خبریں

الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت سے شراب کے علامتی اشتہاروں پر روک لگانے کو کہا

الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ میوزک سی ڈی اور شیشے کے گلاس کے اشتہاروں میں مصنوعات کے نام چھوٹے حروف میں لکھے ہوتے ہیں جبکہ شراب کمپنیوں کے لوگو بڑے ہی واضح طور پر دکھائے جاتے ہیں۔یہ اشتہار علامتی طریقے سے شراب پینے اور فروخت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

اسمبلی کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بدھ کو لکھنؤ میں صحافیوں  کو مخاطب  کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

اسمبلی کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بدھ کو لکھنؤ میں صحافیوں  کو مخاطب  کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت اور ایکسائز ڈپارٹمنٹ کو ٹی وی ،سنیما حال اور کسی بھی اخبار اور میگزین وغیرہ میں شراب کے علامتی اشتہاروں پر روک لگانے کی ہدایت دی ہے۔جسٹس سدھیر اگروال اور جسٹس اجیت کمار کی بنچ نے اسٹرگل اگینسٹ پین نام کی سوسائٹی کے صدر منوج مشرا کے ذریعے دائر عرضی کو منظور کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا ۔

عدالت نے ایکسائز ڈپارٹمنٹ اور پولیس محکمے کو اس طرح کے کسی بھی علامتی اشتہار پر روک کو یقینی بنانے کے لیے مناسب کارروائی کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔اس عرضی میں میگزین اور اخباروں میں شائع مختلف اشتہاروں کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ عرضی گزار کی دلیل تھی کہ چونکہ یہ اشتہار میوزک سی ڈی یا شیشے کے گلاس کی تشہیر کے لیے کیے گئے،لیکن ان مصنوعات کے نام بہت چھوٹے حروف میں لکھے ہوتے ہیں اور یہ بڑی مشکل سے دکھائی دیتے ہیں۔حالانکہ شراب کے برانڈ کا لوگواس طرح کے اشتہاروں میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔

عرضی گزاروں نے دعویٰ کیا کہ شراب مینوفیکچررس کے ذریعے اس طرح کی اشتہاروں پر موٹی رقم خرچ کی جاتی ہے۔وہ علامتی طریقے سے شراب پینے اور اس کی  فروخت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔عرضی گزاروں نے دعویٰ کیا کہ یہ اشتہار اس طرح سے بنائے جاتے ہیں کہ اصل مصنوعات کو ہولوگرام/مونوگرام کی صورت میں دکھایا جاتا ہے جس میں شراب لفظ یا شراب کی قسم کا ذکر نہیں ہوتا ہے اور اس طرح سے وہ قانون کے تحت سزا سے بچ جاتے ہیں۔

اس عرضی میں فریق بنائی گئی کچھ شراب کمپنیوں نے اس دعوے کے ساتھ اپنا بچاؤ کیا کہ شراب کے علاوہ ،وہ اس طرح کے مصنوعات بھی بناتی ہیں اور اس طرح کے مصنوعات کے اشتہار پر قانون میں کوئی روک نہیں ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)