خبریں

تمل ناڈو: 50 سے زائدلڑکیوں  کا جنسی استحصال، اے آئی اے ڈی ایم کے کا ممبر تھا ایک ملزم، پارٹی نے ہٹایا

تمل ناڈو کے پولا چی  سے ایک گروپ کے چار لوگوں کو پولیس نے گرفتار کیاہے ۔ یہ لڑکیاں چنئی کوئمبٹوراور تمل ناڈو کے مختلف علاقوں کی ہیں ۔ ان میں اسکول اور کالج کی اساتذہ، ڈاکٹر اور کالج کی طالبات ہیں ۔

علامتی فوٹوبہ شکریہ :Domi/ Flickr (CC BY-NC 2.0)

علامتی فوٹوبہ شکریہ :Domi/ Flickr (CC BY-NC 2.0)

نئی دہلی: تمل ناڈو میں لڑکیوں  کےجنسی استحصال کرنے والے ایک گروپ کا انکشاف ہوا ہے۔ اس گروپ میں شامل چارافراد فیس بک کے ذریعے عورتوں  سے دوستی کرکے ان کو ملنے بلاتے تھے اور ان کاجنسی استحصال کرتے تھے۔اپوزیشن  پارٹیوں نے اس میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے رہنماؤں کی مبینہ شمولیت کو لے کر ان کو تنقید کا نشانہ بنایاہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، یہ معاملہ تین ہفتہ پہلے اس وقت روشنی میں آیا، جب 19 سال کی ایک لڑکی کو بلیک میل کرنے اور اس کا جنسی استحصال کرنے کے معاملے میں پولیس نے ریاست کی پولاچی سے چار لوگوں کو گرفتار کیا۔ ان چاروں ملزمین کی عمر 20 سے 29 سال کے درمیان ہے۔

ان میں سے ایک ملزم تمل ناڈو میں حکمراں اے آئی اے ڈی ایم کے کا ممبر ہے۔ معاملہ روشنی میں آنے کے بعد پارٹی نے اس کی  رکنیت ختم کر دی ہے۔اے آئی اے ڈی ایم کے نے چاروں ملزمین میں سے ایک اے ناگراج کو گزشتہ 11 مارچ کو ایک لڑکی  کے بھائی کو دھمکانے کے معاملے میں پارٹی کی رکنیت ختم کردی ہے۔ سوشل میڈیا پر اے آئی اے ڈی ایم کے کے ایک وزیر کے ساتھ ملزم کی فوٹو سرکلیٹ ہونے کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا۔

اے آئی اے ڈی ایم کے کے رہنما پولاچی جئے رمن نے این ڈی ٹی وی سے بات چیت میں کہا، ہم نے اس کو پارٹی سے ہٹا دیا ہے۔ یہ سب ڈی ایم کے کی طرف سے کیا جا رہا ہے تاکہ انتخاب سے پہلے میری امیج خراب ہو۔ میرا بیٹا اور میں نے سب سے پہلے اس معاملے کی تفتیش کرنے کے لئے پولیس سے کہا تھا۔

ڈی ایم کے صدر ایم کے اسٹالن نے ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کیا اے آئی اے ڈی ایم کے حکومت ملزم کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہیں پی ایم کے رہنما امبومنی رام داس نے بھی مجرموں کے لئے زیادہ سے زیادہ سزا کی مانگ کی ہے۔ملزمین سے پوچھ تاچھ کر رہے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ دو ہفتہ تک حراست میں رکھے جانے کے بعد سوموار کو ملزمین کی ریمانڈ کی مدت بڑھا دی گئی ہے۔ ان ملزمین کے موبائل فون سے تقریباً 50 عورتوں کی تصویریں ملی ہیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق پولس افسر نے کہا،یہ ملزم فیس بک پر خواتین کے نام سے اکاؤنٹ بناکر خواتین کو پھسلاتے تھے۔ زیادہ تر معاملوں میں وہ متاثرین کے ساتھ ہم جنسی  اور سیکس سے متعلق معاملوں پر بات کرتے تھے۔ دوستی کے بعد فیس بک پر یہ لوگ خواتین سے شہوانی باتیں کرتے تھے۔ بعد میں اپنی اصلی پہچان اجاگر کرتے تھے اور ان چیٹ کو عام کرنے کی دھمکی دےکر ان کو ملنے کے لئے بلاتے تھے۔

انہوں نے بتایا،وہ چلتی گاڑیوں، ہوٹل اور فارم ہاؤس میں خواتین کا جنسی استحصال کرتے تھے۔ یہ متاثرین چنئی، کوئمبٹور، سالیم اور تمل ناڈو کے کئی دیگر حصوں کی ہیں۔ ان میں اسکول اور کالج کی استانی، ڈاکٹر اور کالج کی طالبات ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ زیادہ تر متاثرین نے فیملی والوں کے ڈر کی وجہ سے ایف آئی آر نہیں کرائی ہے۔ تفتیش کرنے والے  افسر نے کہا، ایف آئی آر درج کرانے سے انکار کرنے کے بعد چار متاثرین نے غیر رسمی طور پر یہ قبول  کیا کہ کس طرح سے وہ اس گینگ کے جھانسے میں پھنس گئیں۔

اس معاملے کی جانچ‌کر رہے ایک پولیس افسر نے کہا کہ اس معاملے میں درج پہلی شکایت کے مطابق، ان چاروں ملزمین میں سے ایک نے فیس بک پر ایک 19 سال کی لڑکی سے دوستی کی تھی۔افسر نے کہا، دونوں نے 12 فروری کو لنچ بریک کے دوران متاثرہ کے کالج میں ہی ملنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی متاثرہ ملزم کی گاڑی میں بیٹھی، اس کے تین دوست بھی کار میں جا بیٹھے۔ چلتی کار میں ان لوگوں  نے متاثرہ سے چھیڑچھاڑ کی اور اس کے باقی دوست اس کا ویڈیو بناتے رہے۔ ملزمین نے اس ویڈیو کا استعمال متاثرہ کو بعد میں بلانے اور پیسے اینٹھنے کے لئے بھی کیا۔

متاثرہ نے جب اس واقعہ کے بارے میں اپنی فیملی کو بتایا تو ان کے بھائی نے ملزمین سے اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرنے کی درخواست کی اور  اس کو بھی دھمکایا گیا۔ اس کے بعد فیملی نے پولیس تھانے میں شکایت درج کرائی۔پولیس افسر نے کہا، پولیس نے متاثرہ کے بھائی کو دھمکانے کے لئے ایک دیگر معاملے میں چاروں کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں پولاچی کے کچھ سیاسی طور پر متاثر کن لوگ بھی ہیں۔

پولاچی کے ڈی ایس پی آر جیارام نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ اگر ان کو اس طرح کے دیگر متاثرین کی جانکاری ہے تو پولیس کو مطلع کریں۔ اس کی جانکاری دینے والوں کی پہچان مخفی رکھی جائے‌گی۔ان چاروں ملزمین پر آئی ٹی ایکٹ2000 کی دفعہ 354 (2) اور 354 (بی) اور دفعہ 66 کے تحت اور تمل ناڈو خواتین ہراسمینٹ ایکٹ کی دفعہ چار کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔