فکر و نظر

کیوں پنیہ پرسون باجپئی جیسے لوگوں کو عوام کی نگاہ سے الگ کرنا ضروری ہے؟

آخر کیا بات ہے کہ زراعتی معاملہ  ہو، اقتصادیا ت  کے دوسرے پہلوہوں، یونیورسٹی ہوں یا اسکول، ہندی اخباروں یا چینلوں سے ہمیں نہ تو صحیح جانکاری ملتی ہے، نہ تنقیدی تجزیہ؟ کیوں ساری  ہندی میڈیا حکومت کی جئے جئے کار میں مصروف  ہے؟

فوٹو بہ شکریہ: سوریہ  سماچار / فیس بک

فوٹو بہ شکریہ: سوریہ  سماچار / فیس بک

پنیہ پرسون باجپئی کو سوریہ  ٹی وی چینل نے نوٹس دے دیا ہے۔ وجہ بتائی نہیں جاتی ہے اس لئے ان کو دئے گئے نوٹس میں بھی نہیں بتائی گئی ہے۔لیکن کیا ہم وجہ نہیں جانتے؟ صرف ہندی جاننے والی  عوام کو کچھ بھی سچ معلوم نہ ہو سکے، اس کے لیے  جانے کتنی تدبیریں  پچھلے پانچ سالوں میں کی گئی ہیں!اس کے آگے کہ ہم کچھ اور بات کریں، یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ پنیہ پرسون کے ذریعہ معاش کا مسئلہ نہیں ہے۔

یہ ہندی عوام کے اطلاعات  کے حق پر جو کلہاڑی چلائی جا رہی ہے، اس پر ایک اور گہرا وارہے۔اس عوام کو جانکاری سے محروم  اور سوچ سمجھ کے  لائق  نہیں رہنے دینے کی ایک سازش ہندی اخبار عرصے سے چلا رہے ہیں۔ ہندی چینل اسی سازش میں شامل ہوئے۔ اور اب حکومت ان دونوں کی سواری گانٹھتے ہوئے ہندی عوام کو پوری طرح گمراہ کرنے کی بےرحمی پر آمادہ ہے۔رویش کمار ایک اکیلے ناخدا ہیں، جن کا اکیلاپن ان کو ناقابل یقین بنانے کے کام آتا ہے۔ رویش، پنیہ اور ابھیسار جیسے صحافیوں کی جب تک کمیونٹی نہ بنے، ان کا وسیع پیمانے پربھروسہ قائم ہونا مشکل ہے۔

دھیان رہے کہ یہ تینوں ایک ہی آواز میں بولنے والے نہیں۔ تینوں کا ہر موضوع میں نظریہ بھی ایک نہیں، نہ ان کا لہجہ یا انداز ایک ہے۔ لیکن یہ تینوں کم سے کم سچ کو تلاش کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور اس کے لئے محنت کرتے ہیں۔ماکھن لال چترویدی نے زمانہ پہلے صحافت کے مذہب اور اس کی ذمہ داری پر لکھتے ہوئے دھیان دلایا تھا کہ صحافی کا کام ایک موضوع کےماہر ہونےکے مقابلے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے۔اخبار کے قارئین کے پاس نہ تو وقت ہوتا اور نہ دانشورانہ ذریعہ کہ وہ اخبار میں لکھے کی جانچ‌کر سکے۔

اکیڈمک دنیا میں تو غلط دعوے  کی تفتیش ہو سکتی ہے۔ غلطی  کی اصلاح کی  جا سکتی ہے، لیکن اخبار میں ایک بار لاپروائی یا غلطی ہونے کی قیمت لاکھوں قارئین کے کسی موضوع میں غلط رویہ بنا لینے کاہوتا ہے۔ اس کا اثر مہلک ہو سکتا ہے۔صحافی یہ جانتا ہے کہ اطلاع کا سب سے بڑا ماخذ خود اقتدار ہوتا ہے۔ نصابی کتابوں سے لےکر پولیس، خفیہ ایجنسی اس کی طرف سے اطلاع کی تشہیر کرتی رہتی ہیں۔صحافی کا کام یہ انفارمیشن  جال کاٹ‌کر عوام کو سچ تک لے جانے کا ہے۔

جو یہ نہیں کرتا، جس کی خبر سے اقتدار الجھن میں نہیں پڑتا، وہ ایک ہندوستانی روح، ماکھن لال چترویدی کے مطابق صحافی کا مذہب نہیں نبھا رہا۔آخر کیا بات ہے کہ زراعت کا معاملہ ہو، اقتصادیات  کے دوسرے پہلو ہوں، یونیورسٹی ہوں، اسکول ہوں، ہندی اخباروں یا چینلوں سے ہمیں نہ تو صحیح جانکاری ملتی ہے، نہ تنقیدی تجزیہ؟کیوں ساری  ہندی میڈیا حکومت کی جئے جئے  کارمیں مصروف ہے؟


یہ بھی پڑھیں:رویش کا بلاگ: چراغ پٹیل کا جلنا، پنیہ پرسون باجپئی کا نکال دیا جانا اور آپ کا خاموش رہنا


اس ماحول میں پنیہ پرسون ایک ایسا کام کر رہے تھے جو ان کو باقی صحافیوں کی نگاہ میں مضحکہ خیز بنا رہا تھا۔ جیسے رویش کمار یا ابھیسار ہیں، ان کو صحافی نہیں، جانبدار کہا جاتا ہے۔ جانبداریہ ہیں، لیکن عوام کے جاننے کے حق کا اور اس کی قیمت ان کو چکانی ہی ہے۔ پنیہ پرسون اس سے پہلے جس چینل میں تھے، وہاں سے بھی ان کو بناوجہ بتائے نکال دیا گیا تھا۔اس نئے چینل کو آخر کیا لگا کہ جس شخص کو ابھی دو مہینہ پہلے بہت اصرار کرکے وہ لے آنے میں کامیاب ہوا تھا، اس کو اچانک الگ کرنا پڑا؟ابھی کچھ روز پہلے ہمیں پنیہ کے دفتر سے فون آیا، یوگیندر یادو کے ساتھ آج کے  حالات پر بات چیت کرنا طے ہوا ہے۔

جب ہم پہنچے تو یوگیندر نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ آخر اس چینل کے مالک کو کیا جنون سوار ہوا کہ آپ کو لے آیا! کیا وہ آپ کو نہیں جانتا؟ کیا اس سسٹم کے بارے میں  آپ کے  خیال سے واقف نہیں ہے؟پنیہ جواب میں ہنستے ہی رہے۔ شاید اس سوال کا اور کوئی جواب ہو بھی نہیں سکتا۔ جو بات پنیہ نے مرتب کی، وہ اتنے ٹھہراؤ کے ساتھ ہوئی کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔

یہ اطمینان ہندی کے چینلوں میں نایاب ہو چکا ہے۔ اب کوئی بھی اینکر ناظرین کو جانکاری دینے یا سوچنے کے لئے ذریعہ جٹانے میں دلچسپی نہیں رکھتا یا رکھتی۔مرغا لڑانے کا رواج عام ہو چکا ہے، شور کے گھٹا ٹوپ میں خیالات کی اکثریت کی غلط فہمی ہوتی ہے، سننے والے کے دماغ میں غلط فہمیوں  کے علاوہ اور کچھ نہیں بچتا۔

بات کرنے، سوچنے کا اور طریقہ ہو سکتا ہے، یہ اگر سامعین یا ناظرین کو معلوم ہونے لگے تو پھر جھوٹ کے شور میں کون دلچسپی لے‌گا؟یہ ایک وجہ ہے کہ پنیہ جیسے لوگوں کو عوام کی نگاہ سے الگ کرنا ضروری ہے، یہ صرف حکومت کی تنقید نہیں ہے، یہ بات کرنے کا یہ راستہ دکھانا ہے جو ان کو خطرناک بناتا ہے۔

تو کیا پنیہ پرسون کے ساتھ ہوئے اس برتاؤ پر بولنے کا کام انہی چند لوگوں کا ہوگا، جن کی پہلے ہی شناخت ہو چکی ہے؟وہ سب جو چاہتے ہیں کہ میڈیا ان کی اور ان کی طرف سے بات کریں، وہ جلد ہی پائیں‌گے کہ ان کے کانوں میں شور بھر دیا گیا ہے اور وہ چیخنا چاہتے ہیں، لیکن گلے سے چیخ نکل نہیں رہی ہے۔ وہائس باکس نکالا جا چکا ہے۔

(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)