فکر و نظر

رویش کا بلاگ: اب کی بار پچکاری سرکار ؟

نہرو چپ  ہو گئے لیکن نریندرچپ  نہیں رہیں‌گے۔ جو نہرو نہیں کر پائے، وہی تو نریندر کرتے ہیں۔ وہ جھولا جھلاتے ہیں تو چین کو جھلسا بھی دیں‌گے۔ مار پچکاری، مار پچکاری رنگ دیں‌گے۔ چین کا چہرہ بدل دیں‌گے۔ مسعود اظہر کا جو دوست ہے، وہ چین ہمارا دشمن ہے۔

عللامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

عللامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی

بھائیوں بہنوں، ہم چین کو پچکاری مار مار کر رنگ دیں‌گے۔ چین نے دہشت گرد کا ساتھ دیا ہے۔ اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔ ہم نے پاکستان کو گھس‌کے مارا۔ اب چین کو پچکاری سے مار دیں‌گے۔ ہولی کے پہلے جتنی بھی پچکاریاں آئی ہیں، میں ہردیش بھکت  سے اپیل کروں‌گا کہ وہ صرف تین چیزیں لےکے سرحد پر پہنچے۔ ایک بالٹی پانی، رنگ اور چین کی پچکاری۔ اس  بار ہم سب پچکاری سے ہی چین کی فوج کو زکام کرا دیں‌گے۔ چھینکتے چھینکتے چین کی بولتی بند ہو جائے‌گی۔

بھائیوں بہنوں، میں نے سارے اینکروں کو ٹوئٹ کیا ہے کہ وہ بھی اسٹوڈیو میں پچکاری لےکر اینکرنگ کریں۔ اب ہر ہندوستانی کے لئے کانگریسی چین کے حامی بن گئے ہیں۔ کانگریس کے رہنماؤں نے پاکستان کی حمایت کی ہے۔ چین نے پاکستان کی حمایت کی ہے۔ اینکروں سے اپیل ہے کہ وہ کانگریس کے ترجمان آلوک اور راجیو تیاگی کو رنگ رنگ کر رنگ دیں۔ ہم بدلہ لیں‌گے۔ ہر ہر مودی، گھر گھر ہولی۔

وزیر اعظم کی یہ تقریر سن‌کر میں تیار ہوکر وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے لئے نکل پڑا۔ ان باکس کے بستے میں پڑی کتابوں کو پلٹنے لگا۔ کمیونسٹ پروفیسر نے اس چیپٹر کو غائب کر دیا تھا جس میں چین کی پچکاری کی مخالفت کی تاریخ لکھی تھی۔ صبح سے ایک بھی میسیج نہیں آیا کہ آج چین کی پچکاری کا بائیکاٹ ہوگا۔ جو ہندوستانی چین کی پچکاری بیچے‌گا وہ مسعود اظہر کا داماد ہوگا۔ اپنا وہاٹس ایپ اسٹیٹس تیار کرنے کے بعد میں نے اس کو اب کی بار پچکاری سرکار والے گروپ میں بھیج دیا۔ وہاں سے وائرل ہو گیا۔

چین ہمیشہ دہشت گردی  کا دوست رہا ہے۔ ہمیں چین کا ساتھ نہیں دینا ہے۔ جو لوگ چین سے سامان لاکر ہندوستان کا پیسہ بیجنگ بھیجتے ہیں، ہم ان کو دارجلنگ بھیج دیں‌گے۔ وہاں ان کو ہندوستانی مومو بنانے  کی ٹریننگ دی جائے‌گی۔ ہم نے چین کو جھولا جھلایا مگر چین نے ہمیں جھلا دیا ہے۔ ہمارا کام ہو گیا ہے۔ سردار پٹیل کا مجسمہ ہم نے بنوا لیا ہے۔ چین کے انجینئر جا چکے ہیں۔ ہندوستانی کاریگر بنا پگار کے بھی سردار پٹیل کی حفاظت کر سکتے ہیں۔

مگر ہم چین کی یہ دھمکی برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔تبھی ٹی وی پر وزیر اعظم کی ایک اور تقریر آ گئی۔وہ عوام سے پوچھ رہے تھے۔ چین کو گھر میں گھس‌کے مارنا چاہیے کہ نہیں۔ ایک اینکر نے اعلان کر دیا ہے۔ چین سے جنگ کے سروے ہونے لگے ہیں۔ سرحد پر وزیر اعظم کے بھکت  پچکاری بھر‌کرجاتے ہوئے دکھ رہے ہیں۔

آخر کب تک ہم چین کو لےکرچپ  ہوتے رہیں‌گے۔ نہرو چپ  ہو گئے لیکن نریندرچپ  نہیں رہیں‌گے۔ جو نہرو نہیں کر پائے، وہی تو نریندر کرتے ہیں۔ وہ جھولا جھلاتے ہیں تو چین کو جھلسا بھی دیں‌گے۔ مار پچکاری، مار پچکاری رنگ دیں‌گے۔ چین کا چہرہ بدل دیں‌گے۔ مسعود اظہر کا جو دوست ہے، وہ چین ہمارا دشمن ہے۔

تبھی وہاٹس ایپ یونیورسٹی میں ایک میسیج آتا ہے۔ چین کو لےکر مخالفت پچکاری اور پھول جھڑی تک ہی محدود رکھنا ہے۔ نیوز اینکروں کو چین کے ساتھ امن کی بات کرنی ہے۔ یہ نہیں کہنا ہے کہ چین نے مسعود اظہر کا ساتھ دےکر پلواما کے شہیدوں کی بے عزتی کی ہے۔ چین کو لےکر خاموشی جیسے بریکنگ نیوز نہیں چلانے ہیں۔ چین ڈر گیا ہندوستان سے یا ہندوستان ڈر گیا چین سے اس طرح کے نعرے چینلوں پر نہیں لکھے ہوں‌گے۔ ایک بندہ تھا جو نیوز روم میں جاجا کر سب کو ڈانٹ رہا تھا۔ ایڈیٹر مرغا بنے بیٹھے تھے۔ ایڈیٹروں کے مالک امت شاہ سے بریف کیس میں ہدایت لے رہے تھے۔ اشتہار کا نیا نام ہدایت ہے۔

پھر اچانک کوئی زور سے چلاتا ہے۔ وزیر اعظم مودی کا لائیو چینلوں پر آنے لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں بھائیوں اور بہنوں، شہیدوں کی بے عزتی کانگریس نے کی ہے۔ اس کو ہرانا ہے۔ چین اپنےآپ ہار جائے‌گا۔ ہماری غیرملکی پالیسی اٹاوا سے لےکر بیگوسرائے تک ہٹ ہے۔ ہم جیت رہے ہیں۔ ہم نے پاکستان کو گھس‌کر مارا ہے۔ آپ اسی میں یہ سمجھ لو کہ ہم نے اس کے دوست چین کو بھی مارا ہے۔ ہم ون پلس ون نہیں کرتے، ہم ون ٹو کا فور کرتے ہیں۔ ون ٹو کا فور۔

میں خواب سے باہر آ رہا تھا۔ نیند ہلکی ہونے لگی۔ کھڑکی پر بیٹھا بارش کی بوندیں گن رہا تھا۔ رائے پولنگ بوتھ پر ووٹ پڑ رہے تھے۔ لوگ اپنے جھوٹ سے ہار رہے تھے۔ گاؤں گاؤں میں لوگ کہہ رہے تھے کہ غیرملکی پالیسی میں مودی جیت گئے ہیں۔ چین کی پچکاری سے چین کو ہرا دیا ہے۔

اینکر نے اعلان کیا۔ 70 سالوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ آج پہلی بار جھوٹ جیت گیا ہے۔ میں جاگ گیا تھا۔ وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے ان باکس میں میسیج چیک کرنے لگا تھا۔ ابھی تک چین کی پچکاری کے بائیکاٹ کی کوئی اپیل نہیں آئی ہے۔ کیا آپ کے پاس ایسے میسیج آنے لگے ہیں؟

(یہ مضمون  رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔ )