پر 4مضامین شامل ہیں۔

مجروح کی شاعری اور فلمی گیتوں میں عوامی گیتوں کی روایت سے تخلیقی سطح پر استفادہ کرنے کی قابل قدر مثالیں ملتی ہیں۔ انہوں نے بعض علاقائی بولیوں مثلاً اودھی کے محاورۂ بیان اور لفظیات سے بڑے پیمانے پر کسب فیض کیا ۔ راکیش پانڈے کا مضمون ’’مجروح کی تخلیقات پر اودھی بھاشا اور تہذیب کا اثر‘‘ اس نکتہ کی تفصیل سے عبارت ہے۔

 کتاب کے آخر میں مجروح کا منتخب کلام بھی درج کیا گیا ہے۔ مجروح کے وہ چند اشعار ملاحظہ کریں جو وحید اختر کے بقول غزل کی روایت کا بہترین نچوڑ بن گئے ہیں، ہر چند کہ یہ اشعار زبان زد خلائق نہیں ہیں؛

ملی جب ان سے نظر بس رہا تھا ایک جہاں

ہٹی نگاہ تو چاروں طرف تھے ویرانے

اک ستم گر تو کہ وجہ صد خرابی تیرا درد

اک بلاکش میں کہ تیرا درد ہی کام آ گیا

سوال ان کا، جواب ان کا، سکوت ان کا، خطاب ان کا

ہم ان کی انجمن میں سر نہ کرتے خم تو کیا کرتے

اب کارگہِ دہر میں لگتا ہے بہت دل

اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے

آصف اعظمی کی مرتبہ یہ کتاب مجروح فہمی ایک بامعنی اور سنجیدہ کوشش ہے اور صدی تقریبات کے موقع پر اس کی اشاعت یقیناً ایک ادبی وقوعہ کی حیثیت رکھتی ہے جس کے لیے ان کی پذیرائی کرنا لازمی ہے۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)