فکر و نظر

قیام پاکستان میں ہندوستانی مسلمانوں نے کیا رول ادا کیا تھا؟

کانگریس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے ملک و آزادی سے جڑے معاملات میں مسلم لیگ کو ایسی توجہ دی گویا وہی ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ مہاتما گاندھی تک اتنی بڑی نادانی کر بیٹھے کہ محمد علی جناح سے خط و کتابت میں انہیں- قائداعظم -کا خطاب دے ڈالا۔

MuslimsAgainstPartition

ملک کی آزادی سے پہلے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے دو قومی نظریے اور پاکستان بنانے کے مطالبے کی پر زور مخالفت کی تھی۔ انگریزی کی ایک قابل قدر اور مستند کتاب Muslims Against Partitionمیں یہ دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا ہندی ایڈیشن  شائع ہو چکا ہے اور اردو ایڈیشن پر کام چل رہا ہے۔معروف ادیب و محقق پروفیسر شمس الاسلام  نے اس کتاب میں بیش بہا حقائق پیش کیے ہیں۔مثلاً 1946 میں اسمبلی کے عبوری انتخاب  میں مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی زیر قیادت کافی ساری سیٹیں جیت لی تھیں۔

اس جیت میں مسلمانوں کے اعلیٰ طبقے کا بڑا حصہ تھا۔ آزادی سے قبل کے ہندوستان میں حق رائے دہی صرف اعلیٰ طبقے کو ہی حاصل تھی۔ کسان، خواتین، چھوٹے موٹے کام دھندہ کرنے والے، ایسے تاجر جو ٹیکس کے دائرے میں نہیں آ پاتے تھے یا جن کے پاس جائیداد نہیں تھیں یا جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، ایسے لوگوں کو ووٹنگ کا حق حاصل نہیں تھا۔ 1946 کے ان عبوری انتخاب  میں صوبے کے صرف 28.5 فیصد عوام ہی ووٹ دے سکے تھے۔ معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ طبقے کو اس سے یکسر باہر کر دیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر بہار میں کل آبادی کی بمشکل 7.8 فیصد ووٹنگ ہوئی۔

ان اعداد و شمار کی بنیاد پر شمس الاسلام بجا طور پر یہ کہتے ہیں کہ اتنے کم فیصد ووٹ پانے والی لیگ کا مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کھوکھلا ہی تھا۔ جبکہ وطن پرست  مسلمان تعداد میں کہیں زیادہ تھے مگر منظم نہیں تھے، سو وہ اس طرح متاثرکن نہیں تھے۔مسلم لیگ نے تو اپنا دبدبہ بلکہ دہشت قائم کر لی تھی۔ [اس نے ‘مسلم نیشنل گارڈ’ کے نام سے ایک نیم فوجی دستہ تیار کر لیا تھا، سنہ 1931 میں جس کے 3 لاکھ سے زیادہ ممبران بتائے جاتے ہیں۔

ان “رضاکاروں”نے مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر سیف الدین کِچلو، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمان اور دیگر کئی محب وطن لیڈران پر حملے کیے۔] لیگ کی اس دہشت اور انگریزوں کی اس کو برقرار رکھنے کی سازش، کانگریس اور آر ایس ایس و ہندو مہا سبھا جیسی دائیں بازو کی ہندو شدت پسند تنظیموں نے مل کر محب وطن مسلموں کی آواز دبا رکھی تھی۔ شمس الاسلام کے مطابق کانگریس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے ملک و آزادی سے جڑے معاملات میں مسلم لیگ کو ایسی توجہ دی گویا وہی ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ مہاتما گاندھی تک اتنی بڑی نادانی کر بیٹھے کہ محمد علی جناح سے خط و کتابت میں انہیں”قائدِ اعظم” کا خطاب دے ڈالا۔

مسلم علماء کی ایک بڑی تعداد نے قیام پاکستان کی مخالفت کی لیکن تعلیم یافتہ، مغرب زدہ طبقے، جیسے جناح اور شاعر محمد اقبال انہیں مجنون ملا قسم کے لقب دینے میں کامیاب رہے۔ مولانا حسین احمد مدنی جیسے جید علماء نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر جمہوریت اور سیکولرزم کا ذکر کرتے ہوئے متحدہ قومیت اور “ایک قوم کا نظریہ”پیش کیا، لیکن انہیں اقبال، جناح اور لیگ کے دیگر حمایتی مسلسل نشانہ بناتے رہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جناح جیسے لوگ جن کا کسی دین، کسی دھرم سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، انہیں ان لوگوں پر فوقیت مل گئی، جن کی زندگی اسلام کی خدمت میں گزری اور جو رب کی بندگی اور خدمت خلق کا نمونہ تھے۔ اس سب کے باوجود مدنی کی جمیعتہ العلماء تقسیم ہند کی سختی سے مخالفت کرتی رہی۔آل انڈیا مومن کانفرنس شمال مشرقی ہند کی ایک زبردست تنظیم تھی۔ یہ پسماندہ مسلمانوں کی نمائندگی کر تی تھی اور اس کے ممبران کی تعداد تقریباً ساڑھے 4 کروڑ تھی۔ ان میں زیادہ تر کاریگر، مستری جیسے محنت کش طبقے کے لوگ تھے۔ 1943 میں اس نے ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق، “ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی اور قومی حمیت کبھی گوارا نہیں کرے گی کہ اپنی مادر وطن کی تقسیم کر کے اسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔

لیکن اونچی ذات والوں کی اجارہ داری والی تنظیم مسلم لیگ نے مومن کانفرنس کو آسانی سے نظر انداز کر دیا، کیونکہ باوجود بھاری بھرکم نفری طاقت ہونے کے، ناقص انتخابی نظام کی بدولت کانفرنس کے پاس محض گنتی کے ووٹ ہی تھے۔ اسی طرح کا معاملہ ‘مجلس احرار اسلام’کے ساتھ بھی ہوا، جو متحدہ ہندوستان کی موافقت میں مضبوطی کے ساتھ کھڑی تھی۔ احرار کو انگریزوں نے سختی کے ساتھ کچل کر ختم کر دیا کیونکہ اس تنظیم نے دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان کے شامل ہونے کی سخت مخالفت کی تھی۔ نتیجتاً 1939 سے 1943 کے دوران احرار کے 9 ہزار سے زیادہ ممبران کو سخت سزائیں دی گئیں۔

آل پارٹی شیعہ کانفرنس، آل انڈیا مسلم مجلس، کرشک پرجا پارٹی بنگال، جمیعت اہل حدیث، انجمن وطن (بلوچستان)، ساؤتھ انڈین سیپریشن کانفرنس جیسی مسلمانوں کی کچھ دیگر اہم اور اپنا اثرونفوذ رکھنے والی تنظیمیں تھیں، جنہوں نے تقسیم وطن کی شدت سے مخالفت کی۔اس بابت بہت عجیب بات یہ ہے کہ پوری جدوجہد آزادی کے دوران اردو زبان و ادب نے مسلم لیگ کی زہریلی اور تفرقہ پرور سیاست کی پرزور مخالفت کی، لیکن آزادی کے بعد اردو کو ہی تقسیم اور قیام پاکستان کی ذمہ دار زبان کہا جانے لگا۔

اردو شاعری میں پاکستان کے تئیں جس طرح کے خیالات پیش کیے گئے، اس کا نمونہ معروف شاعر شمیم کرہانی کے اس کلام میں دیکھا جا سکتا ہے؛

ہم کو بتلاؤتو کیا مطلب ہے پاکستان کا

جس جگہ اس وقت مسلمان ہیں، نجس ہے کیا وہ جگہ؟

نیش تہمت سے ترے، چشتی کا سینہ چاک ہے

جلد بتلا کیا زمین اجمیر کی ناپاک ہے؟

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے وابستہ معروف و ممتاز مؤرخ پروفیسر ہربنس مکھیا نے کتاب کے پیش لفظ میں شمس الاسلام کی باتوں سے اتفاق کیا ہے۔ پروفیسر مکھیا یہ بھی بتاتے ہیں کہ انگریز حکمرانوں کے ساتھ کانگریس نے بھی جناح کو اپنا مقصد یعنی پاکستان حاصل کرنے میں خاصی مدد کی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ آزادی سے قبل کے ہندوستان میں قومی سطح کی کئی غیر مسلم شخصیات جیسے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے، وی ڈی ساورکر، ایم ایس گولولکر، سی راج گوپالاچاری اور سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بھی بار بار دو قومی نظریے کی کھل کر حمایت کی۔

شمس الاسلام نے بڑی عرق ریزی و مشقت سے اس دور کا مستند مواد جمع کر دیا اور یہی ان کے کام کی بڑی طاقت ہے۔ اسی تحقیق کی بدولت وہ اللہ بخش جیسے مجاہد تک پہنچ جاتے ہیں، جس نے مسلم لیگ کے خلاف زبردست جنگ لڑی۔ اللہ بخش سومرو سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے۔ سنہ 1940 میں انہوں نے جناح کے منصوبہ پاکستان کے خلاف ایک عظیم الشان آزاد مسلم کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس وقت کا انگریزی میڈیا لگ بھگ پوری طرح انگریزوں کی گرفت میں تھا، لیکن اسے بھی یہ قبول کرنا پڑا کہ یہ ہندوستانی مسلمانوں کا نمائندہ اجتماع تھا۔ اس کانفرنس میں نچلے اور محنت کش طبقے کی اکثریت شامل تھی۔

شہرہ آفاق انگریزی ادیب ولفریڈ کینٹ ویل اسمتھ اپنی کتاب ‘ماڈرن اسلام ان انڈیا:اے سوشل اینالسس’ مطبوعہ وکٹر جی لندن (1946)کے صفحہ 231 پر لکھتے ہیں؛اس میں کوئی شبہ نہیں کہ [آزاد مسلم کانفرنس] کے یہ شرکاء ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندگی کر رہے تھے۔آخرکار ہوا یہ کہ 1943 میں مبینہ طور پر لیگ کے غنڈوں نے اللہ بخش کا قتل کر دیا۔

(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )