فکر و نظر

رام چندر گہا کا کالم: کیا آپ پدم نابھ جینی کو جانتے ہیں؟

علم کی تلاش میں پدم نابھ جینی کی یہ کٹھن یاترا ہمارے دور کے لیے، جس میں ہر قسم کی معلومات آن لائن ہو گئی ہے، ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ حالانکہ گوگل اور یو ٹیوب کسی کو بھی سست اور آرام پسند بنا سکتے ہیں۔

فوٹو : www.siliconeer.com

فوٹو : www.siliconeer.com

1998 میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا (بارکلے) میں پڑھاتے ہوئے  میری دوستی پدم نابھ جینی سے ہو گئی۔ وہ مجھ سے عمر میں بھی بڑے تھے اور علم میں بھی۔ انہیں نہ صرف بدھ اور جین مت پر زبردست مہارت حاصل تھی، بلکہ آدھا درجن زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ وہ ایک ایسے نرم مزاج دانشور تھے جنہیں ان کا صحیح مقام نہ ملا۔ بجائے بحث و مباحثے میں پڑنے کے انہیں تھوڑا جھک جانا پسند ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان اپنے مخالف جنس یا متضاد نظریے کی  طرف راغب ہوتا ہے۔ اس معاملے میں میرے ساتھ بالکل ایسا ہی تھا۔ پدم نابھ جینی بقید حیات ان دو یا تین دانشوروں میں ہیں، جن کا میں گرویدہ ہوں۔

پروفیسر جینی کی یادداشتوں پر مشتمل 135 صفحات کی کتاب ‘کو انسیڈینسیز’ (یوگ یوگ) آ گئی ہے۔ کرناٹک کے ساحلی علاقے میں سکونت پذیر ایک غریب جین خاندان میں ان کی پیدائش (1923) کے وقت سے اس کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کے والد ایک اسکول میں ٹیچر تھے اور والدہ گھریلو خاتون۔ ایسی خاتون جن کی نظمیں اور مضامین کنڑ زبان کے رسالوں میں شائع ہوتے تھے۔ پدم نابھ کے بچپن کی رنگارنگ یادداشتوں میں ہزار ستونوں والا موڈ بڈری کا مندر بھی ہے، جس کی تعمیر پندرہویں صدی میں ہوئی تھی۔  وہ لکھتے ہیں؛

سب سے یادگار موقعہ لکش دیپ کا ہوتا تھا، جو عرصے بعد آتا۔ اس وقت مندر کے مرکزی حصے میں لگی تصویر کے دونوں جانب زمین پر ہزاروں دیے روشن کیے جاتے۔ اس دلکش سماں سے جن (جین دھرم کی مذہبی کتاب) میں بیان کی گئی روحانی آگہی کی کیفیت پیدا ہو جاتی۔

تلو اور کنڑ بولتے ہوئے پدم نابھ بڑے ہوئے۔ والد نے انہیں ہندی اور کام چلاؤ انگریزی سکھائی تو والدہ نے جین تیرتھنکروں کے نام یاد کرائے۔ اپنے بیٹے کو لے کر ان کے والد کی خواہشات بڑی تھیں۔ سو دس سال کی عمر میں انہیں پڑھائی کے لیے ملک کے دوسرے کونے میں واقع ودربھ علاقے کے کرنجا نامی قصبے میں بھیج دیا گیا۔یہاں کے آشرم اسکول میں جو تعلیم دی جاتی تھی، پدم نابھ کے وطن تلوناڈو میں اس کا نظم نہیں تھا۔

لیکن کرنجا میں دوسری مشکل تھی۔ تین زبانیں اچھی طرح جاننے کے باوجود پدم نابھ کو اب مراٹھی سے واقفیت کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس اسکول میں اپنا پہلا دن یاد کرتے ہوئے انہوں نے لکھا،

کھیل کے وسیع میدان میں، لمبے وقت تک میں اکیلا کھڑا رہا، گھر کو یاد کرتا اور اندر سے ڈرا ہوا۔ سوچتا رہا کہ یہاں بغیر مراٹھی کے میرا کام کیسے چلے گا؟ اس کا رسم الخط کیسا ہوگا اور میں اسے کیسے سیکھ پاوں گا؟

اسکالرشپ کی آمد نے گھر کی یاد بھلانے میں مدد کی۔ اس کے علاوہ اسکول کے قانون قاعدے کافی سخت تھے، جس میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ صبح پانچ بجے اٹھنا۔ نہا دھو کر پرارتھنا کے لیے جمع ہونا۔ اس کے بعد صبح کے کھانے تک خود سے پڑھائی کرنا۔ 10 بجے سے 4 بجے تک اسکول لگتا تھا۔ اس کے بعد ورزش، پھر رات کا کھانا اور آخری پرارتھنا کے بعد سونا۔

تین سال کی کٹھن پڑھائی کے بعد انہیں جین مذہب کی مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے کولہاپور کے اسکول میں بھیج دیا گیا۔ اس طرح گھر چھوڑنے کے پانچ سال بعد وہ واپس لوٹے۔ اس کے لیے انہیں کئی ریل اور بسیں بدل بدل کر ایک طول  سفر طے کرنا پڑا۔ ان لمحات کا انہوں نے بڑا جذباتی منظر پیش کیا ہے؛

میں گھر میں دوڑتا ہوا گھسا اور جا کر سیدھے دادی ماں کے قدموں میں گر پڑا۔ وہ شام کے وقت تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں۔ جلد ہی میرے چچا پدم راج آ گئے اور ہم دونوں مل کر دیر تک روتے رہے۔ اس کے بعد سب سے پہلے وہ مجھے شام کی آرتی کے لیے بساڈی (مندر) لے گئے اور میرے لیے دعائیں کیں۔’ پھر ‘ایک ماہ تک تفریح کا دور چلا۔ من پسند کھانے کھانا۔ رشتےداروں و دوستوں سے ملنا ملانا۔ مختلف بساڈیوں میں جا کر عبادتیں کرنا۔

اس طرح پر لطف چھٹیاں گزار کر پدم نابھ ایک بار پھر دوردراز کے کولہاپور والے اپنے اسکول پہنچ گئے۔1943 میں میٹرک کرنے کے بعد بیچلرس ڈگری کے لیے وہ ناسک جا پہنچے۔یہاں ایک مہربان جین ویاپاری نے انہیں لڑکوں کے ایک ہاسٹل کا وارڈن بنا دیا۔ پدم نابھ کے ذمے ہوسٹل کے بچوں کی تربیت کا کام تھا، جس کے بدلے ان کے کالج کی فیس کا انتظام ہو جاتا تھا۔ ناسک میں انہوں نے سنسکرت اور پالی کے مطالعے کو کمال درجے تک پہنچا دیا۔ ان کی تعلیمی لیاقت دیکھ کر پرنسپل نے صلاح دی کہ انہیں اپنی صلاحیت کا استعمال ‘اس چھوٹی سی جگہ’کے بجائے کسی بڑے شہر میں کرنا چاہیے۔

اس ابھرتے ہوئے اسکالر کا اگلا پڑاؤ احمدآباد تھا۔ یہاں بھی ایک مخیر تاجر نے ان کی مدد کی اور ماسٹرس ڈگری حاصل ہونے تک ٹھہرنے اور کھانے کی فکر سے انہیں آزاد کر دیا۔ اس شہر میں جو کبھی مہاتما گاندھی کا شہر تھا، پدم نابھ نے سڑکوں پر گجراتی اور کلاس روم میں پالی زبان سیکھی۔ اب ان کا رجحان بودھ مت کی جانب تھا۔ اس کے تحت وہ متون میں عقیدے کی روایت اور عمل کا تقابلی مطالعہ کرنا چاہتے تھے۔

پدم نابھ جینی نے 1949 میں اپنا ایم اے مکمل کر لیا۔ اس سے ایک سال پہلے گاندھی کو مار دیا گیا تھا، لیکن اپنی شہادت سے پہلے انہوں نے اپنے دوست بودھ مت کے ماہر دھرمانند کوسامبی کے نام سے معنون ایک اسکالرشپ کی منظوری دے دی تھی۔ مہاتما کے ایک پیروکار کاکا کالیلکر سے ممبئی میں ایک اتفاقیہ ملاقات نے پدم نابھ کو بطور اول کوسامبی اسکالر منتخب ہونے میں خاصی مدد کی۔ پالی کا مزید مطالعہ کرنے کے لیے انہیں سری لنکا بھیجا گیا۔ جب وہ کولمبو میں اسٹڈی کر رہے تھے تو وہاں ورلڈ فیلوشپ آف بدھسٹس کا انعقاد کیا گیا۔ ڈاکٹر بی آر آمبیڈکر نے ‘اس میں اعلان کیا کہ ذات پات کی لعنت سے مملو ہندوستانی سماج کو صرف بودھ مت ہی بچا سکتا ہے۔ اس بات کی وہاں زبردست پذیرائی کی گئی۔’

پدم نابھ جینی کی اس خود نوشت کا ایک دلکش حصہ وہ ہے، جس میں انہوں نے اپنے ذہنی و فکری رہنماؤں کو جذبہ تحسین کے ساتھ یاد کیا ہے۔ تلوناڈو، کرنجا، کولہاپور، ناسک، احمدآباد، ممبئی اور کولمبو کے اپنے اساتذہ کے انہوں نے متاثرکن خاکے پیش کیے ہیں۔ جن میں ان ماہرین کا کردار، ان کی قابلیت اور ان کے پڑھانے کا انداز، سب آ گیا ہے۔ ان میں آچاریہ نریندر دیو کا خاکہ بہت عمدہ ہے۔ جینی نے 1952 میں جب بنارس ہندو وشوودیالیہ جوائن کیا تب آچاریہ وہاں وائس چانسلر تھے۔ گاندھی اور نہرو کے قریبی ساتھی رہے، مجاہد آزادی نریندر دیو نے کئی سال انگریزوں کی جیل میں گزارے۔ تاریخ و فلسفے پر انہیں عبور حاصل تھا۔ بعد میں نہ ان جیسا سیاستداں آیا، نہ ہی یونیورسٹی کا ایڈمنسٹریٹر آ سکا۔ نریندر دیو نے جینی کی ایسی تربیت کی، جو آج ہندوستان کی کسی بھی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی فہم و دانش سے باہر کی بات ہے۔

PadnamanabhJaini_Memoir

بی ایچ یو میں جینی کی ملاقات انگلینڈ سے آئے ایک وزیٹنگ پروفیسر سے ہو گئی۔ وہ جینی سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہیں لندن واقع اپنے ادارے ‘دی  اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز’ میں بلا لیا۔ تلوناڈو جیسی چھوٹی جگہ کے شرمیلے جینی نے دس سال دنیا کے ایک بڑے شہر میں طلبا کو پڑھاتے گزارے۔ چھٹیوں میں وہ قدیم مسودات، مخطوطات کی کھوج میں جنوب مشرقی ایشیاء کی جانب نکل جاتے۔ اس کے لیے انہوں نے برما، کمبوڈیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور افغانستان کے اسفار کیے۔ یہاں قدیمی منادر تک پہنچے اور نادر مخطوطات تلاش کرتے رہے۔ بامیان میں انہوں نے بدھ کے گراں ڈیل مجسمے دیکھے؛ جنہیں بعد میں جاہلوں کے ایک طبقے نے تباہ کر دیا تھا۔ جینی نے ان مجسموں کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کوئی بھی بدھ کی تعلیمات کبھی ختم نہیں کر سکتا۔

پدم نابھ جینی کے مطبوعہ کام سے اس بار متاثر ہونے کی باری امریکن اکیڈمی کی تھی۔ سو 1967 میں اپنی بیوی اور دو جواں سال بچوں کے ساتھ انہوں نے این آربر میں یونیورسٹی آف مشی گن جوائن کر لی۔ پانچ سال بعد پورا ملک پار کر کے وہ کیلی فورنیا پہنچ گئے۔ اس پر انہوں نے لکھا ہے؛

اب ہم حقیقت میں بحرالکاہل کے ساحل پر تھے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری ٹرین نیلیکر، موڈبڈری، کرنجا، ناسک، احمداباد، بنارس، لندن کو چھوڑتی ہوئی اب این آربر، اپنے ٹرمینل کو پہنچ چکی ہے۔ یہی خوبصورت برکلے میری منزل بھی ہے۔

علم کی تلاش میں پدم نابھ جینی کی یہ کٹھن یاترا ہمارے دور کے لیے، جس میں ہر قسم کی معلومات آن لائن ہو گئی ہے، ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ حالانکہ گوگل اور یو ٹیوب کسی کو بھی سست اور آرام پسند بنا سکتے ہیں۔ ادھر ادھر بہکے بنا، اپنے ذوق و شوق سے پدم نابھ جینی نے جو علم و کمال حاصل کیا، اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والی نسل اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

خاندانی پس منظر اور علمی لیاقت دیکھتے ہوئے جینی کے ہم عصروں میں بھی ان سے مماثل شخصیت نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر دیکھنا چاہیں تو امریکن اکیڈمی سے ہی وابستہ ان کے دو عظیم ہم عصروں امرتیہ سین اور جگدیش بھگوتی کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ دونوں خوشحال، بااثر گھرانوں میں پلے بڑھے۔ حیثیت اور طاقت والوں کی زبان انگریزی میں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ سین کے والد شانتی نکیتن میں پروفیسر تھے اور ان کا نام رابندرناتھ ٹیگور نے رکھا ہے۔

ملک اور بیرون ملک کے نامور تعلیمی اداروں جیسے پریسیڈینسی کالج کلکتہ اور ٹرینیٹی کالج کیمبرج میں انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ بمبئی میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے بھگوتی کے والد سپریم کورٹ کے جج تھے۔ سین کی طرح ہی انہوں نے بھی انڈر گریجویٹ ڈگری کیمبرج سے لی۔ دونوں کو بین الاقوامی سطح کے ماہرین کی سرپرستی حاصل رہی۔ جبکہ جینی کی تعلیم و تربیت مضافات کے اداروں میں، ایسے لوگوں کی زیر نگرانی ہوئی، جنہیں ہندوستانی بھی اچھے سے نہیں جانتے۔

سین و بھگوتی کی قدر کم کرنے کے لیے میں نے یہ نہیں لکھا ہے۔ ان کی دانشورانہ لیاقت و اہمیت مسلم ہے۔ میں نے تو ایک بہت مخصوص پدم نابھ جینی کی زندگی کے اوراق پلٹے ہیں کہ وہ کیسی تھی۔ وہ حیرت انگیز کر دینے والا انسان اور ایک غیر معمولی اسکالر ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کی خود نوشت خاصی پڑھی جائے گی۔

(انگریزی سے ترجمہ: جاوید عالم)