خبریں

اتر پردیش: گنا کسانوں کا 10ہزار کروڑ روپے سے زیادہ بقایہ

گنا کسانوں کا10074.98کروڑ روپے میں سے4547.97 کروڑ روپے یعنی 45 فیصدی سے زیادہ اتر پردیش کے صرف 6 انتخابی حلقوں میرٹھ، باغپت، کیرانہ، مظفرنگر، بجنور اور سہارن پور کے کارخانوں  پر بقایہ ہے۔

(فائل فوٹو : رائٹرس)

(فائل فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: اتر پردیش میں گنا کسانوں کا بقایہ 10000 کروڑ روپے سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اس بقایہ کا 45 فیصدی سے زیادہ ان آٹھ میں سے چھ انتخابی حلقوں کے کسانوں کا ہے، جہاں 11 اپریل کو پہلے مرحلے کا لوک سبھا انتخاب ہو رہا ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ میں گنا کمشنر دفتر کے ذریعے اکٹھا کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ 2018-19 پیرائی سیزن (اکتوبر-ستمبر) کے دوران 22 مارچ تک ریاست کے چینی کارخانہ نے 24888.65کروڑ کے گنے خریدے تھے۔

ریاستی حکومت کے ذریعے طےشدہ عام گنوں کے لئے 315 روپے فی کوئنٹل اور وقت سے پہلے تیار ہو جانے والے گنوں کو 325 روپے فی کوئنٹل پر گنا خریدا گیا۔چینی ملوں کو گنے کی خریداری کے 14 دنوں کے اندر 22175.21کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی تھی لیکن اصل ادائیگی رقم صرف 12339.04کروڑ روپے رہی، جس میں سے 9836.17کروڑ روپے بقایہ ہے۔

پچھلے 18-2017 سیزن کے 238.81 کروڑ روپے کے بقایہ کے ساتھ کسانوں کی کل بقایہ رقم 10074.98کروڑ روپے ہے۔ان 10074.98کروڑ روپے میں سے4547.97 کروڑ روپے یعنی 45 فیصدی سے زیادہ اتر پردیش کے صرف چھے انتخابی حلقوں میرٹھ، باغپت، کیرانہ، مظفرنگر، بجنور اور سہارن پور کے کارخانوں  پر بقایہ ہے۔

ان تمام 6 انتخابی حلقوں اور مغربی اتر پردیش کی دیگر دو سیٹوں (غازی آباد اور گوتم بدھ نگر) میں 11 اپریل کو انتخاب ہونا ہے۔سال 2014 میں لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی نے تمام آٹھوں انتخابی حلقوں پر جیت درج کی تھی۔ 2017 کے اسمبلی انتخاب میں پارٹی نے غازی آباد اور گوتم بدھ شہر کی 10 میں سے نو سیٹیں جیتنے کے علاوہ چھے لوک سبھا حلقوں کی 30 میں سے 24 سیٹیں جیتی تھی۔

2017 میں اسمبلی انتخاب کے منشور میں بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت گنے کی فروخت کے 14 دنوں کے اندر گنا کی پوری ادائیگی کسانوں کو کرے‌گی۔ موجودہ UP Sugarcane (Regulation of Supply and Purchase) Act1953 میں یہ اہتمام پہلے سے ہی ہے۔

ایک مل مالک نے کہا، ‘ مغربی اتر پردیش میں گنا کی ادائیگی بڑا مسئلہ ہے، جہاں سنبھاولی لی شوگرس، یوکے مودی، موانا، رانا اور بجاج ہندوستان جیسے گروپوں کے کارخانے ہیں، جن کا پیسہ سب سے زیادہ پھنسا ہوا ہے۔ دوسری طرف، ڈی سی ایم شری رام، ڈالمیا بھارت ، بلرام پور چینی، تروینی انجینئرنگ، دھام پورشوگر اور دواری کیش شوگر انڈسٹریز 80 فیصدی یا اس سے زیادہ ادائیگی کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ مغربی اتر پردیش کے کسان زیادہ منظم ہیں۔ بی جے پی کو یہاں سخت چیلنج ملنے جا رہا ہے۔’