فکر و نظر

جموں وکشمیر :حکومت کو آ خر جماعت اسلامی سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟

 حا ل میں جماعت پر جو پابندی عائد کی گئی ہے ان میں ایک گراؤنڈ ہے کہ یہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب اس سادگی پر کون نہ مر جائےاے خدا!  دراصل ملک بھر میں شہری نکسل واد کے نام پر جو کارروائی کی گئی اسی کا اعادہ اب جموں وکشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر کیا گیا ہے۔

فوٹو : وسیم نبی

فوٹو : وسیم نبی

70ء کی دہائی میں میرے چچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی (حال مقیم اسلام آباد) نے ہمارے آبائی قصبہ سوپور میں ایک تختی اور بستہ میرے کاندھوں پر لاد کر ہاتھ پکڑتے ہوئے محلہ مسلم پیر کی مرکزی درسگاہ میں پہلی جماعت میں میرا نام درج کروایا۔ گو کہ امتداد زمانہ نے اکثر یادیں دھندلی کر دیں ہیں، مگر جن مشفق اساتذہ نے ہاتھ تھام کر تعلیم کا آغاز کروایا، وہ ابھی تک ذہن میں نقش ہیں۔ مگر بس د و سال بعد ہی اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے درمیان ہوئے ایکارڈ کے بعد جب آخرالذکر وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، تو اسکول مقفل کر دئے گئے اور مجھ سمیت 20 ہزار طلبا کو سرکاری اسکولوں کی پناہ میں آنا پڑا۔

اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے حملوں اور عدالت کے ایک فیصلہ سے پریشان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون 1975کو پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ تازہ تازہ اقتدار کی دیوی کی آغوش میں آئے شیخ صاحب نے بھی دیکھا دیکھی کشمیر میں ایمرجنسی عائد کی اور جماعت اسلامی اور اس کے اداروں کو مقفل کردیا۔ جماعت تو ان دنوں انتخابی سیاست میں پیش پیش تھی اور اسمبلی میں اس کی نمائندگی بھی تھی۔ اندرا-عبداللہ ایکارڈ کی مخالفت درج کروانے کے لیے جماعت نے گاندر بل حلقہ سے شیخ عبداللہ کے مقابل محمد اشرف صحرائی کو بطور امیدوار میدان میں اتارا تھا۔ یہ ایک طرح سے ہاتھی اور چیونٹی کا مقابلہ تھا ، مگر نیشنل کانفرنس معمولی سا اختلاف رائے برداشت کرنے کی بھی متحمل نہیں تھی۔

صحرائی کے الیکشن ایجنٹ ڈوڈہ کے سعداللہ تانترے کو سید پوہ آلسٹینگ کے مقام پر کھیتوں میں نہ صرف زدو کوب کیا گیا، بلکہ ان کی ایک آنکھ نکالی گئی۔ حا ل میں جماعت پر جو پابندی عائد کی گئی ہے ان میں ایک گراؤنڈ ہے کہ یہ انتخابی سیاست میں یقین نہیں رکھتی ہے۔ اب اس سادگی پر کون نہ مر جائے  اے خدا!پلواما میں سیکورٹی دستوں کی کانوائے پر ایک خود کش حملے کے جوا ب میں پاکستان پر ہوائی حملوں کے بعد کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق وزیرا عظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی حکمت عملی کا رخ دوبارہ کشمیر کی طرف موڑ دیاہے۔ مگر وہاں بھی آپشن اب محدود ہیں۔

لیڈورں کو ہاؤس اریسٹ میں رکھنے ، فوجی آپریشن وغیرہ کی ناکامی کے بعداب بتایا جار رہا تھا کہ حریت کانفرنس پر پابندی عائد کرکے لیڈروں کو پابند سلاسل کرایا جائیگا۔ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یٰسین ملک کوپبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان کے خلاف 1990 کا ایک کیس دوبارہ کھولنے کی تیاری ہے، جس میں ان پر الزام ہے ہے بطور جے کے ایل ایف کمانڈر کے انہوں نے بھارتی فضائیہ کے کئی اہلکاروں کومبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔ میر واعظ مولوی عمر فاروق کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے دفعہ 121یعنی ملک کے خلاف بغاوت اور جنگ چھیڑنے جیسی دیگر دفعات کے تحت نوٹس جاری کیا ہے اور لگتا ہے کہ ان کو بھی جلد ہی پابند سلاسل کیا جائےگا۔

سید علی گیلانی پچھلے 9 سالوں سے مسلسل ہاؤس اریسٹ ہیں۔ پچھلے ہفتہ سرینگر سے دہلی واپس آتے ہوئے ایئر پورٹ روڑ پر جب ان کی رہائش گاہ پر پہنچا، تو دیکھا کہ گلی میں تین بکتر بند گاڑیاں ان کے گیٹ کو بلاک کئے ہوئے ہیں۔ سخت سردی میں د و درجن کے قریب سیکورٹی کے اہلکار باہر کھڑے ، اندر جانے کے لیے نام وغیرہ کا اندراج کر رہے تھے۔اندر جانے کی اجازت دینا ان کے موڈپر منحصر ہے۔ گیلانی صاحب خاصے کمزور نظر آرہے تھے ۔ گو کہ اخبارات و غیرہ کا مطالعہ کر رہے تھے، مگر بتایا کہ کمزوری اور نقاہت کے باعث اب کچھ تحریر نہیں کر پاتے ہیں۔ پہلی بار ڈائری سے ساتھ چھوٹ گیا ہے۔

ان کے دفتر کے افراد اور رفقاء زیر حراست ہیں۔ گھر کا نوکر چند ماہ قبل گاؤں گیا تھا، واپسی پر اس کو اندر جانے کی اجازت ہی نہیں ملی۔ اسی کڑی کے تحت جماعت اسلامی جموں وکشمیرپر پانچ سال تک پابندی عائد کرکے اس کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان ایڈوکیٹ زاہد علی سمیت 400 کے قریب اراکین کو اب تک گرفتار کیا جا چکا ہے۔ جماعت کے دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی سیل کئے گئے ہیں۔کئی جگہوں سے اطلاعات ہیں کہ ارکان کے گھر بھی سیل کئے گئے ہیں ۔ رات کے اندھیرے میں مکینوں ، جن میں خواتین و بچے شامل ہیں بے دخل کرکے گھر سیل کئے گئے ہیں۔ ان بے قصور افراد سے آشیانہ چھین کر مبتلائے عذاب کرنا انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، جب کہ گھر کے مرد حراست میں یا روپوش ہوں۔

1977میں جب جماعت پر پابندی اٹھائی گئی تو تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کیلئے اس نے فلاح عام ٹرسٹ قائم کیا۔ اس وقت اس ٹرسٹ کے تحت براہ راست 350 اسکولوں میں ایک لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں۔ تقریباً اتنے ہی اسکول بالواسطہ ٹرسٹ کی تعلیمی کاوشوں کے ساتھ جڑے ہیں۔ پابندی کے فوراً بعد جب دنیا کے دور دراز خطوں سے ان اداروں سے فارغ التحصل طلبا یعنی الومنیہ کے پیغامات آنا شروع ہوئے، تو پہلی بار معلوم ہوا کہ ان اداروں سے اٹھا ہوا ابر تو سارے جہاں پر برسا ہے۔ تقریباً 300الومنیہ نے ایک مشترکہ یادداشت میں حکومت کو بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ادارے غریب اور دور دراز کے دیہاتوں میں تعلیمی معیار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

اس لسٹ میں ایسے محقق اور پروفیسرز شامل ہیں جو فی الوقت نامور اداروں جیسے ہاروڑ یونیورسٹی، امپیریل کالج، سوئزرلینڈ ، ویسٹ منسٹر، امریکہ کے طبی تحقیق کے اداروں، بھارت کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، علی گڑھ و جامعہ ملیہ اسلامیہ وغیرہ میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کامیابی میں ان اسکولوں اور وہاں کے اساتذہ کی محنت اور لگن بھی شامل ہے۔اس یادداشت پر دستخط کرنے والوں میں ایک کشمیری پنڈت خاتون نتاشا کول بھی ہیں ، جو فی الوقت ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔

ایک طرف حکومت تو خود معیاری تعلیم دینے سے عاری ہے، دوسری طرف جو ادارے اس طرف سعی کرتے ہیں، ان کا گلہ گھونٹے سے نہیں کتراتی ہیں۔جموں و کشمیر میں اعلیٰ عہدوں پر برا جمان، خو د گورنر کے دفتر میں افسران کی ایک بڑی تعداد ان اسکولوں سے فارغ التحصیل ہے۔ اس یادداشت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 1990میں بھی اس وقت کے گورنر جگموہن نے ان اداروں پر پابندی عائد کی تھی ۔ مگر بعد میں سپریم کورٹ نے ان کو بحال کر دیا۔ ان الومنیہ کا کہنا ہے کہ آخر سیاسی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی کا نزلہ ان تعلیمی اداروں پر کیوں اتارا جاتا ہے۔ ۔1997 میں ویسے تو جماعت نے عسکری جدوجہد سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔

ایسے حالات میں جب کہ جماعت اسلامی کشمیر عسکریت میں براہ راست یا بالواسطہ شریک بھی نہیں ہے اور تعلیمی ، تبلیغی او ر رفاہی کاموں میں مشغول ہے، اس پر پابندی لگاناسمجھ سے باہر ہے۔ اس کی کارروائی ا ور پکڑ دھکڑ سے کشمیر میں حالات مزید خراب ہونے کااحتمال ہے۔ہند نواز نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی بھی پابندی کو غلط اقدام قرادے رہے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے سوال اٹھایا ہے؛

حکومت دہلی کو آ خر جماعت اسلامی کشمیر سے اتنی پریشانی کیوں ہے؟ ہندو انتہا پسند ہندو گروپوں کو جھوٹ پھیلانے اور ماحول خراب کرنے کی پوری آزادی ہے، جب کہ ایک ایسی تنظیم پر پابندی لگائی جارہی ہے جس نے کشمیریوں کی تعلیمی، سماجی اور فلاحی محاذوں پر لوگوں کی اَنتھک مدد کی ہے۔

‘ کوئی سیاسی نظریہ جب میدان عمل میں پوری طرح ناکام ہوجاتا ہے تو اس کے حاملین زور زبردستی پر اْتر آتے ہیں۔ بی جے پی جب فکری سطح پر اشترا کی دانشوروں کا مقابلہ نہیں کرسکی تو شہری نکسل واد کی اصطلاح گھڑکر اپنے خلاف اْٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی خاطر بیک جنبش زبان حقوق انسانی کا کام کرنے والوں کو’باغی اور دہشت گردوں کے حامی’قرار دے دیا گیا۔ ملک بھر میں شہری نکسل واد کے نام پر جو کارروائی کی گئی اسی کا اعادہ اب جموں وکشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار سے جب میں نے جماعت پر پابندی کے پیچھے حقائق جاننے کی کوشش کی، تو گویا ہوئے کہ کس طرح جماعت اسلامی کشمیر سوسائٹی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاکر ان کو سلفیت کی طرف مائل کرکے مقامی خانقاہوں اور حنفیت سے متنفر کرواتی ہے۔ جب میں نے کہا اگر واقعی یہ گراؤنڈ ہے تو اہل حدیث اور سلفی گروپوں پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی ؟ اگر سلفی واقعی اتنے خطرناک ہیں ،تو جہاں تک مجھے یاد ہے کہ کشمیر میں 1990میں صرف دو اہل حدیث مساجد تھیں ، جو اب حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 400سے تجاوز کر گئی ہیں۔


یہ بھی پڑھیں:جموں و کشمیر: جماعت اسلامی پرپابندی کتنی صحیح ؟


کون اس کی پشت پر ہے؟ اکتوبر2003میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کشمیر تشریف لائے تھے اور شہر کے وسط میں پولو گراؤنڈ میں ، اننت ناگ کے اسٹیڈیم میں ان کی تقاریر ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ گورنر ہاؤس میں بھی ان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی۔میں نے ان سے کہا کہ شیخ نورالدین ولی المعروف نند ریش کے کشمیری کلام کا اردو ترجمہ کرنے کا سہرا جماعت اسلامی کے رہنما قاری سیف الدین کے سر ہے۔ اسی طرح سید علی ہمدانی کا کشمیری مسلمانوں کو دئے گئے وظیفہ’آوراد فتحیحیہ’ کا ترجمہ اور تفسیر بھی جماعت کی ہی مرہون منت ہے۔

یہ سن کر افسر مذکور بغلیں جھانکنے لگا اور کہا کہ کوئی پرانی فائل جماعت کے متعلق بنی ہوگی ، جو ایسے مواقع پر نکالی جاتی ہوگی۔ ایک دہائی قبل حکومت کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ کشمیر میں حریت اورتحریک آزادی کے خلاف فکری رہنمائی کے لئے سلفی حضرات کو استعمال کیا جائے۔اب کچھ عرصہ سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ صوفی ازم کا دامن تھا م کر اس تحریک کو دبایا جائے۔ تین سال قبل دہلی میں مودی کی صدارت میں منعقد ایک صوفی کانفرنس میں ایک صاحب کو تو یہ بھی کہتے سنا ، کہ اب ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے کارکنان اور مشائخ وہابیوں اور دیوبندیوں کے خلاف شانہ بہ شانہ لڑیں گے۔

پلواماواقعہ نے شاید اب ان کی آنکھیں کھول دی ہوں۔ کیونکہ مبینہ خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار کا تعلق ایک بریلوی طرز فکر فیملی سے تھا۔ پلواما کے گونڈی باغ گاؤں میں اس کے والد غلام حسن ڈار کے بقول عادل مقامی درگاہ میں نعت خوانی اور امام صاحب کی عدم موجودگی میں امامت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ قرآن کے چند پار ے حفظ کرنے اور نعت خوانی کی مشق کے لیے اس نے چند ماہ ایک بریلوی دارلعلوم میں گزارے تھے اور حنفی اعتقاد کے نظریہ کے مخالفین کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے سے چوکتا نہیں تھا۔ یہ شاید ان کے لئے ایک تازیانہ ہے ، جو کشمیری تحریک کو مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ پرستی سے جوڑ تے ہیں۔

فوٹو : وسیم نبی

فوٹو : وسیم نبی

یہ لوگ بھول جاتے ہیں، کہ مغربی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے پہلے طالبان، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی پرورش کی، عراق میں تو داعش کو ہتھیار اور ان کے خلاف لڑنے والی تنظیموں کو فوجی ٹریننگ بھی دی۔پھر یہ نعرے بلند کئے ، کہ مسلمانوں میں شدت پسندی آرہی ہےجسے لگام دینے کی ضرورت ہے۔اور اس کے لئے تصوف کی تشہیر کی جانے لگی۔ شاید یہ اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں، کہ شدت پسند اور اعتدال پسند ہرفرقہ، مسلک میں موجود ہوتے ہیں۔ ہندوستان  میں توہمیشہ سے ہی حکومتیں مسلمانوں کو مولانا ابولکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی کی تقلید کی تاکید کرتی آئی ہیں، کیونکہ ان دونوں رہنماؤں نے مسلم لیگ اور نظریہ پاکستان کے خلاف کانگریس کو ایک متبادل نظریاتی اساس فراہم کی تھی۔

اسی طرح تعلیم کے میدان میں سرسید احمد خان کو ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے ایک قائد کا رتبہ حاصل رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، نہ ہی کوئی فرقہ یامسلک اس کی اجازت دے سکتا ہے۔مظلوم خطوں کے عوام اگر جبری قبضوں اور ظلم کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، تو اس کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی طاقتوں نے تصوف کی حوصلہ افزائی صرف اس وجہ سے کی، کہ اپنی سلگائی ہوئی آگ کے شعلے اس کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔

ان کے یہاں تصوف کا نظریہ یہ ہے، کہ مسلمان ہر حالت میں مہر بہ لب رہنے کی عادت بنا ڈالے۔ حالات سازگار ہوں تو شکر کے ساتھ خاموش اور اگر ظلم و ستم اور عزت و آبرو کا خون ہوتا ہوا دیکھے، تب بھی خاموشی اور بے حسی کو شعار بناڈالے۔ نہ کہ سید سالار مسعود غازی کی طرح ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔تصوف کا مقصد انسانیت سے پیار ، محبت ، شفقت سے پیش آنا اور کردار سازی کرنا ہے، تاکہ نہ صرف گفتار، بلکہ کردار سے ایک مسلمان دیگر مذاہب کے ساتھ مکالمہ کرے، جو صوفی بزرگوں کا، چاہے، کشمیر میں میر سید علی ہمدانی، نورالدین ولی ہوں یا ہندوستان  میں خواجہ معین الدین چشتی یا نظام الدین اولیا ہوں کا خاصا رہا ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)