خبریں

ہتھیاروں کی عالمی تجارت میں اضافہ، فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟

ہتھیاروں کی عالمی سطح پر تجارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ہتھیار فروخت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک امریکا ہے، جو عالمی سطح پر بیچے گئے ہتھیاروں کا 36فیصد حصہ فروخت کرتا ہے۔

SPIRI_Data

اسٹاک ہولم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے انسٹیٹیوٹ سِپری کے مطابق سن2009 سے سن 2013کے مقابلے میں دنیا بھر میں سن2014سے لے کر2018 تک ہتھیاروں کی تجارت میں تقریبا 8فیصد اضافہ ہوا۔ امریکا کے بعد اسلحہ برآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک بالترتیب روس، فرانس، جرمنی اور چین ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والے ممالک میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ سِپری کی اس رپورٹ کے مطابق حقائق کچھ یوں ہیں:

سن2014سے لے کر سن دو ہزار اٹھارہ تک جتنے بھی ہتھیار فروخت ہوئے، ان میں سے36فیصد امریکا نے برآمد کیے۔ یوں سن2009سے لے کر سن 2013 تک کے مقابلے میں امریکی ہتھیاروں کی فروخت میں 6 فیصد اضافہ ہوا۔

امریکا نے مجموعی طور پر100سے کچھ کم ممالک کو ہتھیار فروخت کیے جبکہ مجموعی طور پر ان ہتھیاروں کا نصف حصہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو فروخت کیا گیا۔

دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک روس ہے، جس نے تقریباﹰ 28ممالک کو اسلحہ بیچا۔ دنیا بھر میں ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے ہر پانچویں ڈیلیوری روس نے کی۔

سن2014 سے لے کر سن 2018 تک دنیا میں ہتھیاروں کے5بڑے برآمد کنندہ ممالک امریکا، روس، فرانس، جرمنی اور چین رہے۔

بین الاقوامی سطح پر جرمن ہتھیاروں کی فروخت میں13 فیصد اضافہ ہوا۔ بیرونی ممالک نے خاص طور پر جرمن آبدوزوں کی خرید میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

امریکا کے ہر چار ہتھیاروں میں سے ایک سعودی عرب نے خریدا۔ اس طرح سن2014 سے لے کر سن2018تک دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار سعودی عرب نے ہی درآمد کیے۔ اس طرح مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اس عرصے میں ماضی کے چار برسوں کے مقابلے میں دو گنا ہتھیار خریدے۔

سپری کی اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار چودہ سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک بڑے جنگی طیاروں، ٹینکوں اور میزائلوں جیسے بھاری ہتھیار زیادہ فروخت کیے گئے جبکہ دستی بموں اور رائفلوں جیسے چھوٹے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی آئی۔ رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کی وجہ سے خطے کے امیر ممالک میں اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں بھی مزید اضافہ ہوا۔